Parveen Shakir Sad Poetry
Parveen Shakir Sad Poetry is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Parveen Shakir Sad Poetry that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Parveen Shakir Sad Poetry compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں
زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے
جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے
پر میں کیا کرتی کہ زنجیر ترے نام کی تھی
جس کے ماتھے پہ مرے بخت کا تارہ چمکا
چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی
میں نے ہاتھوں کو ہی پتوار بنایا ورنہ
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی مرے کس کام کی تھی
وہ کہانی کہ ابھی سوئیاں نکلیں بھی نہ تھیں
فکر ہر شخص کو شہزادی کے انجام کی تھی
یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا
یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی
بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک
اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی
دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے
برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر
اک عمر مرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
محنت مری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی
رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے
خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے
بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے
پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے
یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے
نکلے ہیں تو رستے میں کہیں شام بھی ہوگی
سورج بھی مگر آئے گا اس رہ گزر سے
کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
وا قفس میں کوئی در خود مرا صیاد کرے
سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے
سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے
جب لہو بول پڑے اس کے گواہوں کے خلاف
قاضئ شہر کچھ اس باب میں ارشاد کرے
اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا
اک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن
تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا
کس طرح مری روح ہری کر گیا آخر
وہ زہر جسے جسم میں کھلتے نہیں دیکھا
تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا
فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس
تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے
اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی
ﺗﺮﯼ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺗﺮﮮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎ ﻭﺻﻒ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﻣﺮﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﮕﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮕﺎ
ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮﮞ ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﺗﺮﯼ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺑﮑﮭﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ۔۔۔۔۔ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺭﮐﮫ ﺭﮐﮭﺎﺅ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺞ ﮐﻼﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺟﺴﮯ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﮩﻤﺎﻥ ۔۔۔۔۔۔ ﺧﺎﻟﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﺌﮯ
ﻭﮦ ﺍﮎ ﻣﮑﺎﻥ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﮑﯿﮟ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ ﺍﮎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ۔۔۔۔۔۔۔ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ ﮔﯽ
ﻣﺮﮮ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﮐﺎ ﮨﺮ ﻓﺮﺩ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻗﺘﻞ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
Parveen Shakir Sad Poetry - Express your feeling with Pakistan’s largest collection of Parveen Shakir Sad Poetry in Urdu. He was a good at Urdu language. Latest collections of Parveen Shakir Sad Shayari are here. You want to read your feelings with your loved ones, then say it all with Parveen Shakir Sad Poetry that can be dedicated and shared easily from this online page.
Parveen Shakir’s poetry blends elegance and emotion — her words speak directly to the soul, especially on matters of love and feelings.
- iqbal , raawalpindi
- Tue 19 Aug, 2025
Parveen Shakir's poetry is known for its delicate expression of love, femininity, and emotion. Her verses beautifully portray the inner world of a woman.
- iqbal , raawalpindi
- Mon 18 Aug, 2025
Parveen Shakir’s poetry blends elegance and emotion—her words speak directly to the soul, especially on matters of love and feelings.
- Shazia , Pak pattan
- Fri 01 Aug, 2025




