Poetries by ابن نیاز
ہو گئی پھر سکوں کی بارش ہو گئی پھر سکوں کی بارش
صدائے کن فیکوں کی بارش
بلا تھکان میں چلتا رہا
روک نہ سکی پتھروں کی بارش
وحی تو کب کی ہوئی جامد
پھر کیوں ہوئی خوشیوں کی بارش
خیالات رواں کے سلسلے
تھم گئی حسرتوں کی بارش
میٹھے بول میں ہے پنہاں جادو
کیسے کڑوے لہجوں کی بارش
بچوں کی ناتمام خواہشیں
خواہش پہ خواہشوں کی بارش
اعجاز بھی دھم سے بیٹھ گیا ہے
یاد میں ہوئی یادوں کی بارشچچ Ibn e Niaz
صدائے کن فیکوں کی بارش
بلا تھکان میں چلتا رہا
روک نہ سکی پتھروں کی بارش
وحی تو کب کی ہوئی جامد
پھر کیوں ہوئی خوشیوں کی بارش
خیالات رواں کے سلسلے
تھم گئی حسرتوں کی بارش
میٹھے بول میں ہے پنہاں جادو
کیسے کڑوے لہجوں کی بارش
بچوں کی ناتمام خواہشیں
خواہش پہ خواہشوں کی بارش
اعجاز بھی دھم سے بیٹھ گیا ہے
یاد میں ہوئی یادوں کی بارشچچ Ibn e Niaz
الوداع الوداع کس نے کہا تھا
تم ہمسفر بنو
جو بن ہی گئے تھے
تو نبھانا بھی سیکھ لیتے
سفر کے سارے اطوار
رہگزر کے سارے طریقے
اونچ نیچ تو شیوہ ہے
زندگی میں بدلنے کا
مگر یہ کیا
کہ روٹھ گئے تم
اک چھوٹی سی بات پر
یہ تو نہیں کہا تھا میں نے
مجھے چھوڑ کر تم چلے جاؤ
اس دنیا کو میرے لیے تم
جہنم زار بنا جاؤ
تم جیسے جانتے نہیں تھے
کہ تمھارے بن
میں جی تو لوں گا
سانس بھی میری چلتی ہوں گی
مگر جسے کہتے ہیں زندگی
وہ تھم گئی ہو گی
پھر بھی وفا تم نبھا نہ سکے
مگر نہیں
یہ میں ہی ہوں جو اب تک
زندہ ہوں ، دھڑکن چل رہی ہے
بے وفا میں ہوں
میری جاں ، میں ہوں
جو وعدہ کیا تھا کہ سنگ چلیں گے
زندگی کے سنگ، موت کے سنگ
مگر دیکھو
دیکھو اے دنیا والو
مجھے دیکھ لو تم
جو دیکھنا ہو کسی ایسے کو
جو ساتھ رستے میں چھوڑ جائے
پہنچا کر منزل پر ہمراہی کو
خود منہ موڑ کر پلٹ آئے
دعا اب یہی ہے میری
دعا اب یہی ہے سب کی
کرے جو خدا رتبہ بلند
تیرا نام بھی ہو شامل
فہرستِ جداگانہ میں
نبیوں میں، صادقین میں بھی
شہیدوں میں ہو
اور فہرستِ صالحین میں بھی
بس یہی ہے میری دعا
فردوسِ بریں میں ہو ٹھکانہ تیرا
الوداع الوداع
اے میری زندگی کے ساتھی
الوداع الوداع۔۔ Ibn e Niaz
تم ہمسفر بنو
جو بن ہی گئے تھے
تو نبھانا بھی سیکھ لیتے
سفر کے سارے اطوار
رہگزر کے سارے طریقے
اونچ نیچ تو شیوہ ہے
زندگی میں بدلنے کا
مگر یہ کیا
کہ روٹھ گئے تم
اک چھوٹی سی بات پر
یہ تو نہیں کہا تھا میں نے
مجھے چھوڑ کر تم چلے جاؤ
اس دنیا کو میرے لیے تم
جہنم زار بنا جاؤ
تم جیسے جانتے نہیں تھے
کہ تمھارے بن
میں جی تو لوں گا
سانس بھی میری چلتی ہوں گی
مگر جسے کہتے ہیں زندگی
وہ تھم گئی ہو گی
پھر بھی وفا تم نبھا نہ سکے
مگر نہیں
یہ میں ہی ہوں جو اب تک
زندہ ہوں ، دھڑکن چل رہی ہے
بے وفا میں ہوں
میری جاں ، میں ہوں
جو وعدہ کیا تھا کہ سنگ چلیں گے
زندگی کے سنگ، موت کے سنگ
مگر دیکھو
دیکھو اے دنیا والو
مجھے دیکھ لو تم
جو دیکھنا ہو کسی ایسے کو
جو ساتھ رستے میں چھوڑ جائے
پہنچا کر منزل پر ہمراہی کو
خود منہ موڑ کر پلٹ آئے
دعا اب یہی ہے میری
دعا اب یہی ہے سب کی
کرے جو خدا رتبہ بلند
تیرا نام بھی ہو شامل
فہرستِ جداگانہ میں
نبیوں میں، صادقین میں بھی
شہیدوں میں ہو
اور فہرستِ صالحین میں بھی
بس یہی ہے میری دعا
فردوسِ بریں میں ہو ٹھکانہ تیرا
الوداع الوداع
اے میری زندگی کے ساتھی
الوداع الوداع۔۔ Ibn e Niaz
عشق ہے نام جدائی کا عشق ہے نام جدائی کا
وصال کی راتیں سہہ لو گے؟
حق اللہ تم کہتے ہو
سولی چڑھنا کہہ لو گے؟
مستی سے پُر نعرہ ہے
عشق والوں سے شہہ لو گے؟
شہہ رگ سے بھی قربت ہے
خون بہا تم لے لو گے؟
سجدے میں جو سر رکھا
بخشی امت لے لو گے
اعجاز کی قسمت دھوکا ہے
دنیا میں کچھ سہہ لو گے
عشق میں حاصل اتنا ہے
اشکِ نبی میں بہہ لو گے Ibn e Niaz
وصال کی راتیں سہہ لو گے؟
حق اللہ تم کہتے ہو
سولی چڑھنا کہہ لو گے؟
مستی سے پُر نعرہ ہے
عشق والوں سے شہہ لو گے؟
شہہ رگ سے بھی قربت ہے
خون بہا تم لے لو گے؟
سجدے میں جو سر رکھا
بخشی امت لے لو گے
اعجاز کی قسمت دھوکا ہے
دنیا میں کچھ سہہ لو گے
عشق میں حاصل اتنا ہے
اشکِ نبی میں بہہ لو گے Ibn e Niaz
اداسی ہاتھوں پہ رخسار سجائے
چلمن سے وہ ٹیک لگائے
سسکیاں آہیں وہ بھرتا ہے
اور چپکے سے وہ تکتا ہے
افق کے اس پار ہے جانا
پیا ملن کی آس لگانا
ایسا تو پر ہو گیا مشکل
بھٹک گئی ہے اسکی منزل
کن سوچوں کا وہ ہے باسی
اسکا ساتھی صرف اداسی
جسکی خاطر وہ بیٹھا ہے
کرکے یاد تو وہ تڑپا ہے
لیتے رہنا نام اسی کا
اب تو بس کام اسی کا Ibn e Niaz
چلمن سے وہ ٹیک لگائے
سسکیاں آہیں وہ بھرتا ہے
اور چپکے سے وہ تکتا ہے
افق کے اس پار ہے جانا
پیا ملن کی آس لگانا
ایسا تو پر ہو گیا مشکل
بھٹک گئی ہے اسکی منزل
کن سوچوں کا وہ ہے باسی
اسکا ساتھی صرف اداسی
جسکی خاطر وہ بیٹھا ہے
کرکے یاد تو وہ تڑپا ہے
لیتے رہنا نام اسی کا
اب تو بس کام اسی کا Ibn e Niaz
قصور کے غمزدہ بچوں کے نام تم بے قصور ہو
معصومیت سے چْور ہو
ابھی تو کھیلنے کے دن تھے
ابھی تو پالنے کے دن تھے
کہاں پھنس گئے تم
ان درندوں کے چنگل میں
کیسے مان گئے تم
ان کی چکنی چپڑی باتوں کو۔۔
کیا فانٹا کی اک ٹافی کافی تھی
یا پھر دس روپے جیب خرچ دیا تھا؟
لیکن میرے بچو!
جو سچ مانو تو
قصور ہر گز نہیں تمھارا۔۔
تمھیں کیا معلوم زندگی کیا ہے؟
تمھیں کیا معلوم
کھیل کھیل میں کون کیا کھیلتا ہے؟
تم نہیں جانتے۔۔
کہ یہ درندے شہر کے
بڑے چاپلوس ہوتے ہیں
تمھیں رجھائیں گے
تمھیں سمجھائیں گے
تمھارے بدن کو دھیرے دھیرے
اپنے منحوس ہاتھوں سے سہلائیں گے۔
کاش کہ تمھارے پاپا
اور تمھاری ممی بھی
یہ خیال بھی رکھتے تمھارا۔۔
کہ کیوں تم کھوئے کھوئے رہتے تھے۔
ایک دم سے کیوں لالچ نے آ گھیرا تھا۔۔
کیوں دل نہیں لگتا تھا تب تمھارا
گھر کے کاموں میں
نہ سکول کے کاموں میں۔
کیوں وقت بے وقت باہر نکلتے تھے۔۔
کیوں چھپ چھپ کر تم روتے تھے۔
کاش تمھاری ممی
کھانے پینے میں
اور کپڑوں کی خوبصورتی میں
تمھیں نہ ڈھونڈتیں۔۔
تمھیں کچھ سکھا دیتیں
قرآن کا علم بھی
اور سنتِ رسول ? کیا ہے؟
یہ بھی بتا دیتیں۔
کون ساتھی ہے تمھارا اور کون ابنْ الوقت۔۔۔
یہ تربیت بھی لازمی تھی۔
تمھارے پاپا کو چاہیے تھا
بتاتے تم کو
زندگی کی اونچ نیچ۔۔
محبت کیا ہے، ہوس کیا ہے؟
پاتال میں کیسے۔۔
یہ سطوت کیا ہے؟
کوئی چھوئے جو تیرے نازک بدن کو
تو تم جان لو،
تمھیں معلوم ہو۔۔
محبت میں یہ لمس
یا پھر ہوس کا مارا۔۔
مگر افسوس سے کہوں گا!
ان کو خود سے نہیں فرصت
اور ان میں نہیں ہے اتنی جرا 191ت۔
اب جو پھیلا ہے زمانے میں
یہ زہرِ قاتلانہ
سن کر ، پڑھ کر
ہر فرد ہوا ہے دیوانہ۔۔
افسوس کے اظہار سے
دے مارا ہے لفظوں کا تازیانہ۔۔
مگر افسوس ہے ، صد افسوس ہے۔۔
میڈیا ہمارا خاموش ہے۔
کہنے کو تو منصفوں نے
حق کا اعلان کیا ہے
سچ بات کو ماننے کا
انصاف کو پھیلانے کا
بھرپور اعلان کیا ہے۔۔
مگر یہ کیا؟
سردار ہمارے شامل ہیں
ان کاموں کے ماہر ہیں
جرمِ سیاہ کو گورا سمجھیں
اور بکھری کالک کو بس نقطہ بولیں۔۔
پھر یہ کیسی ہے منصفی۔۔
ثبوت بھی ہیںِ گواہ بھی ہیں
اور سب کے سب جانکاہ بھی ہیں۔۔۔
کہوں گا تو بس یہی کہ۔۔
کہیں ثابت نہ ہو جائے اقبال کی یہ بات
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔۔۔ ابن نیاز
معصومیت سے چْور ہو
ابھی تو کھیلنے کے دن تھے
ابھی تو پالنے کے دن تھے
کہاں پھنس گئے تم
ان درندوں کے چنگل میں
کیسے مان گئے تم
ان کی چکنی چپڑی باتوں کو۔۔
کیا فانٹا کی اک ٹافی کافی تھی
یا پھر دس روپے جیب خرچ دیا تھا؟
لیکن میرے بچو!
جو سچ مانو تو
قصور ہر گز نہیں تمھارا۔۔
تمھیں کیا معلوم زندگی کیا ہے؟
تمھیں کیا معلوم
کھیل کھیل میں کون کیا کھیلتا ہے؟
تم نہیں جانتے۔۔
کہ یہ درندے شہر کے
بڑے چاپلوس ہوتے ہیں
تمھیں رجھائیں گے
تمھیں سمجھائیں گے
تمھارے بدن کو دھیرے دھیرے
اپنے منحوس ہاتھوں سے سہلائیں گے۔
کاش کہ تمھارے پاپا
اور تمھاری ممی بھی
یہ خیال بھی رکھتے تمھارا۔۔
کہ کیوں تم کھوئے کھوئے رہتے تھے۔
ایک دم سے کیوں لالچ نے آ گھیرا تھا۔۔
کیوں دل نہیں لگتا تھا تب تمھارا
گھر کے کاموں میں
نہ سکول کے کاموں میں۔
کیوں وقت بے وقت باہر نکلتے تھے۔۔
کیوں چھپ چھپ کر تم روتے تھے۔
کاش تمھاری ممی
کھانے پینے میں
اور کپڑوں کی خوبصورتی میں
تمھیں نہ ڈھونڈتیں۔۔
تمھیں کچھ سکھا دیتیں
قرآن کا علم بھی
اور سنتِ رسول ? کیا ہے؟
یہ بھی بتا دیتیں۔
کون ساتھی ہے تمھارا اور کون ابنْ الوقت۔۔۔
یہ تربیت بھی لازمی تھی۔
تمھارے پاپا کو چاہیے تھا
بتاتے تم کو
زندگی کی اونچ نیچ۔۔
محبت کیا ہے، ہوس کیا ہے؟
پاتال میں کیسے۔۔
یہ سطوت کیا ہے؟
کوئی چھوئے جو تیرے نازک بدن کو
تو تم جان لو،
تمھیں معلوم ہو۔۔
محبت میں یہ لمس
یا پھر ہوس کا مارا۔۔
مگر افسوس سے کہوں گا!
ان کو خود سے نہیں فرصت
اور ان میں نہیں ہے اتنی جرا 191ت۔
اب جو پھیلا ہے زمانے میں
یہ زہرِ قاتلانہ
سن کر ، پڑھ کر
ہر فرد ہوا ہے دیوانہ۔۔
افسوس کے اظہار سے
دے مارا ہے لفظوں کا تازیانہ۔۔
مگر افسوس ہے ، صد افسوس ہے۔۔
میڈیا ہمارا خاموش ہے۔
کہنے کو تو منصفوں نے
حق کا اعلان کیا ہے
سچ بات کو ماننے کا
انصاف کو پھیلانے کا
بھرپور اعلان کیا ہے۔۔
مگر یہ کیا؟
سردار ہمارے شامل ہیں
ان کاموں کے ماہر ہیں
جرمِ سیاہ کو گورا سمجھیں
اور بکھری کالک کو بس نقطہ بولیں۔۔
پھر یہ کیسی ہے منصفی۔۔
ثبوت بھی ہیںِ گواہ بھی ہیں
اور سب کے سب جانکاہ بھی ہیں۔۔۔
کہوں گا تو بس یہی کہ۔۔
کہیں ثابت نہ ہو جائے اقبال کی یہ بات
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔۔۔ ابن نیاز
تنہا پربتوں کے بیچ میں
بل کھاتی سڑکوں پر
بادلوں کا وہ مخملیں لمس
گزرتی گاڑیوں کا شور شرابا
وہ سنسناتی یخ ٹھنڈی ہوا
دُھوئیں کی اوڑھ ہٹاتی ہوئی وادیاں
اُن وادیوں میں بنتی مختصر سی ندیاں
خواہشوں کے پل بناتی ہوئی
جوت زندگی کی جگاتی ہوئی
شدت کے موسم میں جلتی زمیں
رنگت سنہری ٹمٹماتی ہوئی
فضا بھی لگتی ہے نکھری سی نکھری۔۔
ابرِ کرم یوں برستا رہا
مگر میرا دل ترستا رہا۔
ترچھی نظر نہ نگاہیں کوئی
نہ منتظر ہیں میری بانہیں کوئی۔۔
میں صدیوں میں صدیوں کا پیاسا ہُوا
اس دُنیا کی نگری میں مارا ہُوا
بھری اس محفل میں میں تنہا ہُوا۔۔
مُوسم کی دیکھو ہے کیسی یہ مستی
مگر نہ رہی اپنی کوئی ہستی۔۔
نہ پربت، نہ بادل، نہ ٹھنڈی ہوا۔۔
ہمیں نہ جانے کبھی بھی یہ دُنیا
آئے ہم تنہا، جائیں گے تنہا۔۔
××××××××× ابنِ نیاز
بل کھاتی سڑکوں پر
بادلوں کا وہ مخملیں لمس
گزرتی گاڑیوں کا شور شرابا
وہ سنسناتی یخ ٹھنڈی ہوا
دُھوئیں کی اوڑھ ہٹاتی ہوئی وادیاں
اُن وادیوں میں بنتی مختصر سی ندیاں
خواہشوں کے پل بناتی ہوئی
جوت زندگی کی جگاتی ہوئی
شدت کے موسم میں جلتی زمیں
رنگت سنہری ٹمٹماتی ہوئی
فضا بھی لگتی ہے نکھری سی نکھری۔۔
ابرِ کرم یوں برستا رہا
مگر میرا دل ترستا رہا۔
ترچھی نظر نہ نگاہیں کوئی
نہ منتظر ہیں میری بانہیں کوئی۔۔
میں صدیوں میں صدیوں کا پیاسا ہُوا
اس دُنیا کی نگری میں مارا ہُوا
بھری اس محفل میں میں تنہا ہُوا۔۔
مُوسم کی دیکھو ہے کیسی یہ مستی
مگر نہ رہی اپنی کوئی ہستی۔۔
نہ پربت، نہ بادل، نہ ٹھنڈی ہوا۔۔
ہمیں نہ جانے کبھی بھی یہ دُنیا
آئے ہم تنہا، جائیں گے تنہا۔۔
××××××××× ابنِ نیاز
کچھ یادیں پرانی کچھ یادیں پرانی
یوں یاد آگئیں
گزرے جو اک مقام سے
رہے جو بے نام سے
کسی کے انتظار میں
گھومنا ہر بازار میں
پنہا اپنی آنکھوں میں
پیار کی اک جوت جگائے
ہم نے پلٹ کر جو دیکھا
سراب تھا اک ماضی کا
بند کمرے میں تنہا تنہا
آگے پیچھے چینل چینل
شوخ و چنچل اک صدا
گرم گرم وہ پیزا کھانا
ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھانا
چکن سلاد کا ڈبہ جب
کھولا تو پائن ایپل تھا
ہنستے ہنستے وہ بھی چکھا
چکھتے چکھتے چٹ کر گئے
گرمی میں جب رات ڈھلے
آئس کریم کا چسکا لینا
کہیں بیٹھ کر چمچ چاٹنے کو
چمن کوئی متحرک ڈھونڈنا
ہر رات کو ڈھلتے چاند میں
ہاتھ میں ڈالے ہاتھ چلے
چاکو کوکو کے چسکے
زبان کے چٹخارے لیتے لیتے
جب پلتے ہم بند کمرے میں
خود کو دیکھا تنہا پایا
اشک آنکھ سے لڑھک آیا
یادیں بھی تنہا جھیلیں
زیست بھی ایسے گزرے گی
جیسے تیسے گزرے گی ابن نیاز
یوں یاد آگئیں
گزرے جو اک مقام سے
رہے جو بے نام سے
کسی کے انتظار میں
گھومنا ہر بازار میں
پنہا اپنی آنکھوں میں
پیار کی اک جوت جگائے
ہم نے پلٹ کر جو دیکھا
سراب تھا اک ماضی کا
بند کمرے میں تنہا تنہا
آگے پیچھے چینل چینل
شوخ و چنچل اک صدا
گرم گرم وہ پیزا کھانا
ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھانا
چکن سلاد کا ڈبہ جب
کھولا تو پائن ایپل تھا
ہنستے ہنستے وہ بھی چکھا
چکھتے چکھتے چٹ کر گئے
گرمی میں جب رات ڈھلے
آئس کریم کا چسکا لینا
کہیں بیٹھ کر چمچ چاٹنے کو
چمن کوئی متحرک ڈھونڈنا
ہر رات کو ڈھلتے چاند میں
ہاتھ میں ڈالے ہاتھ چلے
چاکو کوکو کے چسکے
زبان کے چٹخارے لیتے لیتے
جب پلتے ہم بند کمرے میں
خود کو دیکھا تنہا پایا
اشک آنکھ سے لڑھک آیا
یادیں بھی تنہا جھیلیں
زیست بھی ایسے گزرے گی
جیسے تیسے گزرے گی ابن نیاز