Poetries by Haya Ghazal
غم ہستی تری خاطر گوارا کرلیا ہے غم ہستی تری خاطر گواراکرلیا ہے
گزارا ہی تو کرنا تھا گزارا کرلیا ہے
کبھی بھی تیرگی سے کھیل کے ہارے نہیں جو۔۔۔۔۔
ذرا سی بات پر ہم سے کنارا کرلیا ہے
سہاروں سے فقط آلام ہی پائے ہیں اکثر
خوشی سے ہم نے خود کو بے سہارا کرلیا ہے
خوشامد سے مراتب کی بلندی تو ملی ہے
مگر اُس نے خودی کو پارہ پارہ کرلیا ہے
حیا داری کا اپنی پاس یوں رکّھا ہے میں نے
غزل کو بھی حیا کا استعارہ کرلیا ہے
حیاء غزل
گزارا ہی تو کرنا تھا گزارا کرلیا ہے
کبھی بھی تیرگی سے کھیل کے ہارے نہیں جو۔۔۔۔۔
ذرا سی بات پر ہم سے کنارا کرلیا ہے
سہاروں سے فقط آلام ہی پائے ہیں اکثر
خوشی سے ہم نے خود کو بے سہارا کرلیا ہے
خوشامد سے مراتب کی بلندی تو ملی ہے
مگر اُس نے خودی کو پارہ پارہ کرلیا ہے
حیا داری کا اپنی پاس یوں رکّھا ہے میں نے
غزل کو بھی حیا کا استعارہ کرلیا ہے
حیاء غزل
غالب تھا جو گماں سےبھی غائب تھا جو گماں سے بھی منظر میں آگیا
” دستک دئیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
ایسا دھرا تھا چاک پہ بنتا ہوا وجود
لوح جہاں پہ حرف مکرر میں آگیا
قیمت چکائی شوق کی مفلس کی ٹاٹ نے
پیوند عارضی تھا، مقدر میں آگیا
آنکھوں کا درد بن کے تصور چھلک پڑا
جیسے وہ موج بن کے سمندر میں آگیا
با فیض ہو گئے جو تھے بے فیض کل تلک
شاہوں کا وصف مست قلندر میں آگیا
کچھ گام ہی چلے تھے گو اپنے مقام سے
لطف سفر تو راہ کی ٹھو کر میں آگیا
جب وار پشت پر مرے ہمدم نے کر دیا
جو زہر تھا زبان کا، خنجر میں آگیا
پلکوں سے اُسکی ایک ستارہ سا ٹوٹ کر
میرے دل ونگاہ کے محور میں آگیا
اسکا خیال دیکھئے پھر سے حیا غزل
دن ماہ و سال بن کے کلینڈر میں آگیا
حیاء غزل
” دستک دئیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
ایسا دھرا تھا چاک پہ بنتا ہوا وجود
لوح جہاں پہ حرف مکرر میں آگیا
قیمت چکائی شوق کی مفلس کی ٹاٹ نے
پیوند عارضی تھا، مقدر میں آگیا
آنکھوں کا درد بن کے تصور چھلک پڑا
جیسے وہ موج بن کے سمندر میں آگیا
با فیض ہو گئے جو تھے بے فیض کل تلک
شاہوں کا وصف مست قلندر میں آگیا
کچھ گام ہی چلے تھے گو اپنے مقام سے
لطف سفر تو راہ کی ٹھو کر میں آگیا
جب وار پشت پر مرے ہمدم نے کر دیا
جو زہر تھا زبان کا، خنجر میں آگیا
پلکوں سے اُسکی ایک ستارہ سا ٹوٹ کر
میرے دل ونگاہ کے محور میں آگیا
اسکا خیال دیکھئے پھر سے حیا غزل
دن ماہ و سال بن کے کلینڈر میں آگیا
حیاء غزل
لٹ گیا تو کیا کیجے آہ و فغاں لٹ گیا تو کیا کیجے آہ و فغاں
شوق کی راہ میں آرزو کا جہاں
شور خلق خدا ہے حد گماں
دشت تو نام ہی ہے سودو زیاں
دھول اڑتی ہے بس جدھر دیکھو
نہ بہاروں کا جشن، ہے نہ خزاں
ریگزاروں میں ریت اڑتے ہوئے
پوچھتی ہے کہاں گئے وہ نشاں
جن کو شوق سفر یہاں لایا
تپتے صحرا میں کیا ملی نہ اماں
جلتا سورج نگل گیا ان کو
جن کو ہمراہ ملا نہ ابر رواں
پھوٹتا تھا وہیں سے اک چشمہ
رقص کرتے ہیں اب بگولے جہاں
راز سرعت سے کھول دے نہ سبھی
دل کے جذبوں کو دیجئے نہ زباں
کاہے ابرُو چڑھائے بیٹھے ہو؟
آگ لگ جائے تو اٹھے ہے دھواں
تیری دنیا بھی دشت جیسی حیا
ہر تعلق ہی عارضی ہے یہاں
حیاء غزل
شوق کی راہ میں آرزو کا جہاں
شور خلق خدا ہے حد گماں
دشت تو نام ہی ہے سودو زیاں
دھول اڑتی ہے بس جدھر دیکھو
نہ بہاروں کا جشن، ہے نہ خزاں
ریگزاروں میں ریت اڑتے ہوئے
پوچھتی ہے کہاں گئے وہ نشاں
جن کو شوق سفر یہاں لایا
تپتے صحرا میں کیا ملی نہ اماں
جلتا سورج نگل گیا ان کو
جن کو ہمراہ ملا نہ ابر رواں
پھوٹتا تھا وہیں سے اک چشمہ
رقص کرتے ہیں اب بگولے جہاں
راز سرعت سے کھول دے نہ سبھی
دل کے جذبوں کو دیجئے نہ زباں
کاہے ابرُو چڑھائے بیٹھے ہو؟
آگ لگ جائے تو اٹھے ہے دھواں
تیری دنیا بھی دشت جیسی حیا
ہر تعلق ہی عارضی ہے یہاں
حیاء غزل
ہماری زد میں کئی خوش خصال آئے ہیں ہماری زد میں کئ خوش خصال آئے ہیں
خموشی ایسی تھی پتھر اچھال آئے ہیں
نہ جانے کیسے بڑھاپے کے مرحلے ہوں گے
ہماری عمر میں ہی سو وبال آئے ہیں
تلاش رزق میں نکلے ہوئے پرندے ہیں
ہوا کے دوش پہ کتنے نڈھال آئے ہیں
ہنر پہ اپنے بھروسہ نہیں ہے کیوں ان کو
نکالنے جو محبت میں فال آئے ہیں
اگر ہمارے عذاب انگلیوں پہ گننے ہیں
حساب کیجے کتنے ملال آئے ہیں
ہوا جو سلسلہ موقوف گفتگو کا غزل
ذرا سی دیر میں کتنے خیال آئے ہیں
حیاء غزل
خموشی ایسی تھی پتھر اچھال آئے ہیں
نہ جانے کیسے بڑھاپے کے مرحلے ہوں گے
ہماری عمر میں ہی سو وبال آئے ہیں
تلاش رزق میں نکلے ہوئے پرندے ہیں
ہوا کے دوش پہ کتنے نڈھال آئے ہیں
ہنر پہ اپنے بھروسہ نہیں ہے کیوں ان کو
نکالنے جو محبت میں فال آئے ہیں
اگر ہمارے عذاب انگلیوں پہ گننے ہیں
حساب کیجے کتنے ملال آئے ہیں
ہوا جو سلسلہ موقوف گفتگو کا غزل
ذرا سی دیر میں کتنے خیال آئے ہیں
حیاء غزل
ہے کوزہ گر کا کمال چہرہ ہے کوزہ گر کا کمال چہرہ
غضب کا ہے پرجمال چہرہ
حیا سے جھکتی غزال آنکھیں
کھلے کھلے لب، خیال چہرہ
سجا ہوا سامنے جو آئے
غضب ہے ڈھاتا گلال چہرہ
میں دیکھتا، سوچتا ہوں اکثر
ہے کوئی اس کی مثال چہرہ
تلاشتی تھک گئیں ہیں آنکھیں
سراغ ہجر و وصال چہرہ
اے کاش سمجھے وہ پیار کو اور
پڑھے کبھی وہ سوال چہرہ
نظر نہ لگ جائے یوں کسی کی
حجاب کر اور سنبھال چہرہ حیاء غزل
غضب کا ہے پرجمال چہرہ
حیا سے جھکتی غزال آنکھیں
کھلے کھلے لب، خیال چہرہ
سجا ہوا سامنے جو آئے
غضب ہے ڈھاتا گلال چہرہ
میں دیکھتا، سوچتا ہوں اکثر
ہے کوئی اس کی مثال چہرہ
تلاشتی تھک گئیں ہیں آنکھیں
سراغ ہجر و وصال چہرہ
اے کاش سمجھے وہ پیار کو اور
پڑھے کبھی وہ سوال چہرہ
نظر نہ لگ جائے یوں کسی کی
حجاب کر اور سنبھال چہرہ حیاء غزل
راہ خدا میں سر کو کٹایا حسین(ع) نے نذرانہء عقیدت بحضور امام عالی مقام گوشہ ءجگر نواسہ ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم
راہ خدا میں سر کو کٹایا حسین(ع) نے
رسم وفا کو خوب نبھایا حسین(ع) نے
تھا مقصد حیات، پس پردہ جہاد............
دستور حق کا سب کو پڑھایا حسین (ع) نے
ایسی مثال اور نہ شاید کہیں ملے
کنبے کو راہ حق میں لٹایا حسین(ع) نے
نور نبی ہیں، فخر علی، فاطمہ کے لال
دنیا کو اپنا جلوہ دکھایا حسین(ع) نے
آنکھوں میں کچھ نہیں تھا فقط جذبہء جہاد
اپنا ہر ایک عہد نبھایا حسین (ع) نے
عالم تھا گنگ اور تھے ششدر ملائکہ
میدان کربلا وہ سجایا حسین(ع) نے
بے مثل ہے جہاں میں شہادت حسین(ع) کی
خوں سے چراغ دین جلایا حسین(ع) نے Haya Ghazal
راہ خدا میں سر کو کٹایا حسین(ع) نے
رسم وفا کو خوب نبھایا حسین(ع) نے
تھا مقصد حیات، پس پردہ جہاد............
دستور حق کا سب کو پڑھایا حسین (ع) نے
ایسی مثال اور نہ شاید کہیں ملے
کنبے کو راہ حق میں لٹایا حسین(ع) نے
نور نبی ہیں، فخر علی، فاطمہ کے لال
دنیا کو اپنا جلوہ دکھایا حسین(ع) نے
آنکھوں میں کچھ نہیں تھا فقط جذبہء جہاد
اپنا ہر ایک عہد نبھایا حسین (ع) نے
عالم تھا گنگ اور تھے ششدر ملائکہ
میدان کربلا وہ سجایا حسین(ع) نے
بے مثل ہے جہاں میں شہادت حسین(ع) کی
خوں سے چراغ دین جلایا حسین(ع) نے Haya Ghazal
وہ محبت کو یوں سزا دے گی وہ محبت کو یوں سزا دے گی
پھول تالاب میں بہا دے گی
اس کا سمان کیجیئے ورنہ
ناری ہےآگ بھی، جلادے گی
کھینچ لےگی زمین قدموں سے
زور بدلی ہوئ ہوا دے گی
کیسے دکھتے ہو پوچھنا کیسا
یہ تو تصویر بھی بتا دے گی
کچھ تسلی کی باتیں،اک فوٹو
پیٹ کی آگ کیا بجھادے گی
خالی برتن چڑھا کے چولہے پہ
مائ بھوکا ہمیں سلادے گی
اتنی حسرت تھی اسکےلہجے میں
بے ضمیروں کو بھی رلا دے گی
میرے اندر کی جنگ پھر مجھ سے
اک نیا فیصلہ ......کرا دے گی Haya Ghazal
پھول تالاب میں بہا دے گی
اس کا سمان کیجیئے ورنہ
ناری ہےآگ بھی، جلادے گی
کھینچ لےگی زمین قدموں سے
زور بدلی ہوئ ہوا دے گی
کیسے دکھتے ہو پوچھنا کیسا
یہ تو تصویر بھی بتا دے گی
کچھ تسلی کی باتیں،اک فوٹو
پیٹ کی آگ کیا بجھادے گی
خالی برتن چڑھا کے چولہے پہ
مائ بھوکا ہمیں سلادے گی
اتنی حسرت تھی اسکےلہجے میں
بے ضمیروں کو بھی رلا دے گی
میرے اندر کی جنگ پھر مجھ سے
اک نیا فیصلہ ......کرا دے گی Haya Ghazal
یاد ہی اسکی نہیں،اسکا نشاں بیچ دیا یاد ہی اسکی نہیں، اسکا نشاں بیچ دیا
گویا کہ آگ کے ساتھ اسکا دھواں بیچ دیا
آپ جیسی مجھے مکاری نہیں آتی ہے
جو میں کہتی کہ ہوا جتنا زیاں بیچ دیا
غیرت حق تو شعائر کا چلن ہوتی ہے
چند ٹکڑوں پہ ہی ایمان کہاں بیچ دیا
شوق سے روئییے لاشوں کی خموشی پر اب
زندہ لوگوں کا تھا جو شور و فغاں بیچ دیا
اس سے پہلے کہ در و بام ہمیں کھاجاتے
سب کو حصہ بھی تو دینا تھا مکاں بیچ دیا
گھر نہیں بنتے ہیں نفرت کی فصیلوں سے حیا
جتنا باقی تھا سکوں،امن و اماں بیچ دیا Haya Ghazal
گویا کہ آگ کے ساتھ اسکا دھواں بیچ دیا
آپ جیسی مجھے مکاری نہیں آتی ہے
جو میں کہتی کہ ہوا جتنا زیاں بیچ دیا
غیرت حق تو شعائر کا چلن ہوتی ہے
چند ٹکڑوں پہ ہی ایمان کہاں بیچ دیا
شوق سے روئییے لاشوں کی خموشی پر اب
زندہ لوگوں کا تھا جو شور و فغاں بیچ دیا
اس سے پہلے کہ در و بام ہمیں کھاجاتے
سب کو حصہ بھی تو دینا تھا مکاں بیچ دیا
گھر نہیں بنتے ہیں نفرت کی فصیلوں سے حیا
جتنا باقی تھا سکوں،امن و اماں بیچ دیا Haya Ghazal
لرزش عشق کی تادیب مجھے لے ڈوبی لرزشِ عشق کی تادیب مجھے لے ڈوبی
رنجشِ یار کی تعذیب مجھے لے ڈوبی
حاشیئے کھینچ کے عادی تھی سطر لکھنے کی
زندگی میں یہی ترتیب مجھے لے ڈوبی
حوصلہ ہوتا اگر تیرا قصیدہ لکھتی
تجھ گریزاں کی تو تشبیب مجھے لے ڈوبی
میں نے نفرت کا صلہ اسکو محبت سے دیا
میرے پُرکھوں کی یہ تہذیب مجھے لے ڈوبی
اس زمانے نے میاں ہم کو بھی للچایا بہت
زہدِ مکار کی ترغیب ہمیں لے ڈوبی
درد کو نم سے ملاتی تھی بناتی تھی ہنسی
کیمیا سازی کی ترکیب مجھے لے ڈوبی
کچھ بھی پوجا نہ سوا ایک بتِ بے پرواہ
خانہء دل کی یہ تنصیب مجھے لے ڈوبی
میں نے انکار کیا جھوٹے خداؤں کا حیا
کیا اناؤں کی یہ تکذیب مجھے لے ڈوبی ؟؟ Haya Ghazal
رنجشِ یار کی تعذیب مجھے لے ڈوبی
حاشیئے کھینچ کے عادی تھی سطر لکھنے کی
زندگی میں یہی ترتیب مجھے لے ڈوبی
حوصلہ ہوتا اگر تیرا قصیدہ لکھتی
تجھ گریزاں کی تو تشبیب مجھے لے ڈوبی
میں نے نفرت کا صلہ اسکو محبت سے دیا
میرے پُرکھوں کی یہ تہذیب مجھے لے ڈوبی
اس زمانے نے میاں ہم کو بھی للچایا بہت
زہدِ مکار کی ترغیب ہمیں لے ڈوبی
درد کو نم سے ملاتی تھی بناتی تھی ہنسی
کیمیا سازی کی ترکیب مجھے لے ڈوبی
کچھ بھی پوجا نہ سوا ایک بتِ بے پرواہ
خانہء دل کی یہ تنصیب مجھے لے ڈوبی
میں نے انکار کیا جھوٹے خداؤں کا حیا
کیا اناؤں کی یہ تکذیب مجھے لے ڈوبی ؟؟ Haya Ghazal
رمز تھی دل کی کوئی کیسے زباں تک پہنچی رمز تھی دل کی کوئی کیسے زباں تک پہنچی
بات سے بات جو نکلی تو کہاں تک تک پہنچی
ایک ماتھے کی شکن گرم رویئے میں ڈھلی
پھر وہ تکرار بنی ۔۔ تیر و کماں تک پہنچی
آج موضوعِ سخن ہم نے وفا رکھا تھا
بات انساں سے چلی اور سگاں تک پہنچی
حق کے متوالوں کی آنکھوں میں اتر آیا لہو
بات ملحد کی جو مومن کی اذاں تک پہنچی
اسکی پرواز بلندی کو نہ چھو جائے کہیں
کیسے چڑیا یہ بنا پر کے وہاں تک پہنچی
رنگ محفل پہ چڑھا, ذکرِ سخن خوب ہوا
بات اردو کی, زباں اور بیاں تک پہنچی
دل ترستا تھا تلاوت کے لیئے جس کی حیا
آج اردو وہ میری پاک زباں تک پہنچی Haya Ghazal
بات سے بات جو نکلی تو کہاں تک تک پہنچی
ایک ماتھے کی شکن گرم رویئے میں ڈھلی
پھر وہ تکرار بنی ۔۔ تیر و کماں تک پہنچی
آج موضوعِ سخن ہم نے وفا رکھا تھا
بات انساں سے چلی اور سگاں تک پہنچی
حق کے متوالوں کی آنکھوں میں اتر آیا لہو
بات ملحد کی جو مومن کی اذاں تک پہنچی
اسکی پرواز بلندی کو نہ چھو جائے کہیں
کیسے چڑیا یہ بنا پر کے وہاں تک پہنچی
رنگ محفل پہ چڑھا, ذکرِ سخن خوب ہوا
بات اردو کی, زباں اور بیاں تک پہنچی
دل ترستا تھا تلاوت کے لیئے جس کی حیا
آج اردو وہ میری پاک زباں تک پہنچی Haya Ghazal
جن کو اللہ سے بس اللہ سے ڈرتے دیکھا جن کو اللہ سے بس اللہ سے ڈرتے دیکھا
نار کو ان کے لیئے پھولوں میں ڈھلتے دیکھا
ہم نے پتهر کے پہاڑوں کو پگهلتے دیکها
اور پانی کو بهی اس دنیا میں جمتے دیکها
جسم تو جسم ہیں احساس تحفظ کے لیئے
میں نے دیوار سے چھاؤں کو لپٹتے دیکھا
ان گلی کوچوں میں ہے رقص اندهیروں کا جہاں
ہم نے اس چاند کو سج دهج کے گزرتے دیکها
لاش اک سطح تالاب پہ آجاتی ہے
خواب اک آنکھ پہ ہر رات ابھرتے دیکھا
ہم نے دیکھا تھا فلک پر ہی چمکتا سورج
ایک دن پھر وہ گلی سے بھی گذرتا دیکھا
برف میں آگ لگارکھی تھی دو شمعوں نے
سخت سردی میں بھی دو جسموں کو جلتے دیکھا Haya Ghazal
نار کو ان کے لیئے پھولوں میں ڈھلتے دیکھا
ہم نے پتهر کے پہاڑوں کو پگهلتے دیکها
اور پانی کو بهی اس دنیا میں جمتے دیکها
جسم تو جسم ہیں احساس تحفظ کے لیئے
میں نے دیوار سے چھاؤں کو لپٹتے دیکھا
ان گلی کوچوں میں ہے رقص اندهیروں کا جہاں
ہم نے اس چاند کو سج دهج کے گزرتے دیکها
لاش اک سطح تالاب پہ آجاتی ہے
خواب اک آنکھ پہ ہر رات ابھرتے دیکھا
ہم نے دیکھا تھا فلک پر ہی چمکتا سورج
ایک دن پھر وہ گلی سے بھی گذرتا دیکھا
برف میں آگ لگارکھی تھی دو شمعوں نے
سخت سردی میں بھی دو جسموں کو جلتے دیکھا Haya Ghazal
ایک پل کے لیئے ایک پل کے لیے اک گهڑی کے لیے
وقت رکتا نہیں اب کسی کے لیے
رات کتنی بهی کالی ہو تاریک ہو
اک دیا ہے بہت روشنی کے لیے
سازو آواز اور شاعری ہی نہیں
خون دل چاہیئے نغمگی کے لیئے
فتنہ گر فتنہ گر آج چاروں طرف
کوئ موسی نہیں سامری کے لیئے
ہچکیاں سسکیاں اشک آہ فغاں
ہم.چهپاتے رہے آپ ہی کے لیے
زندگی کی حقیقت کریں کیا بیاں
ہے مسلسل جہد ہر کسی کے لیے
ہم تو دل والے ہیں دل کی سنتے ہیں بس
منطقیں چاہیئیں منطقی کے لیئے Haya Ghazal
وقت رکتا نہیں اب کسی کے لیے
رات کتنی بهی کالی ہو تاریک ہو
اک دیا ہے بہت روشنی کے لیے
سازو آواز اور شاعری ہی نہیں
خون دل چاہیئے نغمگی کے لیئے
فتنہ گر فتنہ گر آج چاروں طرف
کوئ موسی نہیں سامری کے لیئے
ہچکیاں سسکیاں اشک آہ فغاں
ہم.چهپاتے رہے آپ ہی کے لیے
زندگی کی حقیقت کریں کیا بیاں
ہے مسلسل جہد ہر کسی کے لیے
ہم تو دل والے ہیں دل کی سنتے ہیں بس
منطقیں چاہیئیں منطقی کے لیئے Haya Ghazal
کوئی الزام مجھ پہ دھر گیا ہے کیا کوئی الزام مجھ پہ دھر گیا ہے کیا
یا یہ دل مجھ سے میرا بھر گیا ہے کیا
سنائ دے رہی ہے پھر سے یہ سسکی
کوئ مجھ میں کہیں پھر مرگیا ہے کیا
بکھرتی جارہی ہوں اپنے ہاتھوں میں
یہ مجھ پہ وار تو بھی کرگیا ہے کیا
یہ گیلا گیلا سا قرطاس ہے کیا ہے
کوئ اس پہ سمندر دھر گیا ہے کیا
فرشتے آسماں پہ کیوں بھلا خوش ہیں
کوئ مقتل سے پھر بن سر گیا ہے کیا
وہ اب اپنی غزل کے شاخسانے کو
سنانے یا چھپانے گھر گیا ہے کیا Haya Ghazal
یا یہ دل مجھ سے میرا بھر گیا ہے کیا
سنائ دے رہی ہے پھر سے یہ سسکی
کوئ مجھ میں کہیں پھر مرگیا ہے کیا
بکھرتی جارہی ہوں اپنے ہاتھوں میں
یہ مجھ پہ وار تو بھی کرگیا ہے کیا
یہ گیلا گیلا سا قرطاس ہے کیا ہے
کوئ اس پہ سمندر دھر گیا ہے کیا
فرشتے آسماں پہ کیوں بھلا خوش ہیں
کوئ مقتل سے پھر بن سر گیا ہے کیا
وہ اب اپنی غزل کے شاخسانے کو
سنانے یا چھپانے گھر گیا ہے کیا Haya Ghazal
یہی جاودانی ہے ہائے ہماری یہی جاودانی ہے ہائے ہماری
کہ دنیا ہے جیسے سرائے ہماری
چلو چل کے چھپ جائیں ایسی جگہ ہم
رہیں ٹوہ میں یوں نہ سائے ہماری
پیئے گھونٹ کے ساتھ لہجے کی تلخی
تصور میں صورت جو لائے ہماری
ترے ساتھ پینے میں لطف اور ہی ہے
کئ دن سے کڑوی ہے چائے ہماری
اکیلے اکیلے کہاں ہم پیئیں گے
اٹھالاؤ ٹیبل سے چائے ہماری
چلو آج کے بعد پھر نہ پلانا
نہیں دل کو بھاتی جو رائے ہماری Haya Ghazal
کہ دنیا ہے جیسے سرائے ہماری
چلو چل کے چھپ جائیں ایسی جگہ ہم
رہیں ٹوہ میں یوں نہ سائے ہماری
پیئے گھونٹ کے ساتھ لہجے کی تلخی
تصور میں صورت جو لائے ہماری
ترے ساتھ پینے میں لطف اور ہی ہے
کئ دن سے کڑوی ہے چائے ہماری
اکیلے اکیلے کہاں ہم پیئیں گے
اٹھالاؤ ٹیبل سے چائے ہماری
چلو آج کے بعد پھر نہ پلانا
نہیں دل کو بھاتی جو رائے ہماری Haya Ghazal
ہوتا ہے بدگمان وہ اتنا کبھی کبھی ہوتا ہے بدگمان وہ اتنا کبھی کبھی
بہتا ہے الٹی سمت میں دریا کبھی کبھی
قسمت پہ اتنا بھی نہ کرو اعتبار تم
کرتا ہے بے وفائ ستارا کبھی کبھی
کس پل میں کیا ہو،اور ہوکس پل میں کیا پتہ
لگتا نہیں پتہ مجھے تیرا کبھی کبھی
ہوتی نہیں ہے روز سخاوت جناب کی
ہوتا ہے اس طرف سے اشارہ کبھی کبھی
چاروں طرف ہے شور گھٹی سی پکار کا
بہری سماعتوں کو ہے شکوہ کبھی کبھی
بازی لگا کے داؤ پہ رکھے جو زندگی
جیتا بھی ہے ضرور جو ہارا کبھی کبھی
یوں تو ہمیشہ میری سماعت تھی منتظر
یہ اور بات .........تم نے پکارا کبھی کبھی
Haya Ghazal
بہتا ہے الٹی سمت میں دریا کبھی کبھی
قسمت پہ اتنا بھی نہ کرو اعتبار تم
کرتا ہے بے وفائ ستارا کبھی کبھی
کس پل میں کیا ہو،اور ہوکس پل میں کیا پتہ
لگتا نہیں پتہ مجھے تیرا کبھی کبھی
ہوتی نہیں ہے روز سخاوت جناب کی
ہوتا ہے اس طرف سے اشارہ کبھی کبھی
چاروں طرف ہے شور گھٹی سی پکار کا
بہری سماعتوں کو ہے شکوہ کبھی کبھی
بازی لگا کے داؤ پہ رکھے جو زندگی
جیتا بھی ہے ضرور جو ہارا کبھی کبھی
یوں تو ہمیشہ میری سماعت تھی منتظر
یہ اور بات .........تم نے پکارا کبھی کبھی
Haya Ghazal
میری ہر ایک ریاضت کا ثمر دیتا ہے میری ہر ایک ریاضت کا ثمر دیتا ہے
ہاتھ اٹھتے ہی دعاؤں میں اثر دیتا ہے
خالقِ خلق وہ ہے ،ایک مجازی میرا
جب میں مانگوں وہ رہائی کا سفر دیتا ہے
خامشی کو مری الفاظ عطا کر کے نئے
مردہ کاغذ کے مسامات کو بھر دیتا ہے
مجھ کو دیتا ہے اسیری کا وہ مژدہ ایسے
میری پرواز کو پر دے کے کتر دیتا ہے
مجھ کو دکھتا ہے سپیدہ بھی سیاہی کی طرح
ایسے بینائی کو وہ حسنِ نظر دیتا ہے
میں نے مانگی ہی نہیں عزت و تکریم کبھی
اس کا احسان ہے بن مانگے ہی دھر دیتا ہے
رات بھر ہوتا ہے کتنے ہی خزانوں کا نزول
اس پہ یہ اشک مجھے صورتِ ذر دیتا ہے Haya Ghazal
ہاتھ اٹھتے ہی دعاؤں میں اثر دیتا ہے
خالقِ خلق وہ ہے ،ایک مجازی میرا
جب میں مانگوں وہ رہائی کا سفر دیتا ہے
خامشی کو مری الفاظ عطا کر کے نئے
مردہ کاغذ کے مسامات کو بھر دیتا ہے
مجھ کو دیتا ہے اسیری کا وہ مژدہ ایسے
میری پرواز کو پر دے کے کتر دیتا ہے
مجھ کو دکھتا ہے سپیدہ بھی سیاہی کی طرح
ایسے بینائی کو وہ حسنِ نظر دیتا ہے
میں نے مانگی ہی نہیں عزت و تکریم کبھی
اس کا احسان ہے بن مانگے ہی دھر دیتا ہے
رات بھر ہوتا ہے کتنے ہی خزانوں کا نزول
اس پہ یہ اشک مجھے صورتِ ذر دیتا ہے Haya Ghazal
گھر میں ہوکر بھی پس دیوار و در ملتے نہیں گھر میں ہوکر بھی پس دیوارو در ملتے نہیں
ہم جہاں ہوتے ہیں خود کو ہی ادھر ملتے نہیں
ہیں مقدر میں اندهیرے محو رقصاں دوستو
راستے روشن ہوں کتنے چارہ گر ملتے نہیں
لے گیا طوفان اب کے سب یہاں کی رونقیں
بستیاں موجود ہیں لیکن بشر ملتے نہیں
آنکھ والوں کے نگر میں دیکھنا بھی جرم ہے
ڈھونڈنے نکلو تو دھڑ ملتے ہیں سر ملتے نہیں
خشک سالی کا گلہ اب کیجیئے کس سے غزل
ڈھونڈنے نکلوں اگر چھایہ شجر ملتے نہیں Haya Ghazal
ہم جہاں ہوتے ہیں خود کو ہی ادھر ملتے نہیں
ہیں مقدر میں اندهیرے محو رقصاں دوستو
راستے روشن ہوں کتنے چارہ گر ملتے نہیں
لے گیا طوفان اب کے سب یہاں کی رونقیں
بستیاں موجود ہیں لیکن بشر ملتے نہیں
آنکھ والوں کے نگر میں دیکھنا بھی جرم ہے
ڈھونڈنے نکلو تو دھڑ ملتے ہیں سر ملتے نہیں
خشک سالی کا گلہ اب کیجیئے کس سے غزل
ڈھونڈنے نکلوں اگر چھایہ شجر ملتے نہیں Haya Ghazal
کوزہ گر چاہے تو پھر کیا کیا ہوں میں کوزہ گر چاہے تو پھر کیا کیا ہوں میں
ورنہ اس کے ہاتھ میں گارا ہوں میں
بند گلیوں کی طرح سنسان ہوں
دوستوں کے واسطے رستہ ہوں میں
جس کے دروازے کی چابی کھو گئی
بند برسوں سے پڑا کمرہ ہوں میں
مجھ سے رکھیئے مت کوئ امید نو
آتی جاتی رت کا اک جھونکا ہوں میں
ہوں تو میں پانی کا ہی قطرہ مگر
درد بن کے آنکھ سے رستا ہوں میں
موم ہوں جو خود پگھل کے بہہ رہی
دوسروں کے واسطے شعلہ ہوں میں
دیکھ وہ جو ہیں ستارے ساتھ ساتھ
ایک تارہ تو ہے اک تارہ ہوں میں Haya Ghazal
ورنہ اس کے ہاتھ میں گارا ہوں میں
بند گلیوں کی طرح سنسان ہوں
دوستوں کے واسطے رستہ ہوں میں
جس کے دروازے کی چابی کھو گئی
بند برسوں سے پڑا کمرہ ہوں میں
مجھ سے رکھیئے مت کوئ امید نو
آتی جاتی رت کا اک جھونکا ہوں میں
ہوں تو میں پانی کا ہی قطرہ مگر
درد بن کے آنکھ سے رستا ہوں میں
موم ہوں جو خود پگھل کے بہہ رہی
دوسروں کے واسطے شعلہ ہوں میں
دیکھ وہ جو ہیں ستارے ساتھ ساتھ
ایک تارہ تو ہے اک تارہ ہوں میں Haya Ghazal
پھر سے ان آنکھوں میں استفسار ہے پھر سے ان آنکھوں میں استفسار ہے
کچھ بھی کہنا اس گھڑٰی دشوار ہے
اسکی آنکھیں سب اگل دیتی ہیں سچ
گو اسے اب پیار سے انکار ہے
سرخیاں پڑھ کر سبھی نے چھوڑ دی
زندگانی شام کا اخبار ہے
چوم کر رکھے صحیفے طاق پر
ہر کسی کے ہاتھ میں تلوار ہے
در نہیں ہیں کھڑکیاں بھی اب نہیں
ہر قدم پہ اک نئ دیوار ہے
سارے رشتے ہیں یہاں مطلب پرست
جھوٹ پہ جیسے کھڑا سنسار ہے
اسکے بارے میں زمانہ جو کہے
یار ہے،وہ یار ہے، وہ یار ہے Haya Ghazal
کچھ بھی کہنا اس گھڑٰی دشوار ہے
اسکی آنکھیں سب اگل دیتی ہیں سچ
گو اسے اب پیار سے انکار ہے
سرخیاں پڑھ کر سبھی نے چھوڑ دی
زندگانی شام کا اخبار ہے
چوم کر رکھے صحیفے طاق پر
ہر کسی کے ہاتھ میں تلوار ہے
در نہیں ہیں کھڑکیاں بھی اب نہیں
ہر قدم پہ اک نئ دیوار ہے
سارے رشتے ہیں یہاں مطلب پرست
جھوٹ پہ جیسے کھڑا سنسار ہے
اسکے بارے میں زمانہ جو کہے
یار ہے،وہ یار ہے، وہ یار ہے Haya Ghazal