Ek Larki Hai Gazal Ki Taraah
Poet: shabnam shakeel By: danish, khiGulaabon Se Lipati Shabnam Ki Taraah
Usaki Adaayein Hai Mausam Ki Taraah
Sheeshe Sa Badan Naadaan Dil
Ek Ladki Hai Gazal Ki Taraah
Palkon Pe Ruki Woh Meri Zindagi
Milati Hai Mujhse Kwhabon Ki Taraah
Khafa Jo Mujhse Bhaiti Hai Duur
Chaahaa Hai Use Zindagi Ki Taraah
Banke Badal Jo Dil Pe Chaayi Hai
Aankhon Mein Bikhari Thi Kajaal Ki Taraah
Jaanegi Jab Meri Mohobbat Ki Intehaa
Dhundegi Woh Mujhe Deewaano Ki Taraah
Kehate Hai Log “Pyar” Jise
Hamne Woh Kiyaa Ibaadat Ki Taraah
More Shabnam Shakeel Poetry
در آیا اندھیرا آنکھوں میں اور سب منظر دھندلائے ہیں در آیا اندھیرا آنکھوں میں اور سب منظر دھندلائے ہیں
یہ وقت ہے دل کے ڈوبنے کا اور شام کے گہرے سائے ہیں
یہ ذرا ذرا سی خوشیاں بھی تو لاکھ جتن سے ملتی ہیں
مت چھیڑو ریت گھروندوں کو کس مشکل سے بن پائے ہیں
وہ لمحہ دل کی اذیت کا تو گزر گیا اب سوچنے دو
کیا کہنا ہوگا ان سے مجھے جو پرسش غم کو آئے ہیں
جلتی ہوئی شمعوں نے اکثر احساس کی راکھ کو بھڑکایا
قربت میں دمکتے چہروں کی تنہائی کے دکھ یاد آئے ہیں
سوچوں کو تر و تازہ رکھا شبنمؔ ترے پیہم اشکوں نے
حیرت ہے کہ عہد خزاں میں بھی یہ پھول نہیں کمھلائے ہیں
یہ وقت ہے دل کے ڈوبنے کا اور شام کے گہرے سائے ہیں
یہ ذرا ذرا سی خوشیاں بھی تو لاکھ جتن سے ملتی ہیں
مت چھیڑو ریت گھروندوں کو کس مشکل سے بن پائے ہیں
وہ لمحہ دل کی اذیت کا تو گزر گیا اب سوچنے دو
کیا کہنا ہوگا ان سے مجھے جو پرسش غم کو آئے ہیں
جلتی ہوئی شمعوں نے اکثر احساس کی راکھ کو بھڑکایا
قربت میں دمکتے چہروں کی تنہائی کے دکھ یاد آئے ہیں
سوچوں کو تر و تازہ رکھا شبنمؔ ترے پیہم اشکوں نے
حیرت ہے کہ عہد خزاں میں بھی یہ پھول نہیں کمھلائے ہیں
Muzammil
مجبور ہیں پر اتنے تو مجبور بھی نہیں مجبور ہیں پر اتنے تو مجبور بھی نہیں
جب ان کو بھول جائیں وہ دن دور بھی نہیں
کچھ تو لکھی ہیں اپنے مقدر میں گردشیں
کچھ پیار میں نباہ کا دستور بھی نہیں
میں نے سنا ہے ترک تعلق کے بعد سے
افسردہ گر نہیں تو وہ مسرور بھی نہیں
دیکھی ہیں میں نے ایسی بھی دکھیا سہاگنیں
بیاہی ہیں اور مانگ میں سیندور بھی نہیں
یہ جس کا زہر روح میں میری اتر گیا
ہلکا سا گھاؤ تھا کوئی ناسور بھی نہیں
اس کی نظر سے کیوں کبھی گزرے مری غزل
ایسی تو خاص میں کوئی مشہور بھی نہیں
جب ان کو بھول جائیں وہ دن دور بھی نہیں
کچھ تو لکھی ہیں اپنے مقدر میں گردشیں
کچھ پیار میں نباہ کا دستور بھی نہیں
میں نے سنا ہے ترک تعلق کے بعد سے
افسردہ گر نہیں تو وہ مسرور بھی نہیں
دیکھی ہیں میں نے ایسی بھی دکھیا سہاگنیں
بیاہی ہیں اور مانگ میں سیندور بھی نہیں
یہ جس کا زہر روح میں میری اتر گیا
ہلکا سا گھاؤ تھا کوئی ناسور بھی نہیں
اس کی نظر سے کیوں کبھی گزرے مری غزل
ایسی تو خاص میں کوئی مشہور بھی نہیں
zaid
چلتی رہتی ہے تسلسل سے جنوں خیز ہوا چلتی رہتی ہے تسلسل سے جنوں خیز ہوا
جلتا رہتا ہے مگر پھر بھی کہیں ایک دیا
کسی محفل میں کوئی شخص بہت کھل کے ہنسا
واقعہ یہ تو عجب آج یہاں پیش آیا
یاد آتا ہے بہت ایک پرانا آنگن
جس میں پیپل کا گھنا پیڑ ہوا کرتا تھا
اشک بہتے ہیں تو بہتے ہی چلے جاتے ہیں
روک سکتا ہے بہاؤ بھی کوئی دریا کا
رات ہم ایک غزل لکھتے ہوئے روتے رہے
بعض لفظوں کو تو اشکوں نے مٹا ہی ڈالا
پھر سے ٹکرا گیا مجھ ہی سے مرے دل کا مفاد
پھر سے برپا ہوا اک معرکۂ کرب و بلا
جلتا رہتا ہے مگر پھر بھی کہیں ایک دیا
کسی محفل میں کوئی شخص بہت کھل کے ہنسا
واقعہ یہ تو عجب آج یہاں پیش آیا
یاد آتا ہے بہت ایک پرانا آنگن
جس میں پیپل کا گھنا پیڑ ہوا کرتا تھا
اشک بہتے ہیں تو بہتے ہی چلے جاتے ہیں
روک سکتا ہے بہاؤ بھی کوئی دریا کا
رات ہم ایک غزل لکھتے ہوئے روتے رہے
بعض لفظوں کو تو اشکوں نے مٹا ہی ڈالا
پھر سے ٹکرا گیا مجھ ہی سے مرے دل کا مفاد
پھر سے برپا ہوا اک معرکۂ کرب و بلا
Ghazanfar
آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا
ہر بار مسرت کا اعادہ نہیں ہوتا
یہ کیسی صداقت ہے کہ پردوں میں چھپی ہے
اخلاص کا تو کوئی لبادہ نہیں ہوتا
جنگل ہو کہ صحرا کہیں رکنا ہی پڑے گا
اب مجھ سے سفر اور زیادہ نہیں ہوتا
اک آنچ کی پہلے بھی کسر رہتی رہی ہے
کیوں ساتواں در مجھ پہ کشادہ نہیں ہوتا
سچ بات مرے منہ سے نکل جاتی ہے اکثر
ہر چند مرا ایسا ارادہ نہیں ہوتا
اے حرف ثنا سحر مسلم ترا تجھ سے
بڑھ کر تو کوئی ساغر بادہ نہیں ہوتا
افسانۂ افسون جوانی کے علاوہ
کس بات کا دنیا میں اعادہ نہیں ہوتا
سورج کی رفاقت میں چمک اٹھتا ہے چہرہ
شبنمؔ کی طرح سے کوئی سادہ نہیں ہوتا
ہر بار مسرت کا اعادہ نہیں ہوتا
یہ کیسی صداقت ہے کہ پردوں میں چھپی ہے
اخلاص کا تو کوئی لبادہ نہیں ہوتا
جنگل ہو کہ صحرا کہیں رکنا ہی پڑے گا
اب مجھ سے سفر اور زیادہ نہیں ہوتا
اک آنچ کی پہلے بھی کسر رہتی رہی ہے
کیوں ساتواں در مجھ پہ کشادہ نہیں ہوتا
سچ بات مرے منہ سے نکل جاتی ہے اکثر
ہر چند مرا ایسا ارادہ نہیں ہوتا
اے حرف ثنا سحر مسلم ترا تجھ سے
بڑھ کر تو کوئی ساغر بادہ نہیں ہوتا
افسانۂ افسون جوانی کے علاوہ
کس بات کا دنیا میں اعادہ نہیں ہوتا
سورج کی رفاقت میں چمک اٹھتا ہے چہرہ
شبنمؔ کی طرح سے کوئی سادہ نہیں ہوتا
ibrahim
Ek Larki Hai Gazal Ki Taraah Gulaabon Se Lipati Shabnam Ki Taraah
Usaki Adaayein Hai Mausam Ki Taraah
Sheeshe Sa Badan Naadaan Dil
Ek Ladki Hai Gazal Ki Taraah
Palkon Pe Ruki Woh Meri Zindagi
Milati Hai Mujhse Kwhabon Ki Taraah
Khafa Jo Mujhse Bhaiti Hai Duur
Chaahaa Hai Use Zindagi Ki Taraah
Banke Badal Jo Dil Pe Chaayi Hai
Aankhon Mein Bikhari Thi Kajaal Ki Taraah
Jaanegi Jab Meri Mohobbat Ki Intehaa
Dhundegi Woh Mujhe Deewaano Ki Taraah
Kehate Hai Log “Pyar” Jise
Hamne Woh Kiyaa Ibaadat Ki Taraah
Usaki Adaayein Hai Mausam Ki Taraah
Sheeshe Sa Badan Naadaan Dil
Ek Ladki Hai Gazal Ki Taraah
Palkon Pe Ruki Woh Meri Zindagi
Milati Hai Mujhse Kwhabon Ki Taraah
Khafa Jo Mujhse Bhaiti Hai Duur
Chaahaa Hai Use Zindagi Ki Taraah
Banke Badal Jo Dil Pe Chaayi Hai
Aankhon Mein Bikhari Thi Kajaal Ki Taraah
Jaanegi Jab Meri Mohobbat Ki Intehaa
Dhundegi Woh Mujhe Deewaano Ki Taraah
Kehate Hai Log “Pyar” Jise
Hamne Woh Kiyaa Ibaadat Ki Taraah
danish






