Hum Khaali Pet Sarhad Par
Poet: zahid imroz By: marium, MumbaiHum Khaali Pet Sarhad Par
Hathon Ki Amn Zanjir Nahin Bana Sakte
Bhuk Hamari Raaten Khushk Kar Deti Hai
Aansu Kabhi Pyas Nahin Bujhate
Rajaz Qaumi Tarana Ban Jae
To Zarkhezi Qahat Ugane Lagti Hai
Bachche Man Ki Chhatiyon Se
Khun Chusne Lagte Hai
Koi Chehron Pe Parcham Nahin Banata
Aur Yaum-E-Azadi Par Log
Phul-Jhadiyan Nahin Apni Khushiyan Jalate Hain
Fauj Kabhi Naghme Nahin Gunguna Sakti
Ki Sipahi Khetiyan Ujadne Wale
Khud-Kar Auzar Hote Hain
Kya Phul Nau-Biyahata Aurat Ke Baalon
Aur Bachchon Ke Libas Par Hi Jachta Hai
Kash
Watan Ki Had Hudud Ke Tayyun Ke Liye
Phulon Ki Kiyariyan
Aahini-Taron Ka Mutabaadil Hotin
More Zahid Imroz Poetry
بیٹی تو رب کی رحمت ہے بیٹی تو رب کی رحمت ہے
بابا کے گھر کی رونق ہے
جھومر ہے ماں کے ماتھے کا
بھائیوں کے دل کی راحت ہے
سب چھوڑ کے اک دن جائے گی۔بیٹی جو ہوئی
دکھ سکھ اس کو سہنا ہے
چپ رہ کے ہر غم پینا ہے
بابا کی عزت کی خاطر
بھائیوں کی غیرت کی خاطر
ہر حسرت کا گلا دبا دے گی۔ بیٹی جو ہوئی
بابا کا گھرچھوڑے گی وہ
قسمت کا لکھا مانے گی
پلے باندھ دو جس کے بندھ جائے
شکوہ نہ کرے روئے بھی نہ
بابا کا بھرم یوں رکھے گی ۔ بیٹی جو ہوئی
سسرال کے دکھ سب سہہ لے گی
شکوہ نہ لبوں پہ لائے گی
بابا کی آنکھیں نم نہ ہوں
شوہر کی خوشیاں کم نہ ہوں
دکھ سہہ کر بھی مسکائے گی۔ بیٹی جو ہوئی
بابا کے گھر کی رونق ہے
جھومر ہے ماں کے ماتھے کا
بھائیوں کے دل کی راحت ہے
سب چھوڑ کے اک دن جائے گی۔بیٹی جو ہوئی
دکھ سکھ اس کو سہنا ہے
چپ رہ کے ہر غم پینا ہے
بابا کی عزت کی خاطر
بھائیوں کی غیرت کی خاطر
ہر حسرت کا گلا دبا دے گی۔ بیٹی جو ہوئی
بابا کا گھرچھوڑے گی وہ
قسمت کا لکھا مانے گی
پلے باندھ دو جس کے بندھ جائے
شکوہ نہ کرے روئے بھی نہ
بابا کا بھرم یوں رکھے گی ۔ بیٹی جو ہوئی
سسرال کے دکھ سب سہہ لے گی
شکوہ نہ لبوں پہ لائے گی
بابا کی آنکھیں نم نہ ہوں
شوہر کی خوشیاں کم نہ ہوں
دکھ سہہ کر بھی مسکائے گی۔ بیٹی جو ہوئی
Malik Khan Sial
میرا دل دیر تک سوئے ہوئے منہ کی باس تھا میرا دل دیر تک سوئے ہوئے منہ کی باس تھا
جہاں تم خود رو پھول بن کر کھل اٹھی تھیں
تمہارا منور وجود
میری تاریک روح میں سرما کی دھوپ بنا
تمہاری آنکھوں کی نمی سے کئی بہاروں نے خمار پیا
جوتوں سے گری مٹی سے بنے میرے ہاتھ
تمہاری تراشیدہ گولائیوں سے مل کر
جنت کی جھیل بن گئے
تمہارے سینے سے پھوٹتی آبشار کی موسیقی نے
میری زخمی سماعت کو سریلا گیت بنا دیا
میرے بنجر تخیل میں جہاں جہاں تمہارے قدم لگے
وہاں میں نئی دنیا بن کر تخلیق ہوا
اب تم جا چکی ہو
میرے آنسوؤں کی ندی
ایک ٹہنی کو بھی شجر نہیں کر سکی
میرے ارادوں کی شبنم
ایک کونپل کو بھی پھول نہیں کر سکی
سمجھوتے کا بھیڑیا
میرے ذرے ذرے سے تمہیں نوچ رہا ہے
اور اداسی ڈوبتے سورج کی آخری کرن بن کر
میرے کندھوں پر اندھیرے کی چادر ڈال رہی ہے
جہاں تم خود رو پھول بن کر کھل اٹھی تھیں
تمہارا منور وجود
میری تاریک روح میں سرما کی دھوپ بنا
تمہاری آنکھوں کی نمی سے کئی بہاروں نے خمار پیا
جوتوں سے گری مٹی سے بنے میرے ہاتھ
تمہاری تراشیدہ گولائیوں سے مل کر
جنت کی جھیل بن گئے
تمہارے سینے سے پھوٹتی آبشار کی موسیقی نے
میری زخمی سماعت کو سریلا گیت بنا دیا
میرے بنجر تخیل میں جہاں جہاں تمہارے قدم لگے
وہاں میں نئی دنیا بن کر تخلیق ہوا
اب تم جا چکی ہو
میرے آنسوؤں کی ندی
ایک ٹہنی کو بھی شجر نہیں کر سکی
میرے ارادوں کی شبنم
ایک کونپل کو بھی پھول نہیں کر سکی
سمجھوتے کا بھیڑیا
میرے ذرے ذرے سے تمہیں نوچ رہا ہے
اور اداسی ڈوبتے سورج کی آخری کرن بن کر
میرے کندھوں پر اندھیرے کی چادر ڈال رہی ہے
ehsan
میں نے کئی رنگ کے سائے سونگھے ہیں میں نے کئی رنگ کے سائے سونگھے ہیں
مگر دیواروں پر کندہ کیے پھولوں میں
کبھی خوشبو نہیں مہکی
محبت روح میں تب اترتی ہے
جب غموں کی ریت اور آنسوؤں سے
ہم اپنے اندر شکستگی تعمیر کرتے ہیں
جس قدر بھی ہنس لو
نجات کا کوئی راستہ نہیں
تم محبت کے گنہ گار ہو
سو غم تمہاری ہڈیوں میں پھیلا ہوا ہے
اپنے عمیق تجربے سے بتاؤ
ایک محبت ماپنے کے لیے
ہمیں دوسری محبت کیوں تلاشنا پڑتی ہے
میں جمع ہو کر کم پڑ گیا ہوں
کہیں ایسا تو نہیں
ارتقا کی جلد بازی میں
میں نے دو نفی جوڑ لیے ہیں
مگر دیواروں پر کندہ کیے پھولوں میں
کبھی خوشبو نہیں مہکی
محبت روح میں تب اترتی ہے
جب غموں کی ریت اور آنسوؤں سے
ہم اپنے اندر شکستگی تعمیر کرتے ہیں
جس قدر بھی ہنس لو
نجات کا کوئی راستہ نہیں
تم محبت کے گنہ گار ہو
سو غم تمہاری ہڈیوں میں پھیلا ہوا ہے
اپنے عمیق تجربے سے بتاؤ
ایک محبت ماپنے کے لیے
ہمیں دوسری محبت کیوں تلاشنا پڑتی ہے
میں جمع ہو کر کم پڑ گیا ہوں
کہیں ایسا تو نہیں
ارتقا کی جلد بازی میں
میں نے دو نفی جوڑ لیے ہیں
vaneeza
ہم خالی پیٹ سرحد پر ہم خالی پیٹ سرحد پر
ہاتھوں کی امن زنجیر نہیں بنا سکتے
بھوک ہماری راتیں خشک کر دیتی ہے
آنسو کبھی پیاس نہیں بجھاتے
رجز قومی ترانہ بن جائے
تو زرخیزی قحط اگانے لگتی ہے
بچے ماں کی چھاتیوں سے
خون چوسنے لگتے ہیں
کوئی چہروں پہ پرچم نہیں بناتا
اور یوم آزادی پر لوگ
پھلجھڑیاں نہیں اپنی خوشیاں جلاتے ہیں
فوج کبھی نغمے نہیں گنگنا سکتی
کہ سپاہی کھیتیاں اجاڑنے والے
خود کار اوزار ہوتے ہیں
کیا پھول نوبیاہتا عورت کے بالوں
اور بچوں کے لباس پر ہی جچتا ہے
کاش
وطن کی حد حدود کے تعین کے لیے
پھولوں کی کیاریاں
آہنی تاروں کا متبادل ہوتیں
ہاتھوں کی امن زنجیر نہیں بنا سکتے
بھوک ہماری راتیں خشک کر دیتی ہے
آنسو کبھی پیاس نہیں بجھاتے
رجز قومی ترانہ بن جائے
تو زرخیزی قحط اگانے لگتی ہے
بچے ماں کی چھاتیوں سے
خون چوسنے لگتے ہیں
کوئی چہروں پہ پرچم نہیں بناتا
اور یوم آزادی پر لوگ
پھلجھڑیاں نہیں اپنی خوشیاں جلاتے ہیں
فوج کبھی نغمے نہیں گنگنا سکتی
کہ سپاہی کھیتیاں اجاڑنے والے
خود کار اوزار ہوتے ہیں
کیا پھول نوبیاہتا عورت کے بالوں
اور بچوں کے لباس پر ہی جچتا ہے
کاش
وطن کی حد حدود کے تعین کے لیے
پھولوں کی کیاریاں
آہنی تاروں کا متبادل ہوتیں
Sadiq
اس نے مجھ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی
میں نے اسے اپنا سینہ چھونے کو کہا
اس نے میرا دل چوم کر
مجھے امر کر دیا
میں نے اس سے محبت کی
اس نے مجھے دل چومنے کو کہا
میں نے اس کا سینہ چھو کر
اسے ہدایت بخشی
ہم دونوں جدا ہو گئے
جدائی نے ہمارے خواب زہریلے کر دیے
یک سانسی موت اب ہماری پہلی ترجیح ہے
تنہائی کا سانپ ہمیں رات بھر ڈستا رہتا ہے
اور صبح اپنا زہر چوس کر
اگلی رات ڈسنے کے لیے
زندہ چھوڑ جاتا ہے
میں نے اسے اپنا سینہ چھونے کو کہا
اس نے میرا دل چوم کر
مجھے امر کر دیا
میں نے اس سے محبت کی
اس نے مجھے دل چومنے کو کہا
میں نے اس کا سینہ چھو کر
اسے ہدایت بخشی
ہم دونوں جدا ہو گئے
جدائی نے ہمارے خواب زہریلے کر دیے
یک سانسی موت اب ہماری پہلی ترجیح ہے
تنہائی کا سانپ ہمیں رات بھر ڈستا رہتا ہے
اور صبح اپنا زہر چوس کر
اگلی رات ڈسنے کے لیے
زندہ چھوڑ جاتا ہے
Waseem






