Poetries by Professor Riffat Mazhar
جو دِل کا خون کیا تب سحر کا نام لیا لُٹیں جو حسرتیں تو دِل کو ہم نے تھام لیا
ملا قرار ہمیں جب تمہارا نام لیا
نہ ہم سمیٹ سکے اپنے آپ کو لیکن
یہ کیا کہ دُور سے گرتے ہوو ¿ں کو تھام لیا
تمام شہر میں بکھرے ہوئے ہیں پروانے
یہ کس شمع نے ہے لُٹنے کا انتقام لیا
فریبِ عشق دیا حسن کی وساطت سے
یہ کچھ عجیب سا یزداں نے ہم سے کام لیا
نہ سُکھ کی روشنی برسی نہ دُکھ کے ابر گھِرے
بس ایک برق سی لپکی جو تیرا نام لیا
تمہیں بتائیں تو کیا رات کے مسافر نے
جو دِل کا خون کیا تب سحر کا نام لیا
تمہاری کھوکھلی خوشیوں سے لاکھ بہتر ہے
کہ ہم نے آہ بھری ا ور دِ ل کو تھام لیا Professor Riffat Mazhar
ملا قرار ہمیں جب تمہارا نام لیا
نہ ہم سمیٹ سکے اپنے آپ کو لیکن
یہ کیا کہ دُور سے گرتے ہوو ¿ں کو تھام لیا
تمام شہر میں بکھرے ہوئے ہیں پروانے
یہ کس شمع نے ہے لُٹنے کا انتقام لیا
فریبِ عشق دیا حسن کی وساطت سے
یہ کچھ عجیب سا یزداں نے ہم سے کام لیا
نہ سُکھ کی روشنی برسی نہ دُکھ کے ابر گھِرے
بس ایک برق سی لپکی جو تیرا نام لیا
تمہیں بتائیں تو کیا رات کے مسافر نے
جو دِل کا خون کیا تب سحر کا نام لیا
تمہاری کھوکھلی خوشیوں سے لاکھ بہتر ہے
کہ ہم نے آہ بھری ا ور دِ ل کو تھام لیا Professor Riffat Mazhar
ہمیں دل کا پتا دے دو مجھے تم نے کہا تھا
”زندگی بس تم سے قائم ہے“
تمہارا عکس ہے دِل میں
تمہارا روپ نظروں میں
تمہارے بِن
ہمارے دِل کا آنگن
دشتِ ویراں ہے
جو تُم آؤ نکھار آئے
تمہارا ساتھ ہو تو
اپنی ہستی میں بہار آئے
ہماری بیقراری کو
قرار آئے
یقیں جانو
تمہاری بات ہی اب تک
دھیان میں ہے
کہ میرے چار سو رنگوں کا میلہ ہے
بہت سے دوست ہیں
ساتھی ہیں اور ان کی دعائیں ہیں
خوشی ہے ، قہقہے ہیں اور اُن کی خوش صدائیں ہیں
مگر یہ سب نوائیں ، سب ادائیں
ایک دھوکا ہیں
دلِ خوش فہم ، تو ہے منتظر
اب تک اسی پَل کا
جو شاید کھو گیا ہے وقت کے گہرے سمندر میں
وہ جب تم نے کہا تھا
”زندگی بس تم سے قائم ہے“
چلو چھوڑو ! یہ ماضی تھا
مگر اتنا تو سمجھا دو
تمہیں کس نے کہا تھا؟
ہم کو یہ راہیں کھانے کو
ہمیں ناحق ستانے کو
کہاں ہو تم صدا دے دو
ہمیں دل کا پتا دے دو Professor Riffat Mazhar
”زندگی بس تم سے قائم ہے“
تمہارا عکس ہے دِل میں
تمہارا روپ نظروں میں
تمہارے بِن
ہمارے دِل کا آنگن
دشتِ ویراں ہے
جو تُم آؤ نکھار آئے
تمہارا ساتھ ہو تو
اپنی ہستی میں بہار آئے
ہماری بیقراری کو
قرار آئے
یقیں جانو
تمہاری بات ہی اب تک
دھیان میں ہے
کہ میرے چار سو رنگوں کا میلہ ہے
بہت سے دوست ہیں
ساتھی ہیں اور ان کی دعائیں ہیں
خوشی ہے ، قہقہے ہیں اور اُن کی خوش صدائیں ہیں
مگر یہ سب نوائیں ، سب ادائیں
ایک دھوکا ہیں
دلِ خوش فہم ، تو ہے منتظر
اب تک اسی پَل کا
جو شاید کھو گیا ہے وقت کے گہرے سمندر میں
وہ جب تم نے کہا تھا
”زندگی بس تم سے قائم ہے“
چلو چھوڑو ! یہ ماضی تھا
مگر اتنا تو سمجھا دو
تمہیں کس نے کہا تھا؟
ہم کو یہ راہیں کھانے کو
ہمیں ناحق ستانے کو
کہاں ہو تم صدا دے دو
ہمیں دل کا پتا دے دو Professor Riffat Mazhar
ستارے دیکھ رہے ہیں ابھر ابھر کے مجھے ستارے دیکھ رہے ہیں ابھر ابھر کے مجھے
کہ مِل رہے ہیں اشارے کسی سفر کے مجھے
میں اک شمعِ سرِ راہ گزارِ ہستی ہوں
کہ دیکھتی ہے ہوا بھی ٹھہر ٹھہر کے مجھے
صبا تھی میں سو مجھے باغ ہی میں رہنا تھا
غبار ہونا پڑا دشت سے گزر کے مجھے
لگا ہوا ہے میرا دل ابھی تو گڑیوں میں
گزر نہ جائیں یہ دِن بھی اد۱س کرکے مجھے
مِلا تھا رات مجھے اپنے آئینے میں کوئی
بہت ملال ہوا اُس سے بات کرکے مجھے Professor Riffat Mazhar
کہ مِل رہے ہیں اشارے کسی سفر کے مجھے
میں اک شمعِ سرِ راہ گزارِ ہستی ہوں
کہ دیکھتی ہے ہوا بھی ٹھہر ٹھہر کے مجھے
صبا تھی میں سو مجھے باغ ہی میں رہنا تھا
غبار ہونا پڑا دشت سے گزر کے مجھے
لگا ہوا ہے میرا دل ابھی تو گڑیوں میں
گزر نہ جائیں یہ دِن بھی اد۱س کرکے مجھے
مِلا تھا رات مجھے اپنے آئینے میں کوئی
بہت ملال ہوا اُس سے بات کرکے مجھے Professor Riffat Mazhar