Poetries by Asif Jaleel
بنت آدم عورت کو فقط
حوا کی بیٹی نہ کہیے
یہ آدم کی اولاد بھی ہے
پھر اتنی تذلیل کس لئے
ہر گالی اس کے نام سے منسوب کس لئے
اس ذات کی یہ تحقیر کس لئے
اپنی ماں،بیٹی بہن کی
کہ جن کی عزت کے رکھوالے ہو تم
پاس و لحاظ والے ہو تم
یہی بیٹی جب غیر کی ہو تو
نظروں سے تولتے ہو تم
پلکوں سے نوچتے ہو تم
سُنو ائے ابن آدم
تم عورت سے ہو کیوں اس قدر تنگ؟
کہ وجۂ تخلیق بن کر
جس نے اس دھرتی پہ تم کو لایا
اسی کو تم نے زندہ کیوں جلایا
کہیں ہم نے دیکھے
کلیوں کے سودے
وہ مرجھا گئے
جو تھے ننھے سے پودے
اس قدر تضاد کیوں ہے؟
یہ فطرت برباد کیوں ہے؟
تُو اس کو نوچ کر بھی
شاد وآباد کیوں ہے،
تجھ میں ہوس کی
اتنی پیاس کیوں ہے۔۔
تیرا احساس کھوگیا ہے کہاں Asif Jaleel
حوا کی بیٹی نہ کہیے
یہ آدم کی اولاد بھی ہے
پھر اتنی تذلیل کس لئے
ہر گالی اس کے نام سے منسوب کس لئے
اس ذات کی یہ تحقیر کس لئے
اپنی ماں،بیٹی بہن کی
کہ جن کی عزت کے رکھوالے ہو تم
پاس و لحاظ والے ہو تم
یہی بیٹی جب غیر کی ہو تو
نظروں سے تولتے ہو تم
پلکوں سے نوچتے ہو تم
سُنو ائے ابن آدم
تم عورت سے ہو کیوں اس قدر تنگ؟
کہ وجۂ تخلیق بن کر
جس نے اس دھرتی پہ تم کو لایا
اسی کو تم نے زندہ کیوں جلایا
کہیں ہم نے دیکھے
کلیوں کے سودے
وہ مرجھا گئے
جو تھے ننھے سے پودے
اس قدر تضاد کیوں ہے؟
یہ فطرت برباد کیوں ہے؟
تُو اس کو نوچ کر بھی
شاد وآباد کیوں ہے،
تجھ میں ہوس کی
اتنی پیاس کیوں ہے۔۔
تیرا احساس کھوگیا ہے کہاں Asif Jaleel
جُدائی کسی کو الوداع کہنا
بہت تکلیف دیتا ہے
امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
یقیں پہ بے یقیں کا کہر کچھ ایسا چڑھتا ہے
دکھائی کچھ نہیں دیتا سجھائی کچھ نہیں دیتا
دعا کے لفظ ہونٹوں پر مسلسل کپکپاتے ہیں
کسی خواہش کے اندیشے
ذہن میں دوڑ جاتے ہیں
گماں کچھ ایسے ہوتا ہے
کہ جیسے مل نہ پائینگے
یہ گہرے زخم فرقت کے
کسی سے سل نہ پائینگے
کبھی ایسا بھی یا رب
دعائیں سن بھی لے میری
تو کوئی معجزہ کردے ،توایسا کر بھی سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ
تُو اِن کو بھر بھی سکتا ہے
جدائی کی یہ تیکھی دھار
دلوں کا خون کرتی ہے
جدائی کی اذیت سے
میرا دل اب بھی ڈرتا ہے
جدائی دو گھڑی کی ہو تو کوئی دل کو سمجھائے
جدائی چار پل کی ہو تو کوئی دل کو بہلائے
جدائی عمر بھر کی ہو تو کیا چارہ کرے کوئی
کہ اک ملنے کی حسرت میں بھلا کب تک جیئے کوئی
میرے مولا کرم کردے ،تُو ایسا کر بھی سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ
انھیں تُو بھر بھی سکتا ہے Asif Jaleel
بہت تکلیف دیتا ہے
امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
یقیں پہ بے یقیں کا کہر کچھ ایسا چڑھتا ہے
دکھائی کچھ نہیں دیتا سجھائی کچھ نہیں دیتا
دعا کے لفظ ہونٹوں پر مسلسل کپکپاتے ہیں
کسی خواہش کے اندیشے
ذہن میں دوڑ جاتے ہیں
گماں کچھ ایسے ہوتا ہے
کہ جیسے مل نہ پائینگے
یہ گہرے زخم فرقت کے
کسی سے سل نہ پائینگے
کبھی ایسا بھی یا رب
دعائیں سن بھی لے میری
تو کوئی معجزہ کردے ،توایسا کر بھی سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ
تُو اِن کو بھر بھی سکتا ہے
جدائی کی یہ تیکھی دھار
دلوں کا خون کرتی ہے
جدائی کی اذیت سے
میرا دل اب بھی ڈرتا ہے
جدائی دو گھڑی کی ہو تو کوئی دل کو سمجھائے
جدائی چار پل کی ہو تو کوئی دل کو بہلائے
جدائی عمر بھر کی ہو تو کیا چارہ کرے کوئی
کہ اک ملنے کی حسرت میں بھلا کب تک جیئے کوئی
میرے مولا کرم کردے ،تُو ایسا کر بھی سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ
انھیں تُو بھر بھی سکتا ہے Asif Jaleel