Poetries by Muhammad Javed Khadim
گو خواہشِ مکاں ضروری تھی گو خواہشِ مکاں ضروری تھی
بٹوارے میں ما ں ضروری تھی
جانتے تھے حدِ عائل و قبیل
کوششِ خانداں ضروری تھی
رشتوں میں تعلق نہ رہا
لیکن عزتِ رشتے داراں ضروری تھی
میٹھے بول میں جادو ہے
حُنِ اخلاص کی زُباں ضروری تھی
جانتے تھے کہ دُشمن اہا ہے
مگر خاطر ِ مہماں ضروری تھی
اچھے بُرے دنوں سے مُفر ممکن نہیں
زندگی میں بہار و خزاں ضروری تھی
جاوید مکاں نہ دُوکاں ضروری تھی
درِ خُلد و ماں ضروری تھی Muhammad Javed Khadim
بٹوارے میں ما ں ضروری تھی
جانتے تھے حدِ عائل و قبیل
کوششِ خانداں ضروری تھی
رشتوں میں تعلق نہ رہا
لیکن عزتِ رشتے داراں ضروری تھی
میٹھے بول میں جادو ہے
حُنِ اخلاص کی زُباں ضروری تھی
جانتے تھے کہ دُشمن اہا ہے
مگر خاطر ِ مہماں ضروری تھی
اچھے بُرے دنوں سے مُفر ممکن نہیں
زندگی میں بہار و خزاں ضروری تھی
جاوید مکاں نہ دُوکاں ضروری تھی
درِ خُلد و ماں ضروری تھی Muhammad Javed Khadim
ایک شعر عشقِ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بغیر اپنا جاوید
میں نے ایماں مکمل نہیں دیکھا Muhammad Javed Khadim
میں نے ایماں مکمل نہیں دیکھا Muhammad Javed Khadim
ماضی، حال اور مستقبل نہیں دیکھا ماضی، حال اور مستقبل نہیں دیکھا
اُج ہی دیکھا کل نہیں دیکھا
رستے جدا ایک منزل، نہیں دیکھا
زیست و مرگ کا وسل نہیں دیکھا
تتلیاں پھولوں سے ملنے نکلی تھیں
لیکن گلزار میں گل نہیں دیکھا
جاوید سمندر میں دریا گرتے دیکھے
صحرا میں جل تھل نہیں دیکھا
نوازش رب کا مقرر وقت نہیں
جاوید وقت دعا گل نہیں دیکھا
غلط کہ کوئی رستہ نہیں جاوید
توبہ کا دروازہ مقفل نہیں دیکھا
زمانے کی ٹھوکریں کھااتا ہوا اُیا جاوید
تیرے در سوا اُسودہ دل نہیں دیکھا Muhammad Javed Khadim
اُج ہی دیکھا کل نہیں دیکھا
رستے جدا ایک منزل، نہیں دیکھا
زیست و مرگ کا وسل نہیں دیکھا
تتلیاں پھولوں سے ملنے نکلی تھیں
لیکن گلزار میں گل نہیں دیکھا
جاوید سمندر میں دریا گرتے دیکھے
صحرا میں جل تھل نہیں دیکھا
نوازش رب کا مقرر وقت نہیں
جاوید وقت دعا گل نہیں دیکھا
غلط کہ کوئی رستہ نہیں جاوید
توبہ کا دروازہ مقفل نہیں دیکھا
زمانے کی ٹھوکریں کھااتا ہوا اُیا جاوید
تیرے در سوا اُسودہ دل نہیں دیکھا Muhammad Javed Khadim
اللہ، نبی اور قراُن چھوڑا اللہ، نبی اور قراُن چھوڑا
خود کو نا اورمسلمان چھوڑا
خود ہی بنے فرعوں وقت
خدائی میں اور شیطان چھوڑا
چھوڑا تقدس چادر و چار دیواری
نا امن اور امان چھوڑا
رکھا نا پاس احترام رشتہ داری
ماں، باپ کا اور فرمان چھوڑا
دنیا میں فرشتہ بنتے بنتے
خود میں اور حیوان چھوڑا
تم نے خود کو جاوید
اُدمی نا اور انسان چھوڑا Muhammad Javed Khadim
خود کو نا اورمسلمان چھوڑا
خود ہی بنے فرعوں وقت
خدائی میں اور شیطان چھوڑا
چھوڑا تقدس چادر و چار دیواری
نا امن اور امان چھوڑا
رکھا نا پاس احترام رشتہ داری
ماں، باپ کا اور فرمان چھوڑا
دنیا میں فرشتہ بنتے بنتے
خود میں اور حیوان چھوڑا
تم نے خود کو جاوید
اُدمی نا اور انسان چھوڑا Muhammad Javed Khadim
آدمی میں بہت آدمیت تھی جو آدمی میں بہت آدمیت تھی جو
جاوید، اب تو انسان ہو گئی ہو گی Muhammad Javed Khadim
جاوید، اب تو انسان ہو گئی ہو گی Muhammad Javed Khadim
گھرانہ تو بہت آباد ہے جاوید گھرانہ تو بہت آباد ہے جاوید
آتے ہیں مگر یاد مجھے والد صاحب آج Muhammad Javed Khadim
آتے ہیں مگر یاد مجھے والد صاحب آج Muhammad Javed Khadim
خواب کیا کیا ہیں آنکھوں میں خواب کیا کیا ہیں آنکھوں میں
ماہتاب ضیا ضیا ہیں آنکھوں میں
کار محبت میں عکس خوشنو اور
گلاب نیا نیا ہیں آنکھوں میں
ہوائے عشق میں نکلے ہیں، پوچھتے ہیں؟
جواب دعا دعا ہیں آنکھوں میں
کبھی ہوئے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے تشنہ
سراب دریا دریا ہیں آنکھوں میں
میرا جیون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کورا کاغذ
کتاب صفحہ صفحہ ہیں آنکھوں میں
جاوید اور کہاں تک جانا ہے
خواب کیا کیا ہیں آنکھوں میں Muhammad Javed Khadim
ماہتاب ضیا ضیا ہیں آنکھوں میں
کار محبت میں عکس خوشنو اور
گلاب نیا نیا ہیں آنکھوں میں
ہوائے عشق میں نکلے ہیں، پوچھتے ہیں؟
جواب دعا دعا ہیں آنکھوں میں
کبھی ہوئے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے تشنہ
سراب دریا دریا ہیں آنکھوں میں
میرا جیون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کورا کاغذ
کتاب صفحہ صفحہ ہیں آنکھوں میں
جاوید اور کہاں تک جانا ہے
خواب کیا کیا ہیں آنکھوں میں Muhammad Javed Khadim
تنہا تنہا ہیں میں اور میری تنہائی تنہا تنہا ہیں میں اور میری تنہائی
پابند وفا ہیں میں اور میری تنہائی
مسافت، دشت، دریا اور دھندلے خواب
وصل سزا ہیں میں اور میری تنہائی
جدائی، تمنائے وصل، اداسی سزائے مسلسل
خفا خفا ہیں میں اور میری تنہائی
بے مروت، ہرجائی زندگی کی طرح
بے وفا ہیں میں اور میری تنہائی
خود سے الجھتے ہیں، خود سے ڈرتے ہیں
نروان جاں ہیں میں اور میری تنہائی
اپنا ہی عکس نوچتے کے لئے
روبرو آئینہ ہیں میں اور میری تنہائی
اس کی چاہت میں دن رات سنورتے ہیں
بے چہرہ ہیں میں اور میری تنہائی
جاوید خود سے بے ربط باتیں کرتے ہیں
بے صدا ہیں میں اور میری تنہائی Muhammad Javed Khadim
پابند وفا ہیں میں اور میری تنہائی
مسافت، دشت، دریا اور دھندلے خواب
وصل سزا ہیں میں اور میری تنہائی
جدائی، تمنائے وصل، اداسی سزائے مسلسل
خفا خفا ہیں میں اور میری تنہائی
بے مروت، ہرجائی زندگی کی طرح
بے وفا ہیں میں اور میری تنہائی
خود سے الجھتے ہیں، خود سے ڈرتے ہیں
نروان جاں ہیں میں اور میری تنہائی
اپنا ہی عکس نوچتے کے لئے
روبرو آئینہ ہیں میں اور میری تنہائی
اس کی چاہت میں دن رات سنورتے ہیں
بے چہرہ ہیں میں اور میری تنہائی
جاوید خود سے بے ربط باتیں کرتے ہیں
بے صدا ہیں میں اور میری تنہائی Muhammad Javed Khadim
تیرا شہر بھی کوئی عجیب لگتا ہے تیرا شہر بھی کوئی عجیب لگتا ہے
نہ کوئی عدو نہ کوئی رقیب لگتا ہے
حدود ذات میں داخل ہو کر دئکھ
کوئی عدو تو کوئی حبیب لگتا ہے
اب تو نام محبت کے الزام آیا ہے
میر شہر میں رسوا کوئی غریب لگتا ہے
دل کے رشتے بڑے عجیب ہوتے ہیں
دور رہ کربھی کوئی قریب لگتا ہے
شعر و غزل، نظم و نثر کہتے رہتے ہو
سخن آرائی تیرا کوئی نصیب لگتا ہے
جاوید تیری سخن وری میں کرب نمایاں ہے
تو کوئی شاعر، کوئی ادیب لگتا ہے Muhammad Javed Khadim
نہ کوئی عدو نہ کوئی رقیب لگتا ہے
حدود ذات میں داخل ہو کر دئکھ
کوئی عدو تو کوئی حبیب لگتا ہے
اب تو نام محبت کے الزام آیا ہے
میر شہر میں رسوا کوئی غریب لگتا ہے
دل کے رشتے بڑے عجیب ہوتے ہیں
دور رہ کربھی کوئی قریب لگتا ہے
شعر و غزل، نظم و نثر کہتے رہتے ہو
سخن آرائی تیرا کوئی نصیب لگتا ہے
جاوید تیری سخن وری میں کرب نمایاں ہے
تو کوئی شاعر، کوئی ادیب لگتا ہے Muhammad Javed Khadim
اے میری زیست، میں بڑے طویل سفر میں ہوں اے میری زیست، میں بڑے طویل سفر میں ہوں
نروان جاں! نگار شام بے منزل شہر میں ہوں
میں غبار گرد ہوا کے ساتھ ساتھ
دشت و صحرا خاک مثل رہگزر میں ہوں
میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر
اے میری جاں! میں اسیر گل سحر میں ہوں
بس ال بار گیا تھا کوئے وصال میں مگر
میں اس کے بعد سے اہل ہجر میں ہوں
ایک اک کر کے کنارے ڈوبتے جاتے ہیں کیوں؟
میں الجھا ہوا لہر ساحل سمندر میں ہوں
مہر دونیم نہیں جاوید اپنا اپنا چاند
سراب جاں کار محبت وصل مہر میں ہوں Muhammad Javed Khadim
نروان جاں! نگار شام بے منزل شہر میں ہوں
میں غبار گرد ہوا کے ساتھ ساتھ
دشت و صحرا خاک مثل رہگزر میں ہوں
میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر
اے میری جاں! میں اسیر گل سحر میں ہوں
بس ال بار گیا تھا کوئے وصال میں مگر
میں اس کے بعد سے اہل ہجر میں ہوں
ایک اک کر کے کنارے ڈوبتے جاتے ہیں کیوں؟
میں الجھا ہوا لہر ساحل سمندر میں ہوں
مہر دونیم نہیں جاوید اپنا اپنا چاند
سراب جاں کار محبت وصل مہر میں ہوں Muhammad Javed Khadim