Poetries by Muhammad Bilal Azam
دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
دنیا کے خداؤں سے ، خدا مانگ رہا ہوں
اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں
پہنے ہوئے نکلا ہوں جو بکھرے ہوئے پتے
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں، تو خدا مانگ رہا ہوں
بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں Muhammad Bilal Azam
دنیا کے خداؤں سے ، خدا مانگ رہا ہوں
اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں
پہنے ہوئے نکلا ہوں جو بکھرے ہوئے پتے
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں، تو خدا مانگ رہا ہوں
بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں Muhammad Bilal Azam
میری وحشت کا سبب پوچھو گے میری وحشت کا سبب پوچھو گے
اب نہیں پوچھا تو کب پوچھو گے
تم ہو اقلیمِ سخن کے وارث
تم جو پوچھو گے، غضب پوچھو گے
پہلے تو جان سے مارو گے مجھے
پھر مرا نام و نسب پوچھو گے
تم کہ آسائشِ دنیا میں مگن
عشق میں جینے کا ڈھب پوچھو گے
ذات کا کرب کسی روز بلال
مار دے گا تمہیں، تب پوچھو گے Muhammad Bilal Azam
اب نہیں پوچھا تو کب پوچھو گے
تم ہو اقلیمِ سخن کے وارث
تم جو پوچھو گے، غضب پوچھو گے
پہلے تو جان سے مارو گے مجھے
پھر مرا نام و نسب پوچھو گے
تم کہ آسائشِ دنیا میں مگن
عشق میں جینے کا ڈھب پوچھو گے
ذات کا کرب کسی روز بلال
مار دے گا تمہیں، تب پوچھو گے Muhammad Bilal Azam
ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے
ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے
رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے Muhammad Bilal Azam
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے
ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے
رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے Muhammad Bilal Azam
تا ابد چمکیں گے یہ نور کے ہالے تیرے تا ابد چمکیں گے یہ نور کے ہالے تیرے
ہاتھ باندھے کھڑے ہیں چاہنے والے تیرے
یہاں بھی تیرا سہارا ہے صفا کے پیکر
اور وہاں بھی ہمیں درکار حوالے تیرے
یہ بھی ہم ہیں کہ تری ذات کی حرمت پہ نثار
اور ہم نے ہی فرامین بھی ٹالے تیرے
تیری سیرت کے توسط سے ہے روشن دنیا
چار سو پھیلے ہیں دنیا میں اجالے تیرے
شہدِ ایمان میں ڈوبی ہوئی شیریں باتیں
کیسے اندازِ محبت ہیں نرالے تیرے
ہم کہ عاصی ہیں، گنہگار ہیں لیکن پھر بھی
بات میں ذکر ترا، لب پہ ہیں پیالے تیرے Muhammad Bilal Azam
ہاتھ باندھے کھڑے ہیں چاہنے والے تیرے
یہاں بھی تیرا سہارا ہے صفا کے پیکر
اور وہاں بھی ہمیں درکار حوالے تیرے
یہ بھی ہم ہیں کہ تری ذات کی حرمت پہ نثار
اور ہم نے ہی فرامین بھی ٹالے تیرے
تیری سیرت کے توسط سے ہے روشن دنیا
چار سو پھیلے ہیں دنیا میں اجالے تیرے
شہدِ ایمان میں ڈوبی ہوئی شیریں باتیں
کیسے اندازِ محبت ہیں نرالے تیرے
ہم کہ عاصی ہیں، گنہگار ہیں لیکن پھر بھی
بات میں ذکر ترا، لب پہ ہیں پیالے تیرے Muhammad Bilal Azam