چہرہ دیکھیں تیرے ہونٹ اور پلکیں دیکھیں
Poet: تہذیب حافی By: Umair Khan, Hyderabad
چہرہ دیکھیں تیرے ہونٹ اور پلکیں دیکھیں
دل پہ آنکھیں رکھیں تیری سانسیں دیکھیں
سرخ لبوں سے سبز دعائیں پھوٹی ہیں
پیلے پھولوں تم کو نیلی آنکھیں دیکھیں
سال ہونے کو آیا ہے وہ کب لوٹے گا
آؤ کھیت کی سیر کو نکلیں کونجیں دیکھیں
تھوڑی دیر میں جنگل ہم کو عاق کرے گا
برگد دیکھیں یا برگد کی شاخیں دیکھیں
میرے مالک آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں
ساتھ چلیں ہم اور دنیا کی آنکھیں دیکھیں
ہم تیرے ہونٹوں کی لرزش کب بھولے ہیں
پانی میں پتھر پھینکیں اور لہریں دیکھیں
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر






