ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا
Poet: Abbas Tabish By: Amjad, khi
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا
یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا
تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش
بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا
میں آپ اٹھاتا ہوں شب و روز کی ذلت
یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہیں دیتا
وہ کون ہے اس سے تو میں واقف بھی نہیں ہوں
جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتا
More Abbas Tabish Poetry
عجیب طور کی ہے اب کے سرگرانی مری عجیب طور کی ہے اب کے سرگرانی مری
میں تجھ کو یاد بھی کر لوں تو مہربانی مری
میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید
مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی مری
تباہ ہو کے بھی رہتا ہے دل کو دھڑکا سا
کہ رائیگاں نہ چلی جائے رائیگانی مری
میں اپنے بعد بہت یاد آیا کرتا ہوں
تم اپنے پاس نہ رکھنا کوئی نشانی مری
میں تجھ کو یاد بھی کر لوں تو مہربانی مری
میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید
مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی مری
تباہ ہو کے بھی رہتا ہے دل کو دھڑکا سا
کہ رائیگاں نہ چلی جائے رائیگانی مری
میں اپنے بعد بہت یاد آیا کرتا ہوں
تم اپنے پاس نہ رکھنا کوئی نشانی مری
anas
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا
یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا
تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش
بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا
میں آپ اٹھاتا ہوں شب و روز کی ذلت
یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہیں دیتا
وہ کون ہے اس سے تو میں واقف بھی نہیں ہوں
جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتا
یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا
تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش
بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا
میں آپ اٹھاتا ہوں شب و روز کی ذلت
یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہیں دیتا
وہ کون ہے اس سے تو میں واقف بھی نہیں ہوں
جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتا
Amjad
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے
مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے
پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابشؔ
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے
مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے
پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابشؔ
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے
ghazal
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
Minal






