میری ماں کا دکھ
Poet: Saba Hassan By: saba Hassan, Lahore
آج پروین شاکر کی بائیسویں صلیب پڑھ کر
جانے کس رنج نے آنکھ بھر دی میری
کس قدر دکھ مشترک ہیں ہم دونوں کے
وہ رنجیدہ ہے جنم دن پر اپنے
چین مجھ میں بھی نہیں یوم پیدائش پہ
نام دیتی ہی ہر سالگرہ کو صلیب کا وہ
میں نے اسکا نام ننگی تلوار رکھا ہے
لا خدا کرتی ہے خود کو صلیب پہ اس دن
مجھے اس دن کی تیز دھار لہو رلاتی ہے
اسکی وہ صلیب با اسویں تھی بس
اور میرے زخم پچیس ہزار ہیں ابّ تک
وہ اک کونپل تھی مہک تھی اپنی ماں کی
میں بھی ہوں لیکن دل کے ایک کونے میں
دکھتی رگ ہوں غم ہوں اپنی ماں کا
چاہتی ہوں کے مجھے ہر پل ہنستا ہوا دیکھے ہر دم
اف ................ مگر یہ خاهش دل میں دبا لیتی ہے
آج پچیس کی ہوں کل پچپن کی بھی ہونگی
کل نہ یہ دور ہوگا نہ یہ عمریں ہونگی
خدا کرے میری ماں ہو اور یہ ذات ہو پچیس برس بعد بھی
آنچل ہو اسکا دنیا ہو اور اسکی خا ہشات بھی
سب کچھ ہو مگر روگ نہ ہو عمروں کا
عمریں ہوں مگر سکھ ہوں عمروں سے بڑھکر
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں






