Poetries by F.H.SIDDIQUI
آج بت خانے سے ہم سوئے حرم نکلے ہیں آزمانے کے لئے اس کا کرم نکلے ہیں
آج بت خانے سے ہم سوئے حرم نکلے ہیں
کیسے تخلیق ہوئی، بعد اجل کیا ہو گا
ان سوالوں ہی سے سب دین و دھرم مکلے ہیں
غلبہ تھا ذہن پہ رنگین سے کچھ خوابوں کا
عشق میں ڈوبے تو اب سارے بھرم نکلے ہیں
کھائے ہیں اہل زباںخوف ستم گر کتنا
لب بھی خاموش ہیں، کاغذ نہ قلم نکلے ہیں
ضد ہے اس یار کو ہرگز نہ اٹھائے گا نقاب
کھا کے دیدار کی پر ہم بھی قسم نکلے ہیں
فخر سے قوت باطل کو کیا ہے مفلوج
جب ذرا سر پہ کفن باندھ کے ہم نکلے ہیں
پلٹے اوراق ذرا آج جو کچھ ماضی کے
ہر ستم ان کے ‘حسن‘ دل پہ رقم نکلے ہیں F.H.SIDDIQUI
آج بت خانے سے ہم سوئے حرم نکلے ہیں
کیسے تخلیق ہوئی، بعد اجل کیا ہو گا
ان سوالوں ہی سے سب دین و دھرم مکلے ہیں
غلبہ تھا ذہن پہ رنگین سے کچھ خوابوں کا
عشق میں ڈوبے تو اب سارے بھرم نکلے ہیں
کھائے ہیں اہل زباںخوف ستم گر کتنا
لب بھی خاموش ہیں، کاغذ نہ قلم نکلے ہیں
ضد ہے اس یار کو ہرگز نہ اٹھائے گا نقاب
کھا کے دیدار کی پر ہم بھی قسم نکلے ہیں
فخر سے قوت باطل کو کیا ہے مفلوج
جب ذرا سر پہ کفن باندھ کے ہم نکلے ہیں
پلٹے اوراق ذرا آج جو کچھ ماضی کے
ہر ستم ان کے ‘حسن‘ دل پہ رقم نکلے ہیں F.H.SIDDIQUI
میرا محبوب کسی اور کا محبوب بھی ہے بات معیوب بھی ہے اور بہت خوب بھی ہے
میرا محبوب کسی اور کا محبوب بھی ہے
حوصلہ جینے کا دیتا ہے تصور تیرا
اور ویرانئہ دل تجھ سے ہی منسوب بھی ہے
کیسے امید ر کھیں اس سے مسیحائی کی
ہر اذیئت ہمیں دینا جسے مر غوب بھی ہے
اس لئے دب کے رہیں دل میں انائیں میری
جذبئہ عشق ترے حسن سے مغلوب بھی ہے
نور ایماں ہو تو کھل جاتی ہیں پرتیں ساری
ذات پاک اس کی عیاں بھی ، ذرا محجوب بھی ہے
صبر کا پیالہ مرا اس لئے چھلکا نہ کبھی
ذہن میں کیفیت حضرت ایوب ء بھی ہے
مت گرا ساقیا معیار مری رندی کا
جام کو ثر سا سنا ہے کوئی مشروب بھی ہے
کیسے ممکن ہے زوال اپنی محبت کا ‘حسن“
میرا طالب بھی ہے وہ ، اور مرا مطلوب بھی ہے F.H.SIDDIQUI
میرا محبوب کسی اور کا محبوب بھی ہے
حوصلہ جینے کا دیتا ہے تصور تیرا
اور ویرانئہ دل تجھ سے ہی منسوب بھی ہے
کیسے امید ر کھیں اس سے مسیحائی کی
ہر اذیئت ہمیں دینا جسے مر غوب بھی ہے
اس لئے دب کے رہیں دل میں انائیں میری
جذبئہ عشق ترے حسن سے مغلوب بھی ہے
نور ایماں ہو تو کھل جاتی ہیں پرتیں ساری
ذات پاک اس کی عیاں بھی ، ذرا محجوب بھی ہے
صبر کا پیالہ مرا اس لئے چھلکا نہ کبھی
ذہن میں کیفیت حضرت ایوب ء بھی ہے
مت گرا ساقیا معیار مری رندی کا
جام کو ثر سا سنا ہے کوئی مشروب بھی ہے
کیسے ممکن ہے زوال اپنی محبت کا ‘حسن“
میرا طالب بھی ہے وہ ، اور مرا مطلوب بھی ہے F.H.SIDDIQUI
شب ہے،تنھائی ہے ، میں ہوں،محبوب ہے شب ہے،تنھائی ہے ، میں ہوں،محبوب ہے
یہ نوازش تری اے خدا خوب یے
جب سے افشاء ہوا اپنی الفت کا راز
ہر ادا ان کی مجھ سے ہی منسوب ہے
جی تو کرتا ہے بانہوں میں بھر لوں انھیں
بات لیکن یہ سنتے ہیں معیوب ہے
وہ ہی مانوس سی خوشبو آنے لگی
لا ادھر نامہ بر، ان کا مکتوب ہے
بس تری دھن ہے اور عالم بیخودی
لوگ سمجھے ہیں یہ کوئی مجذوب ہے
حسن کے سامنے کیسے شکوے گلے
بات وہ کیجے جو ان کو مر غوب ہے
اے ‘حسن‘ اس لئے ان سے بنتی نہیں
جی حضوری ھی بس ان کو مطلوب ہے ‘ F.H.SIDDIQUI
یہ نوازش تری اے خدا خوب یے
جب سے افشاء ہوا اپنی الفت کا راز
ہر ادا ان کی مجھ سے ہی منسوب ہے
جی تو کرتا ہے بانہوں میں بھر لوں انھیں
بات لیکن یہ سنتے ہیں معیوب ہے
وہ ہی مانوس سی خوشبو آنے لگی
لا ادھر نامہ بر، ان کا مکتوب ہے
بس تری دھن ہے اور عالم بیخودی
لوگ سمجھے ہیں یہ کوئی مجذوب ہے
حسن کے سامنے کیسے شکوے گلے
بات وہ کیجے جو ان کو مر غوب ہے
اے ‘حسن‘ اس لئے ان سے بنتی نہیں
جی حضوری ھی بس ان کو مطلوب ہے ‘ F.H.SIDDIQUI
شرارت تھوڑی سی چہرہ پہ چمک، باتوں میں کھنک ، آنکھوں میں شرارت تھوڑی سی
کیا جرم تھا جو دل بھول گیا اپنی بھی شرافت تھوڑی سی
آکاش تلک دیکھ آئے ہیں ، کوئی بھی نہیں ہمسر تیرا
ہاں ، چاند میں بس مل جاتی ہے ، کچھ تیری شباہت تھوڑی سی
وہ ھم سے کشیدہ رہتے ہیں ، ہم ان سے کشیدہ رہتے ہیں
دونوں میں انائیں تھوڑی سی ، دونوں کو شکایت تھوڑی سی
آلام زمانہ سے تو ہم ، مرجھائے سے رہتے ہیں ۔ لیکن
دیدار سے ان کے آئے ہے ، چہرہ پہ بشاشت تھوڑی سی
ہم خؤب سمجھتے ہیں یارو ، مفہوم تمھاری باتوں کا
اﷲ نے بخشی ہے شاید، ہم کو بھی ذہانت تھوڑی سی
چھوڑ آئے حرم کی خاطر ، سب جام و سبو کی شامیں ہم
باقی ہے مگر دل میں اب بھی ، میخانے سے رغبت تھوڑی سی
دلبر کی اداؤں سے ہی فقط ، بھانپے ہیں ‘حسن“ دلبر کا مزاج
ہے فن میں محبت کے حاصل ، ہم کو بھی مہارت تھوڑی سی F.H.SIDDIQUI
کیا جرم تھا جو دل بھول گیا اپنی بھی شرافت تھوڑی سی
آکاش تلک دیکھ آئے ہیں ، کوئی بھی نہیں ہمسر تیرا
ہاں ، چاند میں بس مل جاتی ہے ، کچھ تیری شباہت تھوڑی سی
وہ ھم سے کشیدہ رہتے ہیں ، ہم ان سے کشیدہ رہتے ہیں
دونوں میں انائیں تھوڑی سی ، دونوں کو شکایت تھوڑی سی
آلام زمانہ سے تو ہم ، مرجھائے سے رہتے ہیں ۔ لیکن
دیدار سے ان کے آئے ہے ، چہرہ پہ بشاشت تھوڑی سی
ہم خؤب سمجھتے ہیں یارو ، مفہوم تمھاری باتوں کا
اﷲ نے بخشی ہے شاید، ہم کو بھی ذہانت تھوڑی سی
چھوڑ آئے حرم کی خاطر ، سب جام و سبو کی شامیں ہم
باقی ہے مگر دل میں اب بھی ، میخانے سے رغبت تھوڑی سی
دلبر کی اداؤں سے ہی فقط ، بھانپے ہیں ‘حسن“ دلبر کا مزاج
ہے فن میں محبت کے حاصل ، ہم کو بھی مہارت تھوڑی سی F.H.SIDDIQUI
“مٹایا گردش افلاک نے جاہ و حشم میرا“ نہ تھا یوں تو زمانے میں کسی سے رتبہ کم میرا
“مٹایا گردش افلاک نے جاہ و حشم میرا“
تھکے قدموں سے گزری ساتھ ساری زندگی اپنی
نہ اس کا ھم قدم میں تھا، نہ وہ تھا ہم قدم میرا
قسم کھائی ہے سہنے کی تمھارا ہر ستم میں نے
قسم اب تم کو جانآں ، آزما لو تم بھی دم میرا
سخن پر میرے بس ان کا ہی غلبہ ہے، اجارہ ہے
تصور میں وہ آتے ہیں تو چلتا ہے قلم میرا
نہیں ہے وہ میرا ، وہ ہرجائی ہے ، مانا ‘حسن‘ لیکن
زمانہ سارا سمجھے ہے اسے اب بھی صنم میرا
( طرحی غزل بر مصرعہ برج نرائن چکبست لکھنوی ) F.H.SIDDIQUI
“مٹایا گردش افلاک نے جاہ و حشم میرا“
تھکے قدموں سے گزری ساتھ ساری زندگی اپنی
نہ اس کا ھم قدم میں تھا، نہ وہ تھا ہم قدم میرا
قسم کھائی ہے سہنے کی تمھارا ہر ستم میں نے
قسم اب تم کو جانآں ، آزما لو تم بھی دم میرا
سخن پر میرے بس ان کا ہی غلبہ ہے، اجارہ ہے
تصور میں وہ آتے ہیں تو چلتا ہے قلم میرا
نہیں ہے وہ میرا ، وہ ہرجائی ہے ، مانا ‘حسن‘ لیکن
زمانہ سارا سمجھے ہے اسے اب بھی صنم میرا
( طرحی غزل بر مصرعہ برج نرائن چکبست لکھنوی ) F.H.SIDDIQUI
لرزاں قدم زمیں پہ ، نظر آسمان پر لرزاں قدم زمیں پہ ، نظر آسمان پر
پر ہوش کے لگا لے تو اپنی اڑان پر
لاحق ہے خطرہ شہر کے امن و امان پر
پھر ٹھپہ اک لگا گیا کوئی مکان پر
دریا مچل رہا ہو تو اک گھونٹ لے ہی لو
پیاس اتنی مت بڑھاؤ کہ بن آئے جان پر
بھرتے ہیں پارسائی کا دم میری سب یہاں
مشکوک ہو ئئے نہ لبوں کے نشان پر
مشکل بہت ہے بچنا حسینوں کے دام سے
رہتے ہیں تانے تیر وہ اپنی کمان پر
بس ناتواں دلوں پہ ذرا رحم کیجئیو
کمسن ترا شباب یے اپنی اٹھان پر
تنگ آ کے راستوں کے نشیب و فراز سے
اب گامزن ہے زیست بس اپنی ڈھلان پر
کفر اس سے بڑھ کے اور بھلا ہو گا کیا ‘ حسن ‘
ہے بغض و کینہ ذہن میں کلمہ زبان پر F.H.SIDDIQUI
پر ہوش کے لگا لے تو اپنی اڑان پر
لاحق ہے خطرہ شہر کے امن و امان پر
پھر ٹھپہ اک لگا گیا کوئی مکان پر
دریا مچل رہا ہو تو اک گھونٹ لے ہی لو
پیاس اتنی مت بڑھاؤ کہ بن آئے جان پر
بھرتے ہیں پارسائی کا دم میری سب یہاں
مشکوک ہو ئئے نہ لبوں کے نشان پر
مشکل بہت ہے بچنا حسینوں کے دام سے
رہتے ہیں تانے تیر وہ اپنی کمان پر
بس ناتواں دلوں پہ ذرا رحم کیجئیو
کمسن ترا شباب یے اپنی اٹھان پر
تنگ آ کے راستوں کے نشیب و فراز سے
اب گامزن ہے زیست بس اپنی ڈھلان پر
کفر اس سے بڑھ کے اور بھلا ہو گا کیا ‘ حسن ‘
ہے بغض و کینہ ذہن میں کلمہ زبان پر F.H.SIDDIQUI
فلک کے ماہ و اختر دیکھ لیتا ہوں چھپائیں کتنا بھی وہ اپنا پیکر ، دیکھ لیتا ہوں
میں ان کو عشق کے جذبوں میں ڈھل کر دیکھ لیتا ہوں
عطا کی ہے خدا نے تھوڈی سی جوہر شناسی بھی
‘ میں اک شبنم کے قطرے میں سمندر دیکھ لیتا ہوں ‘
ہے فطرت میں قناعت ‘ تو فقط چکھتا ہوں تھوڑی سی
مزہ آیا اگر چکھ کر ، تو پی کر دیکھ لیتا ہوں
خدا محفوظ رکھتا ہے کرم سے خیر خواہوں کے
کہ ان کی آستینوں کے میں خنجر دیکھ لیتا ہوں
میں اپنی تنگدستی کو عیاں ہونے نہیں دیتا
بڑھانا ہو اگر پاؤں ، تو چادر دیکھ لیتا ہوں
تکلم سے ہی کر لیتا ہوں بس پہچان شجروں کی
میں نابینا ہوں لیکن تم سے بہتر دیکھ لیتا ہوں
نھیں پردیس میں جب سونے دیتی یاد بچوں کی
نم آںکھوں سے فلک کے ماہ و اختر دیکھ لیتا ہوں
بھلانے کو ‘ حسن ‘ میں اضطراب دور حاظر کو
بند آںکھوں سے حسیں یادوں کے منظر دیکھ لیتا ہوں F.H.SIDDIQUI
میں ان کو عشق کے جذبوں میں ڈھل کر دیکھ لیتا ہوں
عطا کی ہے خدا نے تھوڈی سی جوہر شناسی بھی
‘ میں اک شبنم کے قطرے میں سمندر دیکھ لیتا ہوں ‘
ہے فطرت میں قناعت ‘ تو فقط چکھتا ہوں تھوڑی سی
مزہ آیا اگر چکھ کر ، تو پی کر دیکھ لیتا ہوں
خدا محفوظ رکھتا ہے کرم سے خیر خواہوں کے
کہ ان کی آستینوں کے میں خنجر دیکھ لیتا ہوں
میں اپنی تنگدستی کو عیاں ہونے نہیں دیتا
بڑھانا ہو اگر پاؤں ، تو چادر دیکھ لیتا ہوں
تکلم سے ہی کر لیتا ہوں بس پہچان شجروں کی
میں نابینا ہوں لیکن تم سے بہتر دیکھ لیتا ہوں
نھیں پردیس میں جب سونے دیتی یاد بچوں کی
نم آںکھوں سے فلک کے ماہ و اختر دیکھ لیتا ہوں
بھلانے کو ‘ حسن ‘ میں اضطراب دور حاظر کو
بند آںکھوں سے حسیں یادوں کے منظر دیکھ لیتا ہوں F.H.SIDDIQUI
ہر دعا ان سنی رہ گئی کیا عقیدت میں جانے کمی رہ گئی
میری ہر اک دعا ان سنی رہ گئی
بس اتھی بھی نہ تھی ، گر گئی پھر نقاب
دل کی حسرت دبی کی دبی رہ گئی
وہ ملے ، دیر تک خوب باتیں ھو ئیں
بس وہی ایک بات ان کہی رہ گئی
آںکھوں سے پونچھ تو ڈالے آنسو ، مگر
کیفیت شبنمی شبنمی رہ گئی
الوداع کہہ گیا کیا شریک حیا ت
موت بن کر مری زندگی رہ گئی
بس پڑی ہی تھی بے شرمیوں پر نظر
شرم سے پھر جھکی کی جھکی رہ گئی
ماں تھی ، اولاد کے سارے غم سہہ گئی
بس طبیعت ذرا چڑچری رہ گئی
اتنا اعلی تھا کردار اس کا ‘ حسن ‘
ساری دنیا جسے دیکھتی رہ گئی F.H.Siddiqui
میری ہر اک دعا ان سنی رہ گئی
بس اتھی بھی نہ تھی ، گر گئی پھر نقاب
دل کی حسرت دبی کی دبی رہ گئی
وہ ملے ، دیر تک خوب باتیں ھو ئیں
بس وہی ایک بات ان کہی رہ گئی
آںکھوں سے پونچھ تو ڈالے آنسو ، مگر
کیفیت شبنمی شبنمی رہ گئی
الوداع کہہ گیا کیا شریک حیا ت
موت بن کر مری زندگی رہ گئی
بس پڑی ہی تھی بے شرمیوں پر نظر
شرم سے پھر جھکی کی جھکی رہ گئی
ماں تھی ، اولاد کے سارے غم سہہ گئی
بس طبیعت ذرا چڑچری رہ گئی
اتنا اعلی تھا کردار اس کا ‘ حسن ‘
ساری دنیا جسے دیکھتی رہ گئی F.H.Siddiqui
پیاسے تو تشنگی کا سمندر ہی لے چلیں جائیں جہاں بھی یہ ، دل مضطر ہی لے چلیں
پیاسے تو تشنگی کا سمندر ہی لے چلیں
ہا رے تمام اہل سفر حوصلے تو کیا
آ ؤ ہم اپنے عزم کے لشکر ہی لے چلیں
ناکام میکدے سے یوں جانا حرام ہے
حاصل نھیں شراب ، تو ساغر ہی لے چلیں
کچھ تو نشان زخم تمنا کے ساتھ ہوں
“ آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں “
نفرت کی آندھیوں نے کیا در بدر ہمیں
آؤ ہم اپنے گاؤں کے منظر ہی لے چلیں
تسکین زخم دل کے لئے کچھ تو چاہئے
مرحم نہیں نصیب تو نشتر ہی لے چلیں
یہ شعر و شاعری ترے بس کی نہیں ‘حسن‘
وہ کارواں ہے یہ جو سخنور ہی لے چلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب ناصر کاظمی کے مصرعہ طرح پر ایک طرحی غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ F.H.Siddiqui
پیاسے تو تشنگی کا سمندر ہی لے چلیں
ہا رے تمام اہل سفر حوصلے تو کیا
آ ؤ ہم اپنے عزم کے لشکر ہی لے چلیں
ناکام میکدے سے یوں جانا حرام ہے
حاصل نھیں شراب ، تو ساغر ہی لے چلیں
کچھ تو نشان زخم تمنا کے ساتھ ہوں
“ آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں “
نفرت کی آندھیوں نے کیا در بدر ہمیں
آؤ ہم اپنے گاؤں کے منظر ہی لے چلیں
تسکین زخم دل کے لئے کچھ تو چاہئے
مرحم نہیں نصیب تو نشتر ہی لے چلیں
یہ شعر و شاعری ترے بس کی نہیں ‘حسن‘
وہ کارواں ہے یہ جو سخنور ہی لے چلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب ناصر کاظمی کے مصرعہ طرح پر ایک طرحی غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ F.H.Siddiqui
ساگر نے گھڑکیاں دیں تو دریا سنبھل گیا چلئے کسی طرح تو یہ طوفان ٹل گیا
ساگر نے گھڑکیاں دیں تو دریا سنبھل گیا
ٹوٹے سبھی گواہ ، ہوئے کاغذات گم
قانون کے وہ دام سے سیدھا نکل گیا
پھر آج آنکھ سے مری آنسو چھلک پڑے
پھر اک کھلونے کے لئے بچہ مچل گیا
محبوب اس کو لوگ سمجھنے لگے مرا
نازک سا اک خیال جو غزلوں میں ڈھل گیا
ناکامیاں ملیں وہ اصول و ضمیر سے
سارا ہی زندگی کا نظر یہ بدل گیا
کر کے ستم ہزار ، وہ نادم جو ہو گیا
دل بھی ہمارا موم تھا ‘ پل میں پگھل گیا
سر تھا انا سے چور ، تکبر تھا چال میں
گیلی زمین پر پڑا ، پائوں پھسل گیا
ظلمت میں ساتھ چھو ڑ کے جاتا بنا کہیں
اپنا ہی سایہ دیکھو ‘حسن ‘ مجھ کو چھل گیا F.H. Siddiqui
ساگر نے گھڑکیاں دیں تو دریا سنبھل گیا
ٹوٹے سبھی گواہ ، ہوئے کاغذات گم
قانون کے وہ دام سے سیدھا نکل گیا
پھر آج آنکھ سے مری آنسو چھلک پڑے
پھر اک کھلونے کے لئے بچہ مچل گیا
محبوب اس کو لوگ سمجھنے لگے مرا
نازک سا اک خیال جو غزلوں میں ڈھل گیا
ناکامیاں ملیں وہ اصول و ضمیر سے
سارا ہی زندگی کا نظر یہ بدل گیا
کر کے ستم ہزار ، وہ نادم جو ہو گیا
دل بھی ہمارا موم تھا ‘ پل میں پگھل گیا
سر تھا انا سے چور ، تکبر تھا چال میں
گیلی زمین پر پڑا ، پائوں پھسل گیا
ظلمت میں ساتھ چھو ڑ کے جاتا بنا کہیں
اپنا ہی سایہ دیکھو ‘حسن ‘ مجھ کو چھل گیا F.H. Siddiqui
محمد کا روضہ نظر آ رہا ہے تصو ر یہ میرا کہاں جا رہا ہے
محمد کا روضہ نظر آ رہا ہے
مسرت کے آنسو بہے جا رہے ہیں
مگر دل یہ ڈوبا چلا جا رہا ہے
بیاں حال کوئے نبی کیسے کیجیے
جو دیکھا ، نہیں وہ کہا جا رہا ہے
نہیں سلسلہ تھمتا فریادیوں کا
کوئی آ گیا ہے ، کوئی آ رہا ہے
اٹھے گا ضرور ان کا دست شفاعت
خوشی سے یہ سینہ تنا جا رہا ہے
گدائے در مصطفی ہو گئے ہیں
کہ رتبہ ہمارا بڑھا جا رہا ہے
‘ حسن ‘ مانگ لیجے در مصطفے سے
غلاموں کا دامن بھرا جا رہا ہے F.H. Siddiqui
محمد کا روضہ نظر آ رہا ہے
مسرت کے آنسو بہے جا رہے ہیں
مگر دل یہ ڈوبا چلا جا رہا ہے
بیاں حال کوئے نبی کیسے کیجیے
جو دیکھا ، نہیں وہ کہا جا رہا ہے
نہیں سلسلہ تھمتا فریادیوں کا
کوئی آ گیا ہے ، کوئی آ رہا ہے
اٹھے گا ضرور ان کا دست شفاعت
خوشی سے یہ سینہ تنا جا رہا ہے
گدائے در مصطفی ہو گئے ہیں
کہ رتبہ ہمارا بڑھا جا رہا ہے
‘ حسن ‘ مانگ لیجے در مصطفے سے
غلاموں کا دامن بھرا جا رہا ہے F.H. Siddiqui
تھے آنسو مری چشم تر میں بہت نہ آئے اگرچے نظر میں بہت
تھے آنسو مری چشم تر میں بہت
تھا مطلب ترے نقش پا سے فقط
“ نشاں یوں تو تھے رہگزر میں بہت
مجھے بھا گئی بس تری سادگی
حسیں ورنہ آئے نظر میں بہت
ہو گر بارگاہ خدا میں قبول
تو اک سجدہ ہے عمر بھر میں بہت
عزائم کے بل پر اڑانیں بھریں
نہ تھا گرچہ دم بال و پر میں بہت
نہیں دور تک ساتھ چل سکے ہم
انا تھی مرے ہمسفر میں بہت
وہ اشک ندامت نہ ہلکا پڑا
اسے تولا لعل و گہر میں بہت
پھر آنگن میں دیوار اٹھ جائے گی
کہ اب کینہ سازی ہے گھر میں بہت
سفر عا شقی کا مبارک ‘ حسن ‘
ہیں پر خار اس رہ گزر میں بہت F.H. Siddiqui
تھے آنسو مری چشم تر میں بہت
تھا مطلب ترے نقش پا سے فقط
“ نشاں یوں تو تھے رہگزر میں بہت
مجھے بھا گئی بس تری سادگی
حسیں ورنہ آئے نظر میں بہت
ہو گر بارگاہ خدا میں قبول
تو اک سجدہ ہے عمر بھر میں بہت
عزائم کے بل پر اڑانیں بھریں
نہ تھا گرچہ دم بال و پر میں بہت
نہیں دور تک ساتھ چل سکے ہم
انا تھی مرے ہمسفر میں بہت
وہ اشک ندامت نہ ہلکا پڑا
اسے تولا لعل و گہر میں بہت
پھر آنگن میں دیوار اٹھ جائے گی
کہ اب کینہ سازی ہے گھر میں بہت
سفر عا شقی کا مبارک ‘ حسن ‘
ہیں پر خار اس رہ گزر میں بہت F.H. Siddiqui
پوچھئے نہ حال دل بیقرار کا جادو کچھ ایسا چلا مجھ پہ حسن یار کا
اب حال پوچھئے نہ دل بےقرار کا
قسمت سے ہو گیا تھا قدم رنجہ یار کا
اب خوشبؤوں سے حلقہ ہے میرے مزار کا
لایا ہے یار سے میرے ، شب بھر کو مانگ کر
ہے چاند سارا حسن یہ تیرا ادھار کا
رکھ دیتا قدموں میں ترے دل کو نکال کر
ہوتا بھروسہ گر ترے قول و قرار کا
بس کھیل دھوپ چھاؤں کا کھیلے ہے زندگی
ہوتا ہے رقص روز ہی لیل و نہار کا
یا رب ! شراب عشق ہے کیسی بلا عجیب
اب تک ملا نہ توڑ جو اس کے خمار کا
اب حد سے بڑھ گئے ہیں ستمگر ترے ستم
بس بھی کر امتحاں مرے صبر و قرار کا
خواہاں ہوں بس چمن میں بہاروں کا میں حسن
شیدائی ہوں گلوں کا ، نہ دشمن میں خار کا F.H. Siddiqui
اب حال پوچھئے نہ دل بےقرار کا
قسمت سے ہو گیا تھا قدم رنجہ یار کا
اب خوشبؤوں سے حلقہ ہے میرے مزار کا
لایا ہے یار سے میرے ، شب بھر کو مانگ کر
ہے چاند سارا حسن یہ تیرا ادھار کا
رکھ دیتا قدموں میں ترے دل کو نکال کر
ہوتا بھروسہ گر ترے قول و قرار کا
بس کھیل دھوپ چھاؤں کا کھیلے ہے زندگی
ہوتا ہے رقص روز ہی لیل و نہار کا
یا رب ! شراب عشق ہے کیسی بلا عجیب
اب تک ملا نہ توڑ جو اس کے خمار کا
اب حد سے بڑھ گئے ہیں ستمگر ترے ستم
بس بھی کر امتحاں مرے صبر و قرار کا
خواہاں ہوں بس چمن میں بہاروں کا میں حسن
شیدائی ہوں گلوں کا ، نہ دشمن میں خار کا F.H. Siddiqui
تمھارے ظلم و ستم کی کوئ مثال نہیں تمھارے ظلم و ستم کی کو ئ مثال نہیں
مگر یہ خون خرابہ کوئ کمال نہیں
جھکے ہے قوم کا سر شرم سے
مگر تم کو ذرا بھی شرم نہیں ۔ کوئ ملال نہیں
ہلاکو ہو ، کوئ فر عون ہو ، کہ ہٹلر ہو
کوئ عروج نہیں ہے ، جسے زوال نہیں
کئے ہیں خون تو معصوم کے ، نہتوں کے
برابروں کو تو چھیڑے تری مجال نہیں
تجھے ہے واسطہ رب کا، یے گریقیں اس پر
سکوں سے جینا جہاں میں تو کر محال نہیں
ہمیں ہے فکر رسول خدا کے نام کی بس
ہے صبر و ضبط کی جن کے کوئ مثال نہیں
نہ باز آیا مظالم سے تو سمجھ لے تو
ترا صفایا بھی دنیا سے اب محال نہیں
F.H. Siddiqui
مگر یہ خون خرابہ کوئ کمال نہیں
جھکے ہے قوم کا سر شرم سے
مگر تم کو ذرا بھی شرم نہیں ۔ کوئ ملال نہیں
ہلاکو ہو ، کوئ فر عون ہو ، کہ ہٹلر ہو
کوئ عروج نہیں ہے ، جسے زوال نہیں
کئے ہیں خون تو معصوم کے ، نہتوں کے
برابروں کو تو چھیڑے تری مجال نہیں
تجھے ہے واسطہ رب کا، یے گریقیں اس پر
سکوں سے جینا جہاں میں تو کر محال نہیں
ہمیں ہے فکر رسول خدا کے نام کی بس
ہے صبر و ضبط کی جن کے کوئ مثال نہیں
نہ باز آیا مظالم سے تو سمجھ لے تو
ترا صفایا بھی دنیا سے اب محال نہیں
F.H. Siddiqui
حسرتیں ہیں اور دل نا کام ہے حسرتیں ہیں اور دل ناکام ہے
یہ محبت کا مری انجام ہے
کوئی غیبت ہے ، نہ یہ دشنام ہے
شیخ بس اک ناصح ناکام ہے
تلخیوں معں بھی چھپی ہیں مستیاں
“ پیجئے تو زندگی اک جام ہے “
کن گناہوں کی سزا ہے یا خدا
بستئ تو حید میں کہرام ہے
بن گئے ہیں وہ مسیحا قوم کے
جن کے سر پر قتل کا الزام ہے
منتظر ہیں واں پہ بھی منکر نکیر
مر بھی جاؤں تو کہاں آرام ہے
مدح خوان حسن ہیں یاں اور بھی
کیوں ‘ حسن ‘ ہی مو رد الزام ہے
F.H. Siddiqui
یہ محبت کا مری انجام ہے
کوئی غیبت ہے ، نہ یہ دشنام ہے
شیخ بس اک ناصح ناکام ہے
تلخیوں معں بھی چھپی ہیں مستیاں
“ پیجئے تو زندگی اک جام ہے “
کن گناہوں کی سزا ہے یا خدا
بستئ تو حید میں کہرام ہے
بن گئے ہیں وہ مسیحا قوم کے
جن کے سر پر قتل کا الزام ہے
منتظر ہیں واں پہ بھی منکر نکیر
مر بھی جاؤں تو کہاں آرام ہے
مدح خوان حسن ہیں یاں اور بھی
کیوں ‘ حسن ‘ ہی مو رد الزام ہے
F.H. Siddiqui
نام اس قاتل ادا کا کیوں حیا رکھا گیا دل سے دل کا اس قدر بس سلسلہ رکھا گیا
اک چراغ آرزو دل میں جلا رکھا گیا
اک نظر میں پانی پانی ہو گیا سارا بھرم
آج میرے روبرو بھی آئینہ رکھا گیا
نیچی نظریں ، الجھی زلفیں ، سرخ چہرہ ، لب خموش
نام اس قاتل ادا کا کیوں حیا رکھا گیا
امتحاں کچھ یوں وفاداری کا وہ لیتے رہے
آزمائش کا ہدف ہر دن نیا رکھا گیا
دشمن امن و اماں ہے آج جو مانا ہوا
امن کا اس کے ہی آگے فلسفہ رکھا گیا
اس طرح اس نے لیا میری انا کا انتقام
مجھ سے دوری ، دوسروں سے رابطہ رکھا گیا
کون گھر مفلس کے آتا ہے ، ہمیں معلوم تھا
پر در مہما ں نوازی روز وا رکھا گیا
غم نہیں ہے ، اس نے رکھا دلربا نام رقیب
غم ہے یہ ، نام ‘ حسن ‘ کیوں سرپھرا رکھا گیا F.H.SIDDIQUI
اک چراغ آرزو دل میں جلا رکھا گیا
اک نظر میں پانی پانی ہو گیا سارا بھرم
آج میرے روبرو بھی آئینہ رکھا گیا
نیچی نظریں ، الجھی زلفیں ، سرخ چہرہ ، لب خموش
نام اس قاتل ادا کا کیوں حیا رکھا گیا
امتحاں کچھ یوں وفاداری کا وہ لیتے رہے
آزمائش کا ہدف ہر دن نیا رکھا گیا
دشمن امن و اماں ہے آج جو مانا ہوا
امن کا اس کے ہی آگے فلسفہ رکھا گیا
اس طرح اس نے لیا میری انا کا انتقام
مجھ سے دوری ، دوسروں سے رابطہ رکھا گیا
کون گھر مفلس کے آتا ہے ، ہمیں معلوم تھا
پر در مہما ں نوازی روز وا رکھا گیا
غم نہیں ہے ، اس نے رکھا دلربا نام رقیب
غم ہے یہ ، نام ‘ حسن ‘ کیوں سرپھرا رکھا گیا F.H.SIDDIQUI
عزم و یقیں بھی چاہئے منزل کا واسطے ‘ سب کچھ غلط سلط کیا جس دل کے واسطے
رکھتا تھا نرم گوشے وہ قاتل کے واسطے
قدموں کا بس شمار ، نہ رحت سفر فقط
عزم و یقیں بھی چاہئے منزل کے واسطے
انسانیت کا وصف ہے ظالم کی در گزر
نا کرد گی کا عزر بھی بز دل کے واسطے
شائد کی کچھ سکوں ترے دیدار سے ملے
دکھلا دے اک جھلک دل بسمل کے واسطے
مظلوم ٹھہرا آپ ہی واحد گواہ جرم
کیسے ثبوت لائے وہ عادل کے واسطے
طوفاں سے ساز باز تھی ‘ ہم کو پتہ نہ تھا
کیا کیا نہ ہم کیا کئے ساحل کے واسطے
ہم راہ مستقیم سے اتنا بھٹک گئے
ہموار اب زمین ہے با طل کے واسطے
کچھ بھی رہا نہ اب ، تو ‘ حسن ‘ سوچتا ہوں میں
کیوں دل لٹا دیا کسی سنگدل کے واسطے F.H. Siddiqui
رکھتا تھا نرم گوشے وہ قاتل کے واسطے
قدموں کا بس شمار ، نہ رحت سفر فقط
عزم و یقیں بھی چاہئے منزل کے واسطے
انسانیت کا وصف ہے ظالم کی در گزر
نا کرد گی کا عزر بھی بز دل کے واسطے
شائد کی کچھ سکوں ترے دیدار سے ملے
دکھلا دے اک جھلک دل بسمل کے واسطے
مظلوم ٹھہرا آپ ہی واحد گواہ جرم
کیسے ثبوت لائے وہ عادل کے واسطے
طوفاں سے ساز باز تھی ‘ ہم کو پتہ نہ تھا
کیا کیا نہ ہم کیا کئے ساحل کے واسطے
ہم راہ مستقیم سے اتنا بھٹک گئے
ہموار اب زمین ہے با طل کے واسطے
کچھ بھی رہا نہ اب ، تو ‘ حسن ‘ سوچتا ہوں میں
کیوں دل لٹا دیا کسی سنگدل کے واسطے F.H. Siddiqui
صاحب کر دار لوگ مخلص و ہمدرد ، صادق ، صابر و خوددار لوگ
اب کہاں ملتے ہیں ایسے صا حب کردار لوگ
ہو گئے یوں محنت جسمانی سے بیزار لوگ
“ اب نظر آنے لگے ہیں ہر طرف بیما ر لوگ “
ہوتا تھا آغاز صبحوں کا تلا و ت سے کبھی
آج کل وقت سحر پڑھتے ہیں بس اخبار لوگ
ذات و مذ ہب میں جو بانتے ہیں عوام الناس کو
سچ اگر پوچھو یہی ہیں ملک کے غدار لو گ
اے زبان اردو ! تجھ پر کیسی آ فت آ گئی
عنقا ہوتے جا رہے ہیں اب تو خوش گفتار لو گ
علم و دانش سے نہیں ، کوشش سے دستاریں ملیں
پائیں اب انعام بھی بس شاطر و ہشیا ر لو گ
مت بھروسہ کیجئے اہل سیاست پر کبھی
چھو ڑ کر بس اکا دکا ، سار ے ہیں مکار لو گ
زور تو کچھ شاعری میں لائے اپنی ‘ حسن ‘
گنگنانے خود لگیں گے آپ کے ا شعار لوگ F.H.SIDDIQUI
اب کہاں ملتے ہیں ایسے صا حب کردار لوگ
ہو گئے یوں محنت جسمانی سے بیزار لوگ
“ اب نظر آنے لگے ہیں ہر طرف بیما ر لوگ “
ہوتا تھا آغاز صبحوں کا تلا و ت سے کبھی
آج کل وقت سحر پڑھتے ہیں بس اخبار لوگ
ذات و مذ ہب میں جو بانتے ہیں عوام الناس کو
سچ اگر پوچھو یہی ہیں ملک کے غدار لو گ
اے زبان اردو ! تجھ پر کیسی آ فت آ گئی
عنقا ہوتے جا رہے ہیں اب تو خوش گفتار لو گ
علم و دانش سے نہیں ، کوشش سے دستاریں ملیں
پائیں اب انعام بھی بس شاطر و ہشیا ر لو گ
مت بھروسہ کیجئے اہل سیاست پر کبھی
چھو ڑ کر بس اکا دکا ، سار ے ہیں مکار لو گ
زور تو کچھ شاعری میں لائے اپنی ‘ حسن ‘
گنگنانے خود لگیں گے آپ کے ا شعار لوگ F.H.SIDDIQUI
پیار کی بارشوں کا مو سم ہے پیار کی بارشوں کا مو سم ہے
کچھ حسیں خواہشوں کا مو سم ہے
رخ پہ بوندیں ، بدن پھوار سے نم
آئے لغزشوں کا موسم ہے
چھوڑئے عہد کہنہ کی باتیں
اب جواں کاوشوں کا مو سم ہے
پیار سے دیکھئے بچا کے نظر
چلبلی سازشوں کا مو سم ہے
مل گئے دل ، گلے بھی لگ جاؤ
یہ نہیں رنجشوں کا مو سم ہے
دیکھے ہیں کتنے پیار سے ہم کو
ان کی فرما ئشوں کا مو سم ہے
ڈھو نڈھ لو تم بھی چاند سا محبو ب
اے ‘ حسن ‘ مہو شوں کا موسم ہے F.H.SIDDIQUI
کچھ حسیں خواہشوں کا مو سم ہے
رخ پہ بوندیں ، بدن پھوار سے نم
آئے لغزشوں کا موسم ہے
چھوڑئے عہد کہنہ کی باتیں
اب جواں کاوشوں کا مو سم ہے
پیار سے دیکھئے بچا کے نظر
چلبلی سازشوں کا مو سم ہے
مل گئے دل ، گلے بھی لگ جاؤ
یہ نہیں رنجشوں کا مو سم ہے
دیکھے ہیں کتنے پیار سے ہم کو
ان کی فرما ئشوں کا مو سم ہے
ڈھو نڈھ لو تم بھی چاند سا محبو ب
اے ‘ حسن ‘ مہو شوں کا موسم ہے F.H.SIDDIQUI
جیسا اب آپ کہیں ، جیسا زمانہ چاہے وہ میری ہستی بہ ہر طور مٹانا چاہے
بے کفن ہی نہیں ، بے گور بنانا چاہے
کھل کے تو دے نہیں سکتا مری باتوں کا جواب
چیخ چلا کے بس آواز دبانا چاہے
خوشیوں میں ہو نہیں سکتا وہ کسی کی بھی شریک
عیب سو ڈھونڈھ کے بس سوگ منانا چاہے
پرسش حال ، کبھی حال غم دل کہنے
دل تو بس آپ سے ملنے کا بہانہ چاہے
روٹھنے کے تو طریقے نیے ڈھونڈھے لیکن
ناز برداری کا انداز پرانا چاہے
تھک چکا ہوں میں بہت ، ڈال رہا ہوں ہتھ یار
جیسا اب آپ کہیں ، جیسا زمانہ چاہے
دوستی کیسے گوارہ کریں اس کی ، جو ‘ حسن ‘
کاٹ کر میرا گلا ، ہاتھ ملانا چاہے F.H.SIDDIQUI
بے کفن ہی نہیں ، بے گور بنانا چاہے
کھل کے تو دے نہیں سکتا مری باتوں کا جواب
چیخ چلا کے بس آواز دبانا چاہے
خوشیوں میں ہو نہیں سکتا وہ کسی کی بھی شریک
عیب سو ڈھونڈھ کے بس سوگ منانا چاہے
پرسش حال ، کبھی حال غم دل کہنے
دل تو بس آپ سے ملنے کا بہانہ چاہے
روٹھنے کے تو طریقے نیے ڈھونڈھے لیکن
ناز برداری کا انداز پرانا چاہے
تھک چکا ہوں میں بہت ، ڈال رہا ہوں ہتھ یار
جیسا اب آپ کہیں ، جیسا زمانہ چاہے
دوستی کیسے گوارہ کریں اس کی ، جو ‘ حسن ‘
کاٹ کر میرا گلا ، ہاتھ ملانا چاہے F.H.SIDDIQUI