✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
maqsood hasni
Search
Add Poetry
Poetries by maqsood hasni
میری خوابیدہ امیدوں کو جگایا کیوں تھا
میری خوابیدہ امیدوں کو جگایا کیوں تھا
دل جلانا تھا تو پھر دل لگایا کیوں تھا
مجھے گرانا تھا اپنی نظروں سے اس طرح
تو میرے عشق کو سینے سے لگایا کیوں تھا
عمر بھر پاس نہ آنے کا ارادہ تھا اگر
پھر مجھے اپنے عشق میں دیوانہ بنایا کیوں تھا
یاس کی نیند سلانا تھا اگر مجھ کو
میری امید کی راتوں کو جگایا کیوں تھا
ولولہ اپنی محبت کا اگر تم نے گھٹانا تھا
حوصلہ میری امید کا تم نے بڑھایاکیوں تھا
لب پر مہر سکوت اگر لگانی تھی اس طرح
مجھے نغمہء امید تم نے سنایا کیوں تھا
بادہءعشق میں تلخی ہی سہی زاہد
پہلے اس جام کو ہونٹوں سے لگایا کیوں تھا
maqsood hasni
Copy
مغرب جب سے ہمارا خدا ہوا ہے
مغرب جب سے ہمارا خدا ہوا ہے
دشمنوں میں ہر چند اضافہ ہوا ہے
ہر کوئی حصول زر میں لگا ہوا ہے
دوست بھی دشمن کا ہم نوا ہوا ہے
عیش و طرب کی خاطر آج ابن آدم
قرض کے جہنم کا ایندھن بنا ہوا ہے
مرے دور کے بےحس انسانوں نے
خودی بیچ دینے کا عہد کیا ہوا ہے
ظالم عزت و توقیر کا مستحق ٹھہرا ہے
مظلوم پا بہ زنجیر رکھا ہوا ہے
کون بولے اس بےحجاب حمام میں
ہر کسی کے منہ میں زیرہ بھرا ہوا ہے
بوری کے اندر کیا ہے کوئی کیا جانے
بوری کا منہ ٹھیک سے سلا ہوا ہے
mqsood hasni
Copy
یقینی سی بات ہے
یقینی سی بات ہے
تمہیں کیوں یقین نہیں آتا
کربلا کی بازگشت
پہاڑوں میں کھو گئی ہے
سہاگنوں نے
سیاہ لباس پہن لیا ہے
ان کے مردوں کے لہو میں
یزید کی عطاؤں کا قرض
اتر چکا ہے
ہاں مگر جب
پہاڑوں کو زبان مل جائے گی
یقینی سی بات ہے
بازگشت کے ہم زبان
مجبور زندگی کو
آزادی کو
لب سڑک دیکھ سکیں گے
ماہ نامہ سوشل ورکر لاہور' مارح۔اپریل 1992
maqsood hasni
Copy
اپیل
نفرت کی توپوں کے دہانوں پر
دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو
ان کی آنکھوں کی معصومیت
معصومیت کی آغوش میں پلتے خواب
خواب صبح کی تعبیر ہوتا ہے
خواب مر گیے تو
آتا کل مر جائے گا
اور یہ بھی کہ
ممتا قتل ہو جائے گی
خوب جان لو'
نفرت کے تو
پہاڑ بھی متحمل نہیں ہوتے
کل کیوں کر ہو گا
میں تم سے پھر کہتا ہوں
نفرت کی توپوں کے دہانوں پر
دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو
ماہ نامہ سوشل ورکر لاہور' جنوری-فروری 1992
maqsood hasni
Copy
ایک شعر
تم لیے پھرتے ہو دستار فضیلت
رہتے ہیں لوگ یہاں سر بریدہ
maqsood hasni
Copy
کلام امیر
اس کی نگاہ التفات سے
پگھل پتھر گیے انا کے
بولا تو قبائے احساس جل گئی
۔.................
میں نے رسوا کیا ہے تم کو!
میں تو چپ کے حصار میں ہوں
یہ شرارت آنکھوں کی ہے
.................
اسیری زلف آفت جان سہی
مےکدے سے آئی صدا
دین دیتا نہیں اس سے نجات
.................
درد کے سمندر میں
تلاش لیتے ہیں لوگ
تنکے نجات کے
.................
کشکول گدائی تھامنے سے پہلے
وہ زندگی کی باہوں میں تھا
اب چلتا پھرتا ویرانہ ہے
1-6-1995
ماہنامہ تجدید نو لاہور
جولائی 1995
لوگ تعوذ کہتے ہیں اسے دیکھ کر
سکے چلتے نہیں بخل کے
حسن کے بازار میں
.............
ترک الفت میں بھی اک سلیقہ تھا
دوڑے آئے غیر بھی
ان کی ہر صدا پر
.............
نظر ملنے کے لمحے چھپا رکھے ہیں
احساس کی بوتل میں
سزا کے لیے تو گواہی چایے
............
احساس حسن ہوتا گلاب کو
یوں وہ بےحرمت نہ ہوتا
امیر شہر کےقدموں میں
..............
صدائیں اب کون سنے گا
ترے حسن کے خمیر کی ریا نے
ڈس لیا ہے اہل وفا کو
............
دل کے پار دیوار سی بنی ہے
یہ پتھر تو وہی ہیں
آئے تھے جو محبت کے جواب میں
...........
قیس کا دعوی عشق
اہل نظر کیوں مان لیں
عشق میں اس کے کب اعتدال تھا
.........
ذرا وحشت دل تو دیکھو
جب جس نے بہلایا
ساتھ ہو لیا
............
کھو کر جوانی کے خدوخال میں
بھولا نہیں میں
باپ کی آنکھ میں لکھے خط کو
..........
تم تو مجرم وفا ہو
سمندر کی تہوں میں بھی
کھوج لیں گے تم کو کھوجنے والے
27-9-1995
maqsood hasni
Copy
پہولا پنچھی
جوانی دیوانی تے مستانی
سیانے آکھ گیے نے
عمر دے ایس موسم اندر
دھیدا کجھ نئیں
ناسمجھی دے چہکڑ
ہوشاں کھس لیندے نے
لاڈاں وچ پلدی
باپو دی پگ میلی کرکے
ماں دی نک گت وڈ کے
چہوٹھے بولاں دی
سولی چڑھ جاندی اے
فر وی کملے ماپے
اوہنوں پہولا پنچھی آکھن
ہنجواں نال دھو کےاکھاں
اڈیکاں دے بوہے جا بہندے نے
maqsood hasni
Copy
سچ کے آنگن میں
جب بھوک کا استر
حرص کی بستی میں جا بستا ہے
اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے
چھاج کی تو بات بڑی
چھلنی پنچ بن جاتی ہے
بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے
کوے کے سر پر
سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے
دہقان بو کر گندم
فصل جو کی کاٹتے ہیں
صبح کا اترن لے کر
کالی راتیں
سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں
maqsood hasni
Copy
ولیم بلیک کی دو نظمیں
ولیم بلیک کی دو نظمیں
مترجم: مقصود حسنی
چھوٹا بچہ کھو گیا
ابو مرے ابو تم کہاں ہو
تیز نہ اتنا چلو کہ میں کھو جاؤں
ابو بولو‘ اپنے چھوٹے بچے سے بولو
رات تاریک تھی‘ باپ واں کب تھا
بچہ شبنمم میں بھیگ گیا
کہرا گہرا ہو گیا
بچہ رو پڑا
اور بخارات اڑ گیے
مکھی
چھوٹی مکھی !
کھیل ترا گرمیوں کا
سوچ سے بعید ہات
برش ہو چکے ہیں
میں نہیں مگر تم جیسا
نہ تم سا فن
آدمی اک مجھ سا
شراب‘ گیت اور رقص مرے لیے
تب تلک کچھ اندھے ہات
ہات مرے برش کر دیں گے
فکر زندہ رہی تو
طاقت‘ سانس اور چاہت
گر فکر مر گئی تو
زندہ رہوں کہ مر جاؤں
بس اک خوش مکھی سا
فروری ١١‘ ١٩٧٦
maqsood hasni
Copy
کیہ دساں
شراب اکھاں وچ ست رنگ بہاراں دے
دودھ توں ودھ چٹا چانن مکھڑے دا
مست ذلفاں نوں‘ واہواں دین ہلارے
گلاب گلاں دا منہ چمن
کواری تریل دے تبکے
سدراں دے سینے وچ ٹنگے
لکھ سورج مکھیے
بلاں تے چھوڈے وچ رنگے
کلیاں توں نکھرے
پیار دے بول
ایہہ سبھ
گریبی دے ہڑ وچ روڑھیا
اوہ ہتھ وی ویکھے
جہڑے مہندی دی اڈیکاں کر دے
خزاواں دے ساوے پتر ہوئے
چالی ورہے کیہ کجھ ویکھا
کیہ دساں
ہن تاں‘ اتے تھلے ویکھن توں
دل کبھراند تے روح کنبھ دی اے
maqsood hasni
Copy
حیات کے برزخ میں
تلاش معنویت کے سب لمحے
صدیاں ڈکار گئیں
جھتڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر
اس کنارے کو چھو نہ سکا
تاسف کے دو آنسو
کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے
کیا ہو پاتا کہ شب کشف
دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی
صبح دھیان
نان نارسا کی نذر ہوئی
شاعر کا کہا
بےحواسی کا ہم نوا ہوا
دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا
وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں
قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں
گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا
ضمیر بھی چاندی میں تل گیا
مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی
مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا
درویش کے حواس بیدار نقطے
ترقی کا ڈرم نگل گیا
نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا
آخر کب تک یتیم جیون
حیات کے برزخ میں
شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
maqsood hasni
Copy
ہر گھر سے
دن کے اجالوں میں
خداہائے کفر ساز و کفر نواز
پیتے ہیں سچ کا لہو
کہ وہ اجالوں کی بستی میں
زندہ رہیں
شرق سے اب تمہیں
کوئی شب بیدار کرنا ہو گی
کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے
تمہیں بھی تو
اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں
یا پھر
آتی نسلوں کے لیے ہی سہی
دن کے اجالوں میں
روح حیدر رکھنا ہوگی
سسی فس کا جیون
جیون نہیں
سقراط کی مرتیو
مرتیو نہیں
جینا ہے تو
حسین کا جیون جیو
کہ جب ارتھی اٹھے
خون کے آنسووں میں
راکھ اڑے
خون کے آنسووں میں
شاعر کا قلم
روشنی بکھیرے گا
زندگی‘ آکاش کی محتاج نہ رہے گی
ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج
طلوع ہو گا
غروب کی ہر پگ پر
کہیں سقراط کہیں منصور
تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا
maqsood hasni
Copy
میں نے دیکھا
پانیوں پر
میں اشک لکھنے چلا تھا
دیدہءخوں دیکھ کر
ہر بوند
ہوا کے سفر بر نکل گئی
منصف کے پاس گیا
شاہ کی مجبوریوں میں
وہ جکڑا ہوا تھا
سوچا
پانیوں کی بےمروتی کا
فتوی ہی لے لیتا ہوں
ملاں شاہ کے دستر خوان پر
مدہوش پڑا ہوا تھا
دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے
سوچا
شاید یہاں داد رسی کا
کوئی سامان ہو جائے گا
وہ بچارہ تو
پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا
کیا کرتا کدھر کو جاتا
دل دروازہ کھلا
خدا جو میرے قریب تھا
بولا
کتنے عجیب ہو تم بھی
کیا میں کافی نہیں
جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو
میرے پاس آؤ
ادھر ادھر نہ جاؤ
میری آغوش میں
تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی
ہر بوند
رشک لعل فردوس بریں ہو گی
اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا
میں نے دیکھا
شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں
بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
maqsood hasni
Copy
قید حیات و بند غم
قید حیات و بند غم اصل میں‘ دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
استاد غالب
قید حیات و بند غم
اصل میں‘
دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے
آدمی
غم سے نجات پائے کیوں
جیل وچ ہواں یاں جیلوں باہر
گل اکو جئی اے
مراں گا تے ای
دکھوں جند چھٹ سی
maqsood hasni
Copy
ڈھانپا کفن نے‘ داغ عیوب برہنگی
ڈھانپا کفن نے‘ داغ عیوب برہنگی
میں‘ ورنہ ہر لباس میں‘ ننگ وجود تھا
استاد غالب
ڈھانپا کفن نے
داغ عیوب برہنگی
میں‘ ورنہ ہر لباس میں
ننگ وجود تھا
کپھن ٹہکیا میرے عیباں نوں
نئیں تاں میں
ہر بانے وچ
ننگ پڑنگا ساں
maqsood hasni
Copy
حیرت تو یہ ہے
موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ
مہتاب بادلوں میں جا چھپا
اندھیرا چھا گیا
پریت پرندہ
ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا
اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا
کوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا
کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا
بادل چھٹنے کو تھے کہ
افق لہو اگلنے لگا
دو بم ادھر دو ادھر گرے
پھر تو
ہر سو دھواں ہی دھواں تھا
چہرے جب دھول میں اٹے تو
ظلم کا اندھیر مچ گیا
پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا
کہنے لگا سنو سنو
دامن سب سمو لیتا ہے
اپنے دامن سے چہرے صاف کرو
شاید کہ تم میں سے کوئی
ابھی یتیم نہ ہوا ہو
یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے
من کے موسم دبوچ لیتا ہے
کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو
حیرت تو یہ ہے
موسم گل کا سب کو انتظار ہے
گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے
اوروں سے کہے جاتا ہے
چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
maqsood hasni
Copy
خلقت دا مقدر
لمبڑ تے مسیتڑ
پانی نوں
گنگا جل جئی
عزت بخشن لئی
بوکے تے بوکا
کڈی جاندے نے
پانی دے سب پیوک
ایہہ قیامت ویکھ تے وی
مٹی دےمادھو بن بیٹھے نے
آکھدے نہیں
کھوہ چوں پہلاں کتا تاں کڈو
پانی آپے گنگا جل ہو جاسی
کوئی کوکے‘ نئیں تاں
سرتے پھکداسورج
پیراں تھلے تخدا سوکا
خلقت دا مقدر ہوسی
maqsood hasni
Copy
بائیس اردو اشعار کا پنجابی ترجمہ
1
لحاظ مروت وچ
اسیس سر سٹیا
اے پر‘ چہوٹی سونہہ نے
تہاڈے پلے کیہ چھڈیا
داغ :خیال
2
سانہہ
سانہہ لئے آئے سن
سانہہ کھچ لئے چلیا اے
ایس آون جاون وچ
ساڈی مرضی کیتھے
3
محبتاں دے
قانون تقاضے ویکھو
ادھر بل ہلے
ایدھر لوتیاں نوں
سپ سنگیا
ساغر صدیقی :خیال
4
قیامت اکھاں
سداں توں دشمن سن
انج دا قہر
کد سی پہلاں
بہادر شاہ ظفر :خیال
5
ناصر راتیں ملیا سی
اوہو رونا
اوہو اوہندا مرض پرانا
ناصر کاظمی :خیال
6
تیرے مکھ دا تل
اک پہیلی سی
ہن سمجھیاں آں
توں حسن دے نانویں اتے
پھنیر دی ڈیوٹی لائ اے
7
پہلیا نئیں میں
محبتاں دے اوہ دیہاڑے
لوکیں ویکھ نہ سکے
دن راتیں وسدے
اکھاں دے بدل
حسرت موہانی :خیال
8
ویکھو
ہن کیہ پہا تلدی اے
گون خیر خواہی دے گاون
لکو کے بکل وچ کرپان
حسرت موہانی خیال
9
آ‘ با لے یاری
دس دیاں گے
کنج چوھدر کرنی
ساغر صدیقی خیال
10
بل نہ آکھ
اوہ تاں
گلاب دی نازک پتی نے
میر تقی میر خیال
11
پہلاں ای کجھ کر لو
ایس شیدائی دا
باہر رولا پیا اے
ٹھنڈی مٹھی رت دے آون دا
میر تقی میر خیال
12
واز نہ کڈو
ہولی‘ واز نہ کڈو
میر ہوریں
روندے روندے‘ ہونیں ستے نے
میر تقی میر خیال
13
ہنھیر ویکھو
دنیا وچ کیہ نئیں ہوندا
پر‘ توں ساڈا نہ بنیا
مومن خیال
14
حیاتی انج لنگی
پرچھاواں جیویں
دیہاڑ دے پچھلے ویلے
کند تے پہجا جاندا
حاتم خیال
15
حیاتی دے یب
بھلا دیندے نے
گوڑیاں سنگتاں وی
فیض خیال
16
اک سجن‘ کل راتیں
آودی تھوڑ بدلے
سانوں ویچ گیا
خاور خیال
17
حقیقتے‘ کیتھے ایں توں
سامنے آ‘ منہ ویکھا
تیری اڈیک چ نے
سجدے لکھ ہزاراں
اقبال خیال
18
مجنوں جنگل وچ کلا اے
مینوں جان دیو
سوہنی لنگ سی
جدوں ملسن دو اکو جیے
19
کسراں کنڈیاں تے
میں ڈیرا لاندا
مڈلا سرناواں میرا
پانیاں اتے
شکیب جیلالی خیال
20
جیوندے جی
اگے جان دا اہر ضروری
راہ وچ
چہٹ بہن کھلون لئی
کوئی تھاں ٹکانہ
سنن وچ نہیں آیا
آتش خیال
21
جہڑی کہنی سی وچکارے
اوہ نان ہوئ
ہور گلاں وچ
وچکار‘ ایجا پھسیا
داغ خیال
22
یہاں کوئی مجنوں کا کیا حال پوچھے
کہ ہر گھر میں صحرا کا نقشہ بنا ہے
رحمن بابا خیال
مجنوں دا کوئی
کیہ پچھے دسے
ایتھے ہر گھر
صحرا دی تصبیر
maqsood hasni
Copy
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
1
بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالب
ایہ دنیا
بالاں دا کھیڈ تماشا
ویکھی جاؤ
جو ہوندا دن راتیں
2
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
غالب
کیتھوں آوے دوجا
انہونی ویکھو
جہڑا شیشے چہاتی پاوے
اوتھے اوہو جیا
3
گو ہاتھ کو جنبش نہیں‘ آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی‘ ساغر و مینا مرے آگے
غالب
کیہ ہویا
ہتھاں وچ جرتا ناہیں
اکھاں وچ چانن ہیگا
اجے رہن دیو
اگوں نہ چکو
صراحی پیالہ
4
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوے
غالب
دل کر دا
اج فر ادھر چلیے
جیدھرلتراں دی ونڈ
پہن
آکڑ دے سپ دا ڈنگ
5
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں‘ خلوت ہی کیوں نہ ہو
غالب
اکلاپے وچ وی
کد کلا ہوندا
بندہ ایس دھرتی دا
غالب
6
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
غالب
عمراں دے دن
دو چار دیہاڑے
تیریاں زلفاں دے ول
لکھ ہزاراں
7
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوے
غالب
مدتاں ہویاں
تیری مہمانی نوں
ہن رج پی کے
تیرے آون جئے
دیوے بالدے آں
8
ہر اک بات پہ‘ کہتے ہو‘ تو کیا ہے
تم ہی کہو‘ یہ انداز گفتگو کیا ہے
غالب
آپے دس
بولن دا ایہ کیجا چالا
ہر گل تے کہنا ایں
توں کیہ ایں
9
ترے وعدے پر جیے ہم‘ تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے جو اعتبار ہوتا
غالب
تیرے وعدے
ساڈے جین دا سبب نئیں
خوشی نال مر جاندے
تیری جب دا
جے اعتبار ہوندا
10
اور لے آئےبازار سے گر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
غالب
ٹٹ گیا تے
ہور لئےآواں گے
ایہ جمشید دا پیالہ نئیں
چنگا اوہو
جہڑا بازاروں مل جاندا
11
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو مدعا کیا ہے
غالب
ساڈے منہ وچ وی جب آ
کدی تاں پچھو
کیہ چاہنا ایں
12
سو بار بند عشق سے آزاد ہوئےہم
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
غالب
سو واری
وٹ عشق دی ٹٹی
دل ویری
مڑ مڑ ایسے پاسے جاندا
13
آئینہ دیکھ‘ اپنا سا منہ لے رہ گیے
صاحب کو‘ دل نہ دینے پہ‘ کتنا غرور تھا
غالب
کہندا سی
اسیں دل نئیں دینا
شیشے بھرم سارا
چور چور کیتا
14
ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو‘ غالب
کہتے ہیں‘ اگلے زمانے میں کوئ میر بھی تھا
غالب
غالبا ریختہ دا
توں ایں گرو نئیں
سنیا اے
اگلے وقتاں وچ
کوئ میر وی ہندا سی
15
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئ ہمارا‘ دم تحریر بھی تھا
غالب
فرشتیاں دیاں لکھتاں اتے
پھڑے جانے آں
ساڈے ولوں وی
کوئی نسان گواہ ہندا
تاں کرن والی
گل وی سی
16
عشرت قطرہ ہے‘ دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
غالب
باہر اک تونبا
دریا وچ ڈیگے‘ تاں موجاں
حداں وچ پیڑ
حدوں باہر‘ پیڑ دا دارو
17
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئ نام‘ ستم گر کہے بغیر
غالب
کم اوہدے نال آ پیا اے
جہنوں سارا جگ
کہاپا آکھے
18
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق‘ گو مجھے کافر کہے بغیر
غالب
اوس بت کافر دی پوجا کر دا راں گا
لوکیں بھانویں‘ کافر کافر آکھ دے رہن
19
دام ہر موج میں ہے حلقہءصد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے‘ قطرے پہ گہر ہونے تک
اچا ناں کسراں ہویا
سیپی اندر جاندی
بوندرکولوں پچھو
سچا موتی بندیاں بندیاں
اوس تے کیہ ویتی
غالب
20
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم‘ تم کو خبر ہونے تک
غالب
منیا‘ٹہل نہ کر سیں
جد تیک تینوں پتہ لگسی
میں مٹی ملساں
21
بنا کر فقیروں کا ہم بھیں غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
غالب
منگتے دا ویس وٹا کے
غالب ویکھن ٹریا
سخیاں دیاں کرتوتاں
22
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غالب
اوہنوں ویکھیاں کھڑ پیناں آں
اوہ کیہ جانے وچوں مر مکیا آں
23
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں‘ کافر نہیں ہوں میں
غالب
کتے تاں مکن
بجلیاں قہر دیاں
کوئ حد ہوندی اے
کافر کیوں سمجھنا ایں
میں کلمہ گو ہاں
24
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
غالب
جھتے جھتے تیرے پیر لگے
اوتھے اوتھے
شداد دیاں جنتاں دسن
25
فکر دنیا میں سر کھیاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
غالب
دنیاں دے جھنجٹاں وچ
سر تنیا اے
میں تاں ایس گڈ دابلد نئیں
26
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
غالب
اوہدے نال ساریاں کھیڈاں سن
ہن سوچاں وچ
اوہ ناز تے نخرہ کیتھوں
27
بسکہ مشکل ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نئیں انساں ہونا
غالب
سوکھے توں سوکھا
کم وی نئیں سوکھا
بندہ‘ بندے دا پتر بنے
ایڈی سوکھی تاں ایہ گل نئیں
28
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے‘ یہی انتظار ہوتا
غالب
ملاقات
ساڈی قسمت وچ
کد لکھی سی
ہور وی‘ جے عمر ملدی
کٹ جاندی اوہ وی
یار دا انتظار کر دیاں
29
قطرے میں دجلہ دکھائ نہ دے اور جز میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا‘ دیدہء بینا نہ ہوا
غالب
تونبے وچ دریا
اک نقطے وچ مضمون سارا
جے نہ بند ہووے
دانائی نئیں
اوہ بالاں دی کھیڈ اے
30
دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم ‘نام خدا‘ کہتے ہیں
غالب
ویکھؤ
اوس شوخے نوں
تکبر کیتھے اپڑاندا
جندی ہر شوخی تے
توبہ توبہ کر دے آں
31
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا‘ گلہ نہ ہوا
غالب
کیوں کٹھا پیا کرناں ایں
ساڈے ویریاں نوں
گلہ کرناں ایں
کہ تماشا پیا کرناں ایں
32
یہ مسائل تصوف‘ یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے‘ جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب
تصوف دے مسلے
اتوں غالب دے منہ چوں‘ واہ
گھٹ نہ لاندا ہوندا
قسمے اوہ ولی ہوندا
33
حضرت ناصح گر آئیں‘ دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو‘ کہ سمجھائیں گے کیا
غالب
سمجھاوا آوے
جی بسم الله‘ سر متھے تے
مینوں ایہ تاں دسو
سمجھاوے گا کیہ
34
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
غالب
ایہ ودھا کپھن دا اے
اوس ڈھکیا عیباں نوں
نئیں تاں ہر بانا
دس دیندا سی
میرے عیب سارے
35
عشق سے طبعت نے‘ زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی‘ درد بے دوا پایا
غالب
عشق
جیون دا سواد دتا
ایہ کل مرضاں دا دارو
اپوں درد ایجا
جہدا دارو نئیں لبھدا
ایس جہان اندر
36
شور پند ناصح نے‘ زخم پر نمک چھڑکا
آپ ہی سے کوئی پوچھے‘ تم نے کیا مزا پایا
غالب
سمجھاوے دی باں باں نے
سگوں پھٹاں تے لون سٹیا
اینوں پچھو
سانوں تڑپا کے
پھلا تینوں کیہ لبھیا اے
37
یہ نعش بےکفن‘ اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے‘ عجب آزاد مرد تھا
غالب
بنا کپھن پئی اے
وچارے اسد دی لاش
الله بخشے
بندہ بڑا کھاڑکو سی
38
اس کی امت میں ہوں میں‘ میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب‘ گنبد بے در کھلا
غالب
غالبا میرا کوئی کم
کیویں رک سکدا اے
میں اوہدی امت چوں آں
جیدے لئی‘ تاں جہان دے
سارے راہ کھلے
شہ کو شہ‘ اس لیے نہیں لیا‘ کہ میں حضور کو بادشاہ نہیں‘ نبی سمجھتا ہوں۔
39
کی مرے قتل کے بعد‘ اس نے جفا سے توبہ
ہائے! اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا
غالب
جانوں مار کے توبہ پیا کر دا اے
بڑی گل اے جی
ہن نئیں توڑ دا اوہ عاشقاں دے دل
40
خانہ زاد زلف ہیں‘ زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتار وفا‘ زنداں سے گھبراویں گے کیا
غالب
رن مرید اے‘ گھبرا ناں
سنگل نئیں توڑ دا
وفا وچ بجیاں لئی
جیلاں کیہ نئیں
41
غالب! ترا احوال سناویں گےہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں‘ یہ اجارا نہیں کرتے
غالب
میاں غالبا
تیرا وی دساں گے
تیرا حال سن کے
تینوں بلا لین
ایہ دعوی نئیں کر دے
42
ہم کو ان سے ہے وفا کی امید
جو نہیں جانتے‘ وفا کیا ہے
غالب
اونہاں توں؟
جہڑے جاندے نئیں
خیر کیہ اے
خیر دی آس لائی بیٹھے آں
43
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
غالب
کعبے کیڑے منہ نال جاویں
کعبے دا ناں لیندیاں
تینوں شرم نئیں آندی
44
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
غالب
منیا
غالب کچھ نئیں
مفتی لبھے تاں
ایدے وچ کیہ حرج اے
45
لازم نئیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
غالب
ضروری نئیں
خضر دے پچھے لگیے
ٹھیک اے
راہ چ اک بڈھا ملیا سی
46
بار ہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
غالب
چشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
ظفر
اوہناں دا موڈ خراب ہوندا
کئی وری ویکھیا اے
پر ایتکیں تاں
دوہائی ہوئی پئی اے
47
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں یہ جانا کہ‘ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
غالب
سوادی گل تاں اوہو ہوندی
جہڑی آودے دل دی جاپے
48
بے صرفہ ہی گزرتی ہے‘ ہو گرچہ عمر خضر
حضرت بھی کہیں گے ہم کیا کیا کیے
غالب
عمر کنی وی لمی ہووے
ایویں ای لنگ ٹپ جاندی اے
بعدوں اوہ وی
لمیاں لمیاں چھڈ سن
49
خاک میں ناموس پیمان محبت مل گئے
اٹھ گیے دنیا سے راہ و رسم یاری ہائے ہائے
غالب
بولاں دا پالن مٹی ملیا اے
دنیا وچ‘ سجناں دی سجائی
ہن کد لبھدی اے
50
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالے سے ناچار ہوتا ہے
غالب
پانی دا اک تونبہ وی
اگ دی باں کرا دیندا اے
مندے حالاں وچ
سارے ای
واتاویاں مار دے نے
51
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
غالب
دنیا وچ
ود سوود شاعر پئے
سننے آں
غالب دی گل ای ہور اے
52
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ‘ عداوت ہی کیوں نہ ہو
غالب
ایہ کل پلے بنی اے
دشمنی ہووے یاں متری
یاداں وچ رکھ دی اے
53
زندگی جب اپنی اس شکل سے گزری‘ غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب
کھسماں آلے ہو کے
یہاتی کجھ ایداں لنگی
یاد ای کراں گے
غالب
54
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین
ہاں‘ منہ سے مگر باہءدوشنبہ کی بو آئے
غالب
بو سنگدیاں ای
دونویں نٹھ پجھ جان گے
پہلے توڑ دی پی کے
اسیں قوریں ڈیرے لاءے نے
55
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اس کو یاد اسد
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرمائی کا
غالب
سمان نوں ویکھ کے
یاد اونہدی آ جاندی اے
دونویں اکو جئے نے
آفتاں ڈھاون وچ
56
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
غالب
فرشتے
سجدے توں ناں کیتی
دھکے مار
درباروں باہر کیتا
ویکھ کے سانوں
چتھراں دی چھاں تھلے
خورے چپ کیوں وٹی بیٹھا
57
ظلمت کدے میں مرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر‘ سو خموش ہے
غالب
میری نھیر کوٹھری وچ
غماں نیں ہنھیر مچایا اے
اک دیوا سی
چانن دا گواہ بنیا
اوہ وی
اکھاں توں محروم ہویا
58
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
غالب
شعراں دے مضمون سارے
اتوں لہندے نے
میرے قلم دی چیک
جبریل دی واز اے
59
دونوں جہان دے کے‘ وہ سمجھے‘ یہ خوش رہا
یاں پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
غالب
دو جہاناں دی کنجی پھڑا کے
اوہ سمجھیا
راضی ہو گیا ہوسی
ایدھر مروت
جب دا بوہا پھڑ کھلوتی
غالب
60
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
غالب
میتری تاں ویکھو
نصیحتاں کر دے نے
عشق دے پھٹاں تے
مٹھے بولاں دا مرہم
رکھ دے نئیں
61
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا
غالب
اکلاپے دا دکھ ناں پچھو
رات پہاڑوں‘ ددھ دی نہر
کڈیاں لنگدی اے
62
گرچہ ہوں دیوانہ‘ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستین میں دشنہ پنہاں‘ ہاتھ میں نشتر کھلا
غالب
میتر دے ہتھ چھرا
کچھ وچ تیسا ویکھ کے
شیدائی آں‘ ایہ پر
کیوں وسا کھاواں
اثاراں دا میں جانو آں
63
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہءغم ہی سہی‘ نغمہءشادی نہ سہی
غالب
گھر
رولے رپے نال ای پہبے
پہانویں اوہ رونا دھونا ہووے
خوشیاں نئیں‘ تے ناسہی
64
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
غالب
اوہ سیکا
دوزخ دی اگ وچ کیتھوں
جہڑا لکیا ہووے
دکھ درد دی بکل اندر
65
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ قصور میرا تھا
غالب
ایدھی دھون تے ہتھ نہ رکھ
قصور وند تاں اسیں آں
ایدھے ہتھ‘اساں کیوں خط گہلیا سی
maqsood hasni
Copy
کس منہ سے
چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے
ہونٹوں پر فقیہ عصر نے
چپ رکھ دی ہے
کتنا عظیم تھا وہ شخص
گلیوں میں
رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا
ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے
آنکھوں سے‘ چن نہ سکے
ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں
آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے
ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا
قول کا پکا تھا
مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا
ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا
ہمارے لیے کیا
جیا تو ہمارے لیے جیا
کتنا عجیب تھا
زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا
مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے
نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے
مرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے
اس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا
کس منہ سے اب
اس کی راہ دیکھتے ہیں
ہم خاموش تماشائی
مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں
بے جان جیون کے دامن میں
غیرت کہاں جو رن میں اترے
یا پھر
پس لب اس کی مدح ہی کر سکے
چلو دنیا چاری ہی سہی
آؤ
اندرون لب دعا کریں
ان مول سی مدح کہیں
maqsood hasni
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets