Habib Jalib Poetry, Ghazals & Shayari
Habib Jalib Poetry allows readers to express their inner feelings with the help of beautiful poetry. Habib Jalib shayari and ghazals is popular among people who love to read good poems. You can read 2 and 4 lines Poetry and download Habib Jalib poetry images can easily share it with your loved ones including your friends and family members. Up till, several books have been written on Habib Jalib Shayari. Urdu Ghazal readers have their own choice or preference and here you can read Habib Jalib poetry in Urdu & English from different categories.
- LATEST POETRY
- اردو
Ye Log Bhi Kia Log Hain, Mar Kion Nahi Jate
Hai Kon Zamane Mein Mera Poochne Wala??
Nadaan Hain Jo Kehte Hain Ke Ghar Kion Nahi Jate
Shouley Hain To Kion In Ko Bharakte Nahi Dekha??
Hain Khak To Rahon Mein, Bikhar Kion Nahi Jate
Aansu Bhi Hain Aankhon Mein, Dua’in Bhi Hain Lab Par,
Bigrey Hue Halaat, Sanwar Kion Nahi Jate Saim
Mai Bi Mansoor Hoon Keh Do Aghayar Se
Kun Darate Ho Zindan Ki Deewar Se
Zulm Ki Baat Ku Jahl Ki Raat Ku
Main Nahi Manta Main Nahi Janta
Tum Ne Loota Hai Sadyon Hmara Sukoon
Ab Na Ham Par Chale Ga Tumhara Fasoon
Chara Gar Main Tumhain Kis Tarah Se Kahon
Main Nahi Manta Main Nahi Janta
Deep Jis Ka Mahlaat Main Hi Jale
Chand Logo Ki Khushiyon Ko Le Kar Chale
Wo Jo Saye Main Har Maslihat Ke Play
Aese Dastoor Ko Subah-e Be Noor Ku
Main Nahi Manta Main Nahi Janta Sohaim
Us Ko Bi Apne Khuda Hone Par Itna Hi Yaqen Tha
Koi Thehra Ho Jo Logo Ke Mad-e Muqabal To Btao
Wo Kahan Hain K Jinhain Naaz Bahut Apne Tain Tha
Ab Wo Phirte Hain Isi Shehr Main Tanha Liye Dil Ko
Ik Zamane Main Mazaj Un Ka Sare Arsh Barin Tha Raju
Ajab Apna Safar Hai Fasle Bi Sath Chalte Hain
Bahut Kam Zarf Tha Jo Mehflon Ko Kar Gya Weran
Na Pocho Hal-e Yaran Sham Ko Jab Saye Dhalte Hain
Wo Jis Ki Roshni Kache Gharon Tak Bi Pahunchti Hai
Na Wo Suraj Niklta Hai Na Apne Din Badlte Hain Rehan
Shabnam Meri Aankhon Main Whain Tair Gayi Hai
Jis Ki Sare Iflak Bari Dhom Machi Hai
A shufta sari Hai Mri A shufta sari Hai
Apni Tu Ujalon Ko Tarasti Hain Nigahain
Suraj Kahan Nikla Hai Kahan Subha Hoi Hai
Bichari Hoi Rahon Se Jo Guzre Hain Kabi Ham
Har Gam Pe Khoi Hoi Ik Yaad Mili Hai
Ik Umar Sunyaen Tu Hakayat Na Ho Puri
Do Roz Main Ham Par Yahan Jo Beet Gayi Hai
Hansne Par Na Majbor Karo, Log Hansain Gay
Halat Ki Tafseer Tu Chehray Par Likhi Hai Rabia
Ham Ne Suna Tha Is Basti Mein Dil Wale Bi Rehte Hain
Beet Gya Sawan Ka Mahena Mosam Ne Nazrain Badlen
Lekin In Payasi Aankhon Se Ab Tak Aansoo Behte Hain
Aik Hmain Awara Kehna Koi Bara Ilzam Nahi
Dunya Wale Dil Walon Ko Aur Bohat Kuch Kehte Hain
Jin Ki Khatar Shehr Bi Chora Jin Ke Liye Badnaam Hoye
Aaj Wohi Ham Se Begane Begane Se Rehte Hain
Wo Jo Abi Is Rah Guzar Se Chak Greban Guzra Tha
Us Awara Dewane Ko Jalib Jalib Kehte Hain
Lubna
Mat Ghabrana Mat Darna Sach Hi Likhte Jana
Batal Ki Munh Zor Hawa Se Jo Na Kabi Bhuj Payen
Wo Shamen Roshan Kar Jana Sach Hi Likhte Jana
Pal Do Pal Ke Aesh Ki Khatir Kya Dena Kya Jhukna
Aakhir Sab Ko Hai Mar Jana Sach Hi Likhte Jana
Loh Jahan Par Naam Tumhara Likha Rahe Ga Yun Hi
Jalib Sach Ka Dam Bhar Jana Sach Hi Likhte Jana Laraib javed
تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ
خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں
ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام
شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں
کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی
اہتمام رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں
ظلم سے ہیں برسر پیکار آزادی پسند
ان پہاڑوں میں جہاں پر کوئی جھرنا ہی نہیں
دل بھی ان کے ہیں سیہ خوراک زنداں کی طرح
ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں
انتہا کر لیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں
جاگ اٹھے جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں ساجد حمید
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پایندہ ہیں ذروں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے Rashid
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم
شاید بہ قید زیست یہ ساعت نہ آ سکے
تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم
بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم arbaz
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں
آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں
جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں
ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو
بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں
جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں
یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی
روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں Nemera
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں
اب تذکرۂ خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقف غم گریہ شبنم ہے مری جاں
رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانئ عالم ہے مری جاں
یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں
ہم سادہ دلوں پر یہ شب غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دم ہے مری جاں
یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں
اے نزہت مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازش خورشید ترا غم ہے مری جاں hadia
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
دہر میں آہ بے کساں کے سوا
اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں
داور حشر بخش دے شاید
ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں
روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں
ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں
ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ
اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں noor
نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے
تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے
نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے
اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
یہ کیسی شام خرابات ہو گئی پیارے
وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے hina
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
اپنی تو داستاں ہے بس اتنی
غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے
اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول
فکر ہم کو کلی کلی کی ہے
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اسی کی ہے
جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے misbah
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں mujahid
میری طرح وفا کا پرستار مصحفیؔ
رہتا تھا کج کلاہ امیروں کے درمیاں
یکسر لئے ہوئے مرا کردار مصحفیؔ
دیتے ہیں داد غیر کو کب اہل لکھنؤ
کب داد کا تھا ان سے طلب گار مصحفیؔ
نا قدریٔ جہاں سے کئی بار آ کے تنگ
اک عمر شعر سے رہا بیزار مصحفیؔ
دربار میں تھا بار کہاں اس غریب کو
برسوں مثال میرؔ پھرا خوار مصحفیؔ
میں نے بھی اس گلی میں گزاری ہے رو کے عمر
ملتا ہے اس گلی میں کسے پیار مصحفیؔ hira
مگر زمانے کی باتوں سے ڈر گیا ہوگا
اسے تھا شوق بہت مجھ کو اچھا رکھنے کا
یہ شوق اوروں کو شاید برا لگا ہوگا
کبھی نہ حد ادب سے بڑھے تھے دیدہ و دل
وہ مجھ سے کس لیے کسی بات پر خفا ہوگا
مجھے گمان ہے یہ بھی یقین کی حد تک
کسی سے بھی نہ وہ میری طرح ملا ہوگا
کبھی کبھی تو ستاروں کی چھاؤں میں وہ بھی
مرے خیال میں کچھ دیر جاگتا ہوگا
وہ اس کا سادہ و معصوم والہانہ پن
کسی بھی جگ میں کوئی دیوتا بھی کیا ہوگا
نہیں وہ آیا تو جالبؔ گلہ نہ کر اس کا
نہ جانے کیا اسے درپیش مسئلہ ہوگا
vania
کل مثل ستارہ ابھریں گے ہیں آج اگر پامال تو کیا
جینے کی دعا دینے والے یہ راز تجھے معلوم نہیں
تخلیق کا اک لمحہ ہے بہت بیکار جئے سو سال تو کیا
سکوں کے عوض جو بک جائے وہ میری نظر میں حسن نہیں
اے شمع شبستان دولت! تو ہے جو پری تمثال تو کیا
ہر پھول کے لب پر نام مرا چرچا ہے چمن میں عام مرا
شہرت کی یہ دولت کیا کم ہے گر پاس نہیں ہے مال تو کیا
ہم نے جو کیا محسوس کہا جو درد ملا ہنس ہنس کے سہا
بھولے گا نہ مستقبل ہم کو نالاں ہے جو ہم سے حال تو کیا
ہم اہل محبت پا لیں گے اپنے ہی سہارے منزل کو
یاران سیاست نے ہر سو پھیلائے ہیں رنگیں جال تو کیا
دنیائے ادب میں اے جالبؔ اپنی بھی کوئی پہچان تو ہو
اقبالؔ کا رنگ اڑانے سے تو بن بھی گیا اقبالؔ تو کیا
faryal
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہے یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
مغرب کا راج ہی سچا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر MF Mughal
ہم سے طے نہ ہوگی کیا منزل ادب تنہا
فکر انجمن کس کو کیسی انجمن پیارے
اپنا اپنا غم سب کا سوچیے تو سب تنہا
سن رکھو زمانے کی کل زبان پر ہوگی
ہم جو بات کرتے ہیں آج زیر لب تنہا
اپنی رہنمائی میں کی ہے زندگی ہم نے
ساتھ کون تھا پہلے ہو گئے جو اب تنہا
مہر و ماہ کی صورت مسکرا کے گزرے ہیں
خاکدان تیرہ سے ہم بھی روز و شب تنہا
کتنے لوگ آ بیٹھے پاس مہرباں ہو کر
ہم نے خود کو پایا ہے تھوڑی دیر جب تنہا
یاد بھی ہے ساتھ ان کی اور غم زمانہ بھی
زندگی میں اے جالبؔ ہم ہوئے ہیں کب تنہا
Danial
تجھ سے بھی ہم نے ترا پیار چھپائے رکھا
چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے
ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا
غیر ممکن تھی زمانے کے غموں سے فرصت
پھر بھی ہم نے ترا غم دل میں بسائے رکھا
پھول کو پھول نہ کہتے سو اسے کیا کہتے
کیا ہوا غیر نے کالر پہ سجائے رکھا
جانے کس حال میں ہیں کون سے شہروں میں ہیں وہ
زندگی اپنی جنہیں ہم نے بنائے رکھا
ہائے کیا لوگ تھے وہ لوگ پری چہرہ لوگ
ہم نے جن کے لیے دنیا کو بھلائے رکھا
اب ملیں بھی تو نہ پہچان سکیں ہم ان کو
جن کو اک عمر خیالوں میں بسائے رکھا
rehana
اپنا شریک درد بنائیں کسی کو کیا
ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا
زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا
بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار
رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا
رونے کو اپنے حال پہ تنہائی ہے بہت
اس انجمن میں خود پہ ہنسائیں کسی کو کیا
وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم
یادیں کسی کی تجھ کو ستائیں کسی کو کیا
سوئے ہوئے ہیں لوگ تو ہوں گے سکون سے
ہم جاگنے کا روگ لگائیں کسی کو کیا
جالبؔ نہ آئے گا کوئی احوال پوچھنے
دیں شہر بے حساں میں صدائیں کسی کو کیا rabia
اس کو روتے تھے کہ سونا یہ نگر بھی ہو گیا
لوگ اسی صورت پریشاں ہیں جدھر بھی دیکھیے
اور وہ کہتے ہیں کوہ غم تو سر بھی ہو گیا
بام و در پر ہے مسلط آج بھی شام الم
یوں تو ان گلیوں سے خورشید سحر بھی ہو گیا
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا ebtisam
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا aslam
Habib Jalib Poetry in Urdu
Habib Jalib Poetry – When talk about the progressive and revolutionary Urdu poets, the name of Habib Jalib comes among the highly acknowledged poets. His poems are the true source of inspiration for people who are struggling against oppression. It is a reason that his poetry is not popular in Pakistan but also in India.
The history of Urdu Poetry is filled with many multitalented Poet and Poetess who worked really hard to recognize Urdu Poetry all over the world. Habib Jalib is a revolutionary Urdu Poet of 20th century, whose passion behind his words, the style of delivering his poems and his emotional energy associated with the sensitivity of the socio-political perspective is what evoked the audience. Jalib’s real name was Habib Ahmed and his pen name was Habib Jalib. He is a well-recognized Pakistani revolutionary poet, which reflected his vision and approach of life and provides guidance to the lost souls. His poetry focused the ideology of famous revolutionist Marxist-Leninist that exhibits he was a die-hard patriotic Pakistani, who served most of his life in Pakistan’s Jail or on streets being an activist and politician and a faithful democrat who fought for martial law, totalitarianism and state oppression. He raised his voice against dictatorship and established order in Pakistan, which inherited in his poetic work. Jalib was a poet highlighted the common people’s dialect and became famous through his revolutionary Ghazals and loud voice of conflicts over political disputes of Pakistan. He was awarded by Nishan e Imtiaz, higher civilian award of Pakistan in 2009. He also won the most respectable Nigar award.
Habib Jalib Famous Proses
Here are some famous proses from the poetry of Habib Jalib.
Dakuan Da Je Saath Na Dinda PindDa Pehredar
Aj Paireen Zanjeer Na Hund Jit Na Hundi Har
Yah Dais Hai Andhay Logoon Ka
Aye ChaandYahan Na Nikla Ker
Khatra Hai Zar Daron Ko
Girti Hui Diwaron Ko
Habib Jalib Famous Poetry Collection
Habib Jalib has several books of Poetry & Prose on his name includes:
• Ehad-e-Sitam
• Goshay Main Qafas K
• Gumbad-e-Bedar
• Harf-e-Haqq
• Harf-e-Sar-e-Daar
• Is Shehar-e-Kharabi Main
• Kulyaat e Habib Jalib
• Sir-e-Maqtal
• Zikr Behte Khoon Ka
Read the latest and best collection of Habib Jalib Shayari, Ghazal, Poems in Urdu, Hindi and English available on Hamariweb.com.. We serve you the best collection of Habib Jalib Poetry to retrieve memories from some finest collection of Habib Jalib Poetry, Shayari & Ghazal. The most famous poem “Dastoor” is a masterpiece of Habib Jalib Urdu poetry. You can access the latest collection of Habib Jalib Poetry, Anwar Masood Poetry, Amjad Islam Amjad Poetry, Mirza Ghalib Poetry Shayari and Ghazals from HamariWeb.com online. Read, submit and share your favorite Habib verses and shayari online to your friends, family and loved ones.