Add Poetry

Poetries by kashif imran

پاک سر زمین اے پاک سر زمین پاک سر زمین اے پاک سر زمین پاک سر زمین اے پاک سر زمین
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
جان تجھ پہ اپنی ہم قربان کریں گے
دنیا میں اونچی تری ہم شان کریں گے
ترے لئے ہی کام ہم ہر آن کریں گے
ترے لئے نذر یہ دل وجان کریں گے
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
ترے سوا تواپنی کوئی پہچان نہیں ہے
ہر آن نہیں ہے، ہر آن نہیں ہے
دنیامیں تجھ سے کوئی انجان نہیں ہے
ہر آن نہیں ہے، ہر آن نہیں ہے
ترے جیسی کسی کی یہاں شان نہیں ہے
ہر آن نہیں ہے، ہر آن نہیں ہے
مانتا ہوں کہ اس کا کوئی ایمان نہیں ہے
ہر آن نہیں ہے، ہر آن نہیں ہے
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
جہاں میں ساری دنیا ترے سنگ رہے
امن رہے یا جنگ رہے،امن رہے یا جنگ رہے
جیون بھر صرف تری ہی امنگ رہے
امن رہے یا جنگ رہے،امن رہے یا جنگ رہے
ہر اک ساز میں اور ہر اک نغمے میں
تری ہی صرف ہر جاء ترنگ رہے
امن رہے یا جنگ رہے،امن رہے یا جنگ رہے
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
جاں دے کر بھی ترا ہم خیال رکھیں گے
ہر حال رکھیں گے، ہر حال رکھیں گے
جہاں میں وقار ترا ہم بحال رکھیں گے
ہر حال رکھیں گے، ہر حال رکھیں گے
ساری دنیا میں مچ جائے گی دھوم تری
ایسا ہم ترا اے وطن جمال رکھیں گے
ہر حال رکھیں گے، ہر حال رکھیں گے
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
اے وطن اپنا سب کچھ تجھی پہ لٹا ئیں گے
وعدہ یہ نبھائیں گے، وعدہ یہ نبھائیں گے
تری ہی خاطر سر اپنا ہم کٹائیں گے
وعدہ یہ نبھائیں گے، وعدہ یہ نبھائیں گے
جو بھی ہوا دشمن خون اس کا بہائیں گے
وعدہ یہ نبھائیں گے، وعدہ یہ نبھائیں گے
یاد رکھے گی دنیا جوہر ایسے ہم دکھائیں گے
وعدہ یہ نبھائیں گے، وعدہ یہ نبھائیں گے
خونِ جگر سے اپنے گلشن ترا کھلائیں گے
وعدہ یہ نبھائیں گے، وعدہ یہ نبھائیں گے
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
پاک سر زمین اے پاک سر زمین
Kashif imran
اُلفت کی نظر سے ہمیں اک بار تو دیکھو اُلفت کی نظر سے ہمیں اک بار تو دیکھو
کرتے ہیں کیا کیا تُم پے نثار تو دیکھو
جذبے گر ہوں سچے اور دل میں لگن ہو
گِر جاتی ہے رستے کی ہر اک دیوار تو دیکھو
کروں کیسے اُس سے میں اپنے دل کی بات
کیا ہے میری اوقات، ذرا مرے سرکار تو دیکھو
دیتی ہے زخم ایسے، جس کا مرہم بھی نہیں کوئی
شمشیرسے بھی ہوتی ہے زبان تیز دھار تو دیکھو
بات جو بھی کرو جس بھی کرو پوری کرو
ٹوٹ جائے جو اک بار تو پھر ہوتا نہیں اعتبار تو دیکھو
زندگی ہو جائے گی آساں اور کبھی محتاج نہ ہوگے
چادر دیکھ کے گر پھیلاؤ گے پاؤں ہر بار تو دیکھو
ساتھ دے گا خود خدا بھی آپ کا ہر جگہ
ڈٹ جاؤ، جب بھی دو حق کی للکار تو دیکھو
بھاگے گا یہ باطل، چھٹ جائے گا یہ اندھیرا
ساتھ حق کا تم دے کر اک بار تو دیکھو
قبول ہوجائے گی زندگی کی تری ہر ایک دُعا
دل سے اپنے رب کو ہر وقت پکار تو دیکھو
چل ذرا سنبھل کے اور اُٹھا دیکھ کے اپنا ہر قدم
راہیں زندگی کی ہوتی نہیں ہموار تو دیکھو
ہارو نہ کبھی ہمت اور حوصلہ کبھی نہ چھوڑو
میداں میں تو گرتے ہیں شہسوار تو دیکھو
بھُول جاؤ گے دُنیا کے سب حسیں نظاروں کو
سبز گنبد کے ذرا جا کے تُم انوار تو دیکھو
خلقِ خدا کی خدمت سے ہی راحت ہے
خزاں میں بھی ہوجائے گی پھولوں کی مہکار تو دیکھو
کتنے خوش بخت ہیں وہ اور رشک کے قابل
کرتے ہیں جو ہر روز، ترا دیدار تو دیکھو
دل سے کھیلو گے گر یہ کھیل، تو کھیلو
عشق میں جیت ہوتی ہے نہ ہار تو دیکھو
پھول ہی پھول کھل جائیں گے تری راہوں میں
اووروں کے راستوں کے ہٹا کے تم خار تو دیکھو
گدا تو گدا ہیں جھکتے ہیں شاہ بھی وہاں پر
ایسا بھی ہے جہاں میں اک دربار تو دیکھو
کیسے ملیں گی منزلیں نہ جانے کب ملیں
قافلے کا اپنے ذرا تُم سردار تو دیکھو
رُخِ یار نظر آتے ہی آ جاتی ہی چہرے پہ رونق
عشق کا ایسا ہی ہے یارو یہ بیمار تو دیکھو
نفرت نہ کرو کسی سے، محبت کو عام کرو
بن جائے گی پھر یہ زندگی گلزار تو دیکھو
خوشی کو تو بھول جاتے ہیں جو ملتی ہے زندگی میں
غم کو ہی کر لیتے ہیں سر پہ سوار تو دیکھو
اپنے تو اپنے ہیں غیروں نے بھی جسے مانا ہے
ایسے ہیں مرے آقاﷺ، ہر اک کے غم خوار تو دیکھو
شکوہ اپنے رب کا کرتے ہو کہ نہیں سنتا دعائیں
اپنا گریباں جھانکو اور ذرا اپنے اطوار تو دیکھو
لقمے کو ترس رہا ہے، کوئی فاقے سے مر رہا ہے
کہیں پہ لگے ہیں مگر دولت کے انبار تو دیکھو
امید کی کرن ہو اور جو دل کو حوصلہ دے
ایسا کوئی کاشف زندگی میں اب آثار تو دیکھو
 
کاشف عمران
میرا بھی ان کو سلام کہنا نبیﷺ کے در پہ جانے والے
سر کو اپنے وہاں جھکانے والے
بیٹھ کر سبز گنبد کی چھاؤں میں
داستاں اپنی سنانے والے
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
در، در ہم تو پھر رہے ہیں
اپنی ہی نظروں سے گر رہے ہیں
راہ اپنی کھوئی ہوئی ہے
قسمت اپنی سوئی ہوئی ہے
راہ اپنی پانے والے
قسمت اپنی جگانے والے
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
کیا کہوں میں، کیا کر رہا ہوں
روز جی، جی کے مر رہا ہوں
مانا کہ مجھ میں ہر کمی ہے
پھر بھی آقاﷺ پہ نظر جمی ہے
حالِ دل وہاں سنانے والے
نظر اپنی وہاں جھکانے والے
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
زندگی گناہوں سے بھر پور ہے
منزل میری اب بہت دور ہے
مراد اپنی کوئی، بر آتی نہیں ہے
راہ اب کوئی نظر آتی نہیں ہے
مراد اپنی پانے والے
کلی دل کی کھلانے والے
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
خطا پر خطا کئے جا رہا ہوں
بے عمل زندگی جئے جا رہا ہوں
گناہوں نے دل کو سیاہ کر دیا ہے
نہ جانے کیاسے کیا کر دیا ہے
خطاؤں کو اپنی مٹانے والے
زندگی اپنی بنانے والے
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
آقاﷺ کاامتی ہوں، وہی بھرم رکھیں گے
وہی میری سنیں گے، وہی کرم کریں گے
عشقِ مصطفی کی شمع دل میں اگر جل جائے گی
بُری ہر تقدیر زندگی کی کاشف، پھر تو ٹل جائے گی
محبت اُن کی دل میں بسانے والے
تقدیر اپنی خود بنانے والے
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
میرا بھی اُن سے سلام کہنا
 
Kashif Imran
Famous Poets
View More Poets