مِرا تو جان و جگر سب کا سب برائے حسن
ہزار جان بھی دے رب کروں فِدائے حسن
یہ آسماں کی بلندی سے بھی جو اونچا ہے
بُلند کتنا ہے دیکھو تو یہ لِوائے حسن
نبی کے دین کی خاطر کیا ہے سب قرباں
کہ زہر پی کے بھی دیکھو ہیں مسکرائے حسن
ہوائیں مہک اٹھی اور دل ہوا روشن
مِرے خیال کے گُلشن میں جب سَمائے حسن
گدائے بے سر و ساماں کو بھیک دیتے ہیں
جہان سارے کا سارا ہے بس گدائے حسن
عطاء کرے جو حکومت فقیر ِدر کو بھی
سخاوتوں کی بلندی پہ ہے سخائے حسن
سخی ہیں جتنے جہاں بھر کے ان کے نوکر ہیں
یہ کائناتِ سخاوت ہے زیرِ پائے حسن
کروں گا ذکر میں ہر دم علی کے بیٹے کا
عرش سے فرش تلک گونجے گی یہ نوائے حسن
مِرے نصیب میں شاہ میر ذکر ہے انکا
صُبح سے شام تَلک کرتا رہوں ثنائے حسن