دل ہی تو ہے‘ نہ سنگ و خشت‘ درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
Poet: MIRZA GHALIB By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
دل ہی تو ہے‘ نہ سنگ و خشت‘ درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار‘ کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دیر نہیں‘ حرم نہیں‘ در نہیں‘ آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم‘ غیر ہمیں اٹھائے کیوں؟
جب وہ جمالِ دلفروز‘ صورتِ مہرِ نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز‘ پردے میں منہ چھپائے کیوں؟
دشنۂ غمزہ جاں ستاں‘ ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکسِ رخ سہی‘ سامنے تیرے آئے کیوں؟
قیدِ حیات و بندِ غم‘ اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے‘ آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
حسن اور اس پہ حسنِ ظن‘ رہ گئی بو الہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے‘ غیر کو آزمائے کیوں؟
واں وہ غرورِ عز و ناز‘ یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں؟ بزم میں وہ بلائے کیوں؟
ہاں‘ وہ نہیں خدا پرست‘ جاؤ‘ وہ بیوفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اس کی گلی میں جائے کیوں؟
غالبؔ خستہ کے بغیر‘ کون سے کام بند ہیں!
روئیے زار زار کیا؟ کیجیے ہائے ہائے کیوں؟
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل






