Kali Kali Zulfon Lyrics in Urdu
Poet: Nusrat Fateh Ali Khan By: Jamshed Ali, MultanKali Kali zulfon ke phande na dalo
 Hamain Zinda Rehny Do Ay Husan Walo
 
 Ap Is Tarah to Hosh Uraya Na Kijiay
 Youn Ban Sanwar K Samnay Aya Na Kigeay
 
 Na Chero Hamain Ham Satay Huey Hain
 Bohat Zakham Seeny Py Khay Huey Hain
 Sitam Gar Ho tum Khoob Pehchanty Hain
 Tumhari Adaon Ko Ham Janty Hain
 Daghabaaz Ho Tum Sitam Dhane Waly
 Fareeb-e-Muhabbat main Uljane Waly
 Yeh Rangeen Kahani Tumhe ko Mubarak
 Tumhari Jawani Tumhe Ko Mubarak
 Hamari taraf sy nigahain hata lo
 Hamain Zinda Rehny Do Ay Husn Walo
 
 Mast Nigahon Ki baat chalti hai
 Meh-kashi karwatain badalti hai
 Ban sanwar kar wo jab nikalty hain
 Dil kashi sath sath chalti hai
 haar jate hain jeetney waly
 wo nazar aisi chaal chalti hai
 jab hatate hain rukh se zulfon ko
 chand hansta hai raat dhalti hai
 wada kash jaam tor dety hain
 jab nazar se sharaab dhalti hai
 Kya qayamat hai un ki angrae
 kich k goya kamaan chalti hai
 youn haseeno ki zulf lehray
 jesy nagan koi machalti hai
 
 Sambhalo zara apna anchal ghulabi
 Dikhao na hans hans k ankhen sharabi
 Sulook in ka dunya main acha nahi hai
 haseeno pay ham ko bharosa nahi hai
 Uthate hain nazrain to girte hai bijli
 Ada jo b nikle qayamat he nikli
 jahan tum ny chehry se anchal hataya
 waheen ahl-e-dil ko tamasha banaya
 khuda k liye ham pe dory na dalo
 
 Hamain zinda rehny do ay husan waloo
 
 Sada waar karty ho tegh-e-jawan ka
 Bahaty ho khoon tum ahl-e-wafa ka
 Yeh nagan c zulfain yeh zehreli nazrain
 Wo pani na mangy yeh jis ko bhi das lain
 Wo lut jaye jo tum sy dil ko laga le
 Phiry hasraton ka janaaza uthay
 Hai maloom hum ko tumhari haqeeqat
 Muhabbat k pardy main karty ho nafrat
 Kaheen aur ja k Adaeen uchalo
 
 Hamain Zinda rehny do Ay husan Walooo.
 
  In Urdu  
 کالی کالی زلفوں کے پھندے نہ ڈالو
 ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو
 
 آپ اس طرح تو ہوش اڑایا نہ کیجیے
 یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے
 
 نہ چھیڑو ہمیں ہم ستاۓ ہوۓ ہیں
 بہت زخم سینے پہ کھائے ہوئے ہیں
 ستم گر ہو تم خوب پہچانتے ہیں
 تمہاری اداوں کو ہم جانتے ہیں
 
 دغا باز ہو تم ستم ڈھانے والے
 فریب محبت میں الجھانے والے
 یہ رنگین کہانی تمھی کو مبارک
 تمہاری جوانی تمھی کو مبارک
 ہماری طرف سے نگاہیں ہٹا لو
 
 ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو
 
 مست نگاہوں کی بات چلتی ہے
 مہکشی کروٹیں بدلتی ہے
 بن سنور کر وہ جب نکلتے ہیں
 دلکشی ساتھ ساتھ چلتی ہے
 ہار جاتے ہیں جیتنے والے
 وہ نظر کیسی چال چلتی ہے
 جب ہٹاتے ہیں رخ سے زولفوں کو
 چاند ہنستا ہے رات ڈھلتی ہے
 بڑا کاش جام توڑ دیتے ہیں
 جب نظر سے شراب بدلتی ہے
 کیا قیامت ہے ان کی انگڑائی
 کھینچ کے گویا کمان چلتی ہے
 یو حسینوں کی زولف لہرائے
 جیسے ناگن کوئ مچلتی ہے
 
 سنبھالو ذرا اپنا آنچل گلابی
 دیکھاو نہ ہنس ہنس کے آنکھیں شرابی
 سلوک ان کا دنیا میں اچھا نہیں ہے
 حسینوں پہ ہم کو بھروسہ نہیں ہے
 اٹھاتے ہیں نظریں تو گرتی ہے بجلی
 ادا جو بھی نکلی قیامت ہی نکلی
 جہاں تم نے چہرے سے آنچل ہٹایا
 وہی اہل دل کو تماشہ بنایا
 خدا کے لیے ہم پر ڈورے نہ ڈالو
 
 ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو
 
 صدا وار کرتے ہو تیغی جوان کا
 بہاتے ہو تم خون اہل وفا کا
 یہ ناگن سی زلفیں یہ ذہریلی نظریں
 وہ پانی نہ مانگے یہ جس کو بھی کاٹ لیں
 وہ لٹ جائے جو تم سے دل کو لگا لیں
 پھرے حسرتوں کا جنازہ اٹھائے
 ہے معلوم ہم کو تمھاری حقیقت
 محبت کے پردے میں کرتے ہو نفرت
 کہیں اور جا کے ادایئں اچھالو
 
 ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






