Labo Par Uske Kabhi Baddua Nahi Hoti
Poet: Munawwar Rana By: yaseen, khiLabo Par Uske Kabhi Baddua Nahi Hoti
Bas Ek Maa Hai Jo Kabhi Khafa Nahi Hoti
Iss Tarah Mere Gunaahon Ko Wo Dho Deti Hai
Maa Bahut Gusse Mein Hoti Hai To Ro Deti Hai
Maine Rote Hue Ponche The Kisi Din Aansoo
Muddaton Maa Ne Nahi Dhoya Dupatta Apna
Abhi Zinda Hai Maa Meri Mujhe Kuch Bhi Nahi Hoga
Main Jab Ghar Se Nikalta Hoon Dua Bhi Saath Chalti Hai
Jab Bhi Kashti Meri Sailaab Mein Aa Jaati Hai
Maa Dua Karti Hui Khwaab Mein Aa Jaati Hai
Aye Andhere Dekh Le Muh Tera Kaala Ho Gaya
Maa Ne Aankhein Khol Di Ghar Mein Ujaala Ho Gaya
Meri Khwaahish Hai Ki Main Phir Se Farishta Ho Jaun
Maa Se Is Tarah Liptun Ki Bachcha Ho Jaun
Maa Ke Aage Yun Kabhi Khulkar Nahi Rona
Jahan Buniyaad Ho Itni Nami Achhi Nahi Hoti
Lipat Jaata Hoon Maa Se Aur Mausi Muskurati Hai
Main Udru Mein Ghazal Kehta Hoon Hindi Muskrati Hai
اے عشق ابھی تک تیرے جنجال میں ھم ھیں
ھنستے ھوئے چہرے نے بھرم رکھا ھمارا
وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ھم ھیں
اب آپ کی مرضی ھے سنبھالیں نہ سنبھالیں
خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ھم ھیں
میں پھوٹ کہ رونے لگا جب موت کے ڈر سے
نیکی نے کہا نامۂ اعمال میں ھم ھیں
اک خواب کی صورت ہی سہی، یاد ہے اب تک
ماں کہتی تھی لے اوڑھ لے اس شال میں ہم ہیں
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید
اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی
گھروندے تو گھروندے ہیں چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اڑانے کے لیے آندھی اگر نام و نشاں آئی
کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
ادھر پہنچی ادھر پہنچی یہاں آئی وہاں آئی
میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے
اچھلتے کھیلتے بچپن میں بیٹا ڈھونڈتی ہوگی
تبھی تو دیکھ کر پوتے کو دادی مسکراتی ہے
تبھی جا کر کہیں ماں باپ کو کچھ چین پڑتا ہے
کہ جب سسرال سے گھر آ کے بیٹی مسکراتی ہے
چمن میں صبح کا منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے
کلی جب سو کے اٹھتی ہے تو تتلی مسکراتی ہے
ہمیں اے زندگی تجھ پر ہمیشہ رشک آتا ہے
مسائل سے گھری رہتی ہے پھر بھی مسکراتی ہے
بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا
کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دہلی مسکراتی ہے
کسی بھی سینے کو کھولو تو غم نکلتے ہیں
ہمارے جسم کے اندر کی جھیل سوکھ گئی
اسی لیے تو اب آنسو بھی کم نکلتے ہیں
یہ کربلا کی زمیں ہے اسے سلام کرو
یہاں زمین سے پتھر بھی نم نکلتے ہیں
یہی ہے ضد تو ہتھیلی پہ اپنی جان لیے
امیر شہر سے کہہ دو کہ ہم نکلتے ہیں
کہاں ہر ایک کو ملتے ہیں چاہنے والے
نصیب والوں کے گیسو میں خم نکلتے ہیں
جہاں سے ہم کو گزرنے میں شرم آتی ہے
اسی گلی سے کئی محترم نکلتے ہیں
تمہی بتاؤ کہ میں کھلکھلا کے کیسے ہنسوں
کہ روز خانۂ دل سے علم نکلتے ہیں
تمہارے عہد حکومت کا سانحہ یہ ہے
کہ اب تو لوگ گھروں سے بھی کم نکلتے ہیں
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید
اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی
گھروندے تو گھروندے ہیں چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اڑانے کے لیے آندھی اگر نام و نشاں آئی
کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
ادھر پہنچی ادھر پہنچی یہاں آئی وہاں آئی






