Narsari Ka Dakhla Bi Sarsri
Poet: Anwar Masood By: Noman Khan, KarachiNarsari Ka Dakhla Bi Sarsri Mat Janye
Aap Ke Bache Ko Aflaton Hona Chahye
Dosto English Zrori Hai Hmare Waste
Fail Hone Ko Bi Ik Mazmon Hona Chahye
More Anwar Masood Poetry
کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبیعت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہوگا
اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا
یہی انداز تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبیعت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہوگا
اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا
یہی انداز تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا
arbaz
جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے
اس کو مجھ سے مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے
چل پڑا ہوں شوق بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پر خطر جیسا بھی ہے
سب گوارا ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے
وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے
تیرا انورؔ با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے
اس کو مجھ سے مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے
چل پڑا ہوں شوق بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پر خطر جیسا بھی ہے
سب گوارا ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے
وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے
تیرا انورؔ با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے
zainab
رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی
وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی
یہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی
دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی
ساتھ کے گھر میں ترا شور بپا ہے انورؔ
کوئی آئے گا تو دستک نہ سنائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی
وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی
یہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی
دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی
ساتھ کے گھر میں ترا شور بپا ہے انورؔ
کوئی آئے گا تو دستک نہ سنائی دے گی
yasir
شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے
Adeena
دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے
حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے
کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے
احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے
جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے
پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے
حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے
کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے
احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے
جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے
پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے
laibah
اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے
چھلکے پھلوں سے مہنگے ہوں گے
ننھی ننھی چیونٹیوں کے بھی
ہاتھی جیسے سائے ہوں گے
بھیڑ تو ہوگی لیکن پھر بھی
سونے سونے رستے ہوں گے
پھول کھلیں گے تنہا تنہا
جھرمٹ جھرمٹ کانٹے ہوں گے
لوگ اسے بھگوان کہیں گے
جس کی جیب میں پیسے ہوں گے
ریت جلے گی دھوپ میں انورؔ
برف پہ بادل چھائے ہوں گے
چھلکے پھلوں سے مہنگے ہوں گے
ننھی ننھی چیونٹیوں کے بھی
ہاتھی جیسے سائے ہوں گے
بھیڑ تو ہوگی لیکن پھر بھی
سونے سونے رستے ہوں گے
پھول کھلیں گے تنہا تنہا
جھرمٹ جھرمٹ کانٹے ہوں گے
لوگ اسے بھگوان کہیں گے
جس کی جیب میں پیسے ہوں گے
ریت جلے گی دھوپ میں انورؔ
برف پہ بادل چھائے ہوں گے
bilal








