Poetries by Mudasser Jamal
حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ واہ سیّد! تری ہمت و جرات کو سلام
تیری غیرت‘ تیری رفعت‘ تیری عظمت کو سلام
بالاکوٹ آج بھی مہکا ہے تیری خوشبو سے
تیری تلوار‘ تیرے حسن شہادت کو سلام
اہل ایماں تو بھلا بیٹھے تھے شمشیر وسناں
تو نے روشن کیا پھر ہند میں فانوس جہاد
تو نے افرنگی رعونت کو لگائے چرکے
تونے مقتل کی فضاؤں کو کیا پھر آباد
تو نے منہ موڑ دئے موت کی کرپانوں کے
تیری ہیبت سے لرزتے رہے لالے پرشاد
بدروخیبر کی ہوئی تازہ یہاں پھر تاریخ
تو نے جب غیرت ایمان کا اظہار کیا
پھر سے اک بار خلافت کا دکھا کے جلوہ
غلبہ حق کے نشے سے ہمیں سرشار کیا
جانے کس درد سے دیتا رہا پیغام جہاد
جس سے ملت کے حسیں جذبوں کو بیدار کیا
تیری تکبیر کے نعروں کی گرج سے شاہا
کھلبلی مچ گئی باطل کے شبستانوں میں
اسلحہ اور سپاہ گرچہ زیادہ تو نہ تھے
تیری دہشت تھی مگر ظلم کے ایوانوں میں
تونے فرعونی حکومت سے بغاوت کرکے
اس کے پندار کا ہر تاج محل توڑ دیا
ہیں گواہ آج بھی تاریخ عزیمت کے نقوش
تو نے جس عشق سے حالات کا رخ موڑ دیا
اہل ایمان کو سنت کی روش پر لاکر
پھر سے دامان شریعت سے انہیں جوڑ دیا
تیری تحریک جہاد اور شجاعت کے سبب
بعد کی ساری تحاریک کے جھرنے پھوٹے
چشم عالم نے کھلے دن میں یہ منظر دیکھا
کتنی قوموں کی غلامی کے سلاسل ٹوٹے
سورمے کفر کے کئی تیرے لہو کے پیاسے
تیری جرات‘ تیری حکمت سے سبھی رام ہوئے
جادہ حق سے بھٹکتے ہوئے انساں کتنے
تیری بیعت سے ہی وابستہ اسلام ہوئے
عمر تھوڑی تھی مگر کام بڑا ہے تیرا
مقتل عشق میں ہاں نام بڑا ہے تیرا
آج پھر تیرا ہی اک بیٹا ہے شمشیر بکف
عالم کفر جسے دور سے پہچانتا ہے
غلبہ حق کے عساکر کا وہی ہے سالار
جس کو مسعود سے اظہر سے جہاں جانتا ہے مدثرجمال تونسوی
تیری غیرت‘ تیری رفعت‘ تیری عظمت کو سلام
بالاکوٹ آج بھی مہکا ہے تیری خوشبو سے
تیری تلوار‘ تیرے حسن شہادت کو سلام
اہل ایماں تو بھلا بیٹھے تھے شمشیر وسناں
تو نے روشن کیا پھر ہند میں فانوس جہاد
تو نے افرنگی رعونت کو لگائے چرکے
تونے مقتل کی فضاؤں کو کیا پھر آباد
تو نے منہ موڑ دئے موت کی کرپانوں کے
تیری ہیبت سے لرزتے رہے لالے پرشاد
بدروخیبر کی ہوئی تازہ یہاں پھر تاریخ
تو نے جب غیرت ایمان کا اظہار کیا
پھر سے اک بار خلافت کا دکھا کے جلوہ
غلبہ حق کے نشے سے ہمیں سرشار کیا
جانے کس درد سے دیتا رہا پیغام جہاد
جس سے ملت کے حسیں جذبوں کو بیدار کیا
تیری تکبیر کے نعروں کی گرج سے شاہا
کھلبلی مچ گئی باطل کے شبستانوں میں
اسلحہ اور سپاہ گرچہ زیادہ تو نہ تھے
تیری دہشت تھی مگر ظلم کے ایوانوں میں
تونے فرعونی حکومت سے بغاوت کرکے
اس کے پندار کا ہر تاج محل توڑ دیا
ہیں گواہ آج بھی تاریخ عزیمت کے نقوش
تو نے جس عشق سے حالات کا رخ موڑ دیا
اہل ایمان کو سنت کی روش پر لاکر
پھر سے دامان شریعت سے انہیں جوڑ دیا
تیری تحریک جہاد اور شجاعت کے سبب
بعد کی ساری تحاریک کے جھرنے پھوٹے
چشم عالم نے کھلے دن میں یہ منظر دیکھا
کتنی قوموں کی غلامی کے سلاسل ٹوٹے
سورمے کفر کے کئی تیرے لہو کے پیاسے
تیری جرات‘ تیری حکمت سے سبھی رام ہوئے
جادہ حق سے بھٹکتے ہوئے انساں کتنے
تیری بیعت سے ہی وابستہ اسلام ہوئے
عمر تھوڑی تھی مگر کام بڑا ہے تیرا
مقتل عشق میں ہاں نام بڑا ہے تیرا
آج پھر تیرا ہی اک بیٹا ہے شمشیر بکف
عالم کفر جسے دور سے پہچانتا ہے
غلبہ حق کے عساکر کا وہی ہے سالار
جس کو مسعود سے اظہر سے جہاں جانتا ہے مدثرجمال تونسوی
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں الہیٰ کس سے بیاں ہو سکے ثنا اُس کی
کہ جس پہ ایسا تیری ذات خاص کا ہو پیار
جو تو اُسے نہ بناتا، تو سارے عالم کو
نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زنہار
تو فخرِ کون و مکاں، زبدہ زمین و زماں
امیرِ لشکر پیغمبراں، شہِ اَبرار
تو بوئے گُل ہے، اگر ہیں مثلِ گُل اور نبی
تو نورِ شمس ہے، گر اور نبی ہیں شمسِ نہار
حیاتِ جان ہے تو، ہیں اگر وہ جانِ جہاں
تو نور دیدہ ہے، گر ہیں وہ دیدہ بیدار
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
تیرے کمال کسی میں نہیں، مگر دو چار
امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ
کہ ہو سگانِ مدینہ میں میرا نام شمار
جیوں تو ساتھ سگانِ حرم کے ترے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور و مار
جو یہ نصیب نہ ہو، اور کہاں نصیب میرے
کہ میں ہوں، اور سگان حرم کے تیرے قطار
اڑا کے باد مری مشت خاک کو پسِ مرگ
کرے حضورﷺ کے روضے کے آس پاس نثار
ولے یہ رتبہ کہاں مشت خاک قاسم کا
کہ جائے کوچہ اطہر میں تیرے بن کے غبار Mudasser Jamal
کہ جس پہ ایسا تیری ذات خاص کا ہو پیار
جو تو اُسے نہ بناتا، تو سارے عالم کو
نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زنہار
تو فخرِ کون و مکاں، زبدہ زمین و زماں
امیرِ لشکر پیغمبراں، شہِ اَبرار
تو بوئے گُل ہے، اگر ہیں مثلِ گُل اور نبی
تو نورِ شمس ہے، گر اور نبی ہیں شمسِ نہار
حیاتِ جان ہے تو، ہیں اگر وہ جانِ جہاں
تو نور دیدہ ہے، گر ہیں وہ دیدہ بیدار
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
تیرے کمال کسی میں نہیں، مگر دو چار
امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ
کہ ہو سگانِ مدینہ میں میرا نام شمار
جیوں تو ساتھ سگانِ حرم کے ترے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور و مار
جو یہ نصیب نہ ہو، اور کہاں نصیب میرے
کہ میں ہوں، اور سگان حرم کے تیرے قطار
اڑا کے باد مری مشت خاک کو پسِ مرگ
کرے حضورﷺ کے روضے کے آس پاس نثار
ولے یہ رتبہ کہاں مشت خاک قاسم کا
کہ جائے کوچہ اطہر میں تیرے بن کے غبار Mudasser Jamal