Poetries by Muhammad Khalid Saleem
میں کیسے چلے آؤں اُس کے وعدوں کے سہارے میں کیسے چلے آؤں اُس کے وعدوں کے سہارے
مجھے کچھ عزتوں کو اپنے دامن میں ہے سنبھال رکھنا
یہاں وفاؤں کی قدر نہیں، تاجر ہے دنیا
میری اِس بات کو پلو میں اپنے ڈال رکھنا
اپنے آنچل کے گھیرے میں سمیٹ لو مجھ کو
میری اِس تمنا کو مان کر میرا جمال رکھنا
زندگی کی گہری شام میں، دکھ کے عالم میں بھی
ساتھ بِتائے ہوئے خوشی کے پل بحال رکھنا
بیچ راستے میں جب تمہیں لوٹ جانا ہو خالِد
اُس لمحے تم دِل کے توڑ ڈالنے کا خیال رکھنا Muhammad Khalid Saleem
مجھے کچھ عزتوں کو اپنے دامن میں ہے سنبھال رکھنا
یہاں وفاؤں کی قدر نہیں، تاجر ہے دنیا
میری اِس بات کو پلو میں اپنے ڈال رکھنا
اپنے آنچل کے گھیرے میں سمیٹ لو مجھ کو
میری اِس تمنا کو مان کر میرا جمال رکھنا
زندگی کی گہری شام میں، دکھ کے عالم میں بھی
ساتھ بِتائے ہوئے خوشی کے پل بحال رکھنا
بیچ راستے میں جب تمہیں لوٹ جانا ہو خالِد
اُس لمحے تم دِل کے توڑ ڈالنے کا خیال رکھنا Muhammad Khalid Saleem
حقیقتِ محبت کچھ یوں بیاں ہوتی ہے اِک روز جب میں اُس سے گویا ہوا
تھا کہیں کسی سوچ میں وہ کھویا ہوا
کہا میں نے کہاں گُم تھے
جواب سارے ہی اُس کے مبہم تھے
پھر وہ کسی رو بہنے لگا
خود ہی مجھ سے کہنے لگا
مجھ کو تو شاید محبت ہو گئی ہے
کہا میں نے عقل تیری لگتا ہے کھو گئی ہے
بھلا یہ بھی کرنے کا کوئی کام ہے
یوں کہہ لو کہ یہ تو بہت ہی بدنام ہے
دیکھا ہے میں نے وعدوں کے بنتے بھی
پھر دیکھا ہے زبانوں سے بدلتے بھی
محبت کی زنجیروں کو بھی دیکھا ہے
اُلٹتی ہوئی تدبیروں کو بھی دیکھا ہے
لگا کہنے یہ تو بس تیرا خیال ہے
میری تو محبت ہی لازوال ہے
محبت تو وہ ہے جو دِلوں کو محصور کر دے
حالات کو بھی حق میں اپنے مجبور کر دے
کہا میں نے خود فریبی تو دھوکہ ہے
لگا کہنے مجھے خود پہ بھروسہ ہے Muhammad Khalid Saleem
تھا کہیں کسی سوچ میں وہ کھویا ہوا
کہا میں نے کہاں گُم تھے
جواب سارے ہی اُس کے مبہم تھے
پھر وہ کسی رو بہنے لگا
خود ہی مجھ سے کہنے لگا
مجھ کو تو شاید محبت ہو گئی ہے
کہا میں نے عقل تیری لگتا ہے کھو گئی ہے
بھلا یہ بھی کرنے کا کوئی کام ہے
یوں کہہ لو کہ یہ تو بہت ہی بدنام ہے
دیکھا ہے میں نے وعدوں کے بنتے بھی
پھر دیکھا ہے زبانوں سے بدلتے بھی
محبت کی زنجیروں کو بھی دیکھا ہے
اُلٹتی ہوئی تدبیروں کو بھی دیکھا ہے
لگا کہنے یہ تو بس تیرا خیال ہے
میری تو محبت ہی لازوال ہے
محبت تو وہ ہے جو دِلوں کو محصور کر دے
حالات کو بھی حق میں اپنے مجبور کر دے
کہا میں نے خود فریبی تو دھوکہ ہے
لگا کہنے مجھے خود پہ بھروسہ ہے Muhammad Khalid Saleem
اے سید علی گیلانی قائدِ کشمیر ہے تو اے سید علی گیلانی قائدِ کشمیر ہے تو
نحیف و ناتواں سہی مگر ناقابلِ تسخیر ہے تو
تیرے نام سے لرز اُٹھتے ہیں ہندوؤں کے در و بام
عالمِ اسلام کی نیام میں ایسی شمشیر ہے تو
تجھ سا نہ کوئی باقی اب عالمِ یاراں میں ہے
گرَ میں سچ کہوں تو اے سید علی گیلانی بےنظیر ہے تو
ہندوؤں کے حلقوم میں پھانس کی طرح چبھتا ہے جو
اے مردِ آہن و مصمم وہی تیر ہے تو
ہزاربا پابندِ سلاسل رکھا جنہوں نے
انہی کے پاؤں میں اٹکی ہوئی زنجیر ہے تو
یہ تو فقط چند الفاظ ہیں تعریف میں اُنکی خالد
ورنہ تو اک جامع اور مکمل تقریر ہے تو Muhammad Khalid Saleem
نحیف و ناتواں سہی مگر ناقابلِ تسخیر ہے تو
تیرے نام سے لرز اُٹھتے ہیں ہندوؤں کے در و بام
عالمِ اسلام کی نیام میں ایسی شمشیر ہے تو
تجھ سا نہ کوئی باقی اب عالمِ یاراں میں ہے
گرَ میں سچ کہوں تو اے سید علی گیلانی بےنظیر ہے تو
ہندوؤں کے حلقوم میں پھانس کی طرح چبھتا ہے جو
اے مردِ آہن و مصمم وہی تیر ہے تو
ہزاربا پابندِ سلاسل رکھا جنہوں نے
انہی کے پاؤں میں اٹکی ہوئی زنجیر ہے تو
یہ تو فقط چند الفاظ ہیں تعریف میں اُنکی خالد
ورنہ تو اک جامع اور مکمل تقریر ہے تو Muhammad Khalid Saleem
الہٰی کیوں آتی ہیں ہم پہ آفاتِ ناگہانی الہٰی کیوں آتی ہیں ہم پہ آفاتِ ناگہانی
کیوں روٹھ گئی ہم سے صبحِ ارغوانی
ہمارے جرائم و لغزشوں کی اے خدا
کیا یہ سزا تھی تو نے سنانی
جِن خطوں میں چار سُو تھی پانی کی قلت
اب کیوں وہیں کے دریاؤں میں ہے طغیانی
اے خُدا ہماری غفلتوں سے درگزر کر
ٹال دے ہم پر سے یہ رات طوفانی
مانا کہ تیری بارگاہ میں برا ٹھہرا خالد
لوٹا دے پھر بھی ہمیں ہر شام سہانی Muhammad Khalid Saleem
کیوں روٹھ گئی ہم سے صبحِ ارغوانی
ہمارے جرائم و لغزشوں کی اے خدا
کیا یہ سزا تھی تو نے سنانی
جِن خطوں میں چار سُو تھی پانی کی قلت
اب کیوں وہیں کے دریاؤں میں ہے طغیانی
اے خُدا ہماری غفلتوں سے درگزر کر
ٹال دے ہم پر سے یہ رات طوفانی
مانا کہ تیری بارگاہ میں برا ٹھہرا خالد
لوٹا دے پھر بھی ہمیں ہر شام سہانی Muhammad Khalid Saleem
ماں ابھی دور مجھ سے جانا نہیں ماں ابھی دور مجھ سے جانا نہیں
فقط تیری ہی ذات سے میں بیگانہ نہیں
دیکھا تھا میری یاد میں جو خواب
تم ہی کہو کیا اب وہ سہانا نہیں
تیری ہی آغوش میری پناہ گاہ ٹھہری
دوسرا کوئی میرا اس جہاں میں ٹھکانہ نہیں
کریدا تھا جو میرے سر پہ سجانے کو
ماں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔کیا اب وہ سہرا سجا نا نہیں؟
ماں میں تیری آغوش میں سونا چاہتا ہوں
مگر میرے پاس اب کوئی بہانہ نہیں
جی چاہتا ہے اپنی جنت کا بوسہ لے لوں خالد
جس گھر میں ماں ہو اس سے بہتر کوئی گھرانہ نہیں Muhammad Khalid Saleem
فقط تیری ہی ذات سے میں بیگانہ نہیں
دیکھا تھا میری یاد میں جو خواب
تم ہی کہو کیا اب وہ سہانا نہیں
تیری ہی آغوش میری پناہ گاہ ٹھہری
دوسرا کوئی میرا اس جہاں میں ٹھکانہ نہیں
کریدا تھا جو میرے سر پہ سجانے کو
ماں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔کیا اب وہ سہرا سجا نا نہیں؟
ماں میں تیری آغوش میں سونا چاہتا ہوں
مگر میرے پاس اب کوئی بہانہ نہیں
جی چاہتا ہے اپنی جنت کا بوسہ لے لوں خالد
جس گھر میں ماں ہو اس سے بہتر کوئی گھرانہ نہیں Muhammad Khalid Saleem