Qamar Jalalvi Poetry, Ghazals & Shayari
Qamar Jalalvi Poetry allows readers to express their inner feelings with the help of beautiful poetry. Qamar Jalalvi shayari and ghazals is popular among people who love to read good poems. You can read 2 and 4 lines Poetry and download Qamar Jalalvi poetry images can easily share it with your loved ones including your friends and family members. Up till, several books have been written on Qamar Jalalvi Shayari. Urdu Ghazal readers have their own choice or preference and here you can read Qamar Jalalvi poetry in Urdu & English from different categories.
- LATEST POETRY
- اردو
توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی
پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی
پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی
اچھا تو دونوں وقت ملے کوسیئے حضور
پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی
اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ
بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی
دیکھو چراغ قبر اسے کیا جواب دے
آئے گی شام ہجر مجھے پوچھتی ہوئی
قاصد انہیں کو جا کے دیا تھا ہمارا خط
وہ مل گئے تھے ان سے کوئی بات بھی ہوئی؟
جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام
ساقی رہے گی گردش دوراں رکی ہوئی
مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمرؔ
کیسے وہ آ سکیں گے اگر چاندنی ہوئی ایاز
دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے
بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ
گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر ملے
ان سے ہمیں نگاہ کرم کی امید کیا
آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر ملے
وعدہ غلط پتے بھی بتائے ہوئے غلط
تم اپنے گھر ملے نہ رقیبوں کے گھر ملے
افسوس ہے یہی مجھے فصل بہار میں
میرا چمن ہو اور مجھی کو نہ گھر ملے
چاروں طرف ہے شمع محبت کی روشنی
پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر ملے Zaid
ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے مے خانے کو ہم
لے کے اپنے ساتھ اک خاموش دیوانے کو ہم
جا رہے ہیں حضرت ناصح کو سمجھانے کو ہم
یاد رکھیں گے تمہاری بزم میں آنے کو ہم
بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم
حسن مجبور ستم ہے عشق مجبور وفا
شمع کو سمجھائیں یا سمجھائیں پروانے کو ہم
رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں
دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم
الجھنیں طول شب فرقت کی آگے آ گئیں
جب کبھی بیٹھے کسی کی زلف سلجھانے کو ہم
راستے میں رات کو مڈبھیڑ ساقی کچھ نہ پوچھ
مڑ رہے تھے شیخ جی مسجد کو بت خانے کو ہم
شیخ جی ہوتا ہے اپنا کام اپنے ہاتھ سے
اپنی مسجد کو سنبھالیں آپ بت خانے کو ہم
دو گھڑی کے واسطے تکلیف غیروں کو نہ دے
خود ہی بیٹھے ہیں تری محفل سے اٹھ جانے کو ہم
آپ قاتل سے مسیحا بن گئے اچھا ہوا
ورنہ اپنی زندگی سمجھے تھے مر جانے کو ہم
سن کے شکوہ حشر میں کہتے ہو شرماتے نہیں
تم ستم کرتے پھرو دنیا پہ شرمانے کو ہم
اے قمرؔ ڈر تو یہ ہے اغیار دیکھیں گے انہیں
چاندنی شب میں بلا لائیں بلا لانے کو ہم Ijlal
خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے
باغباں کچھ سوچ کر ہم قید سے چھوٹے نہ تھے
ورنہ کچھ پاؤں نہ تھے بیکار پر ٹوٹے نہ تھے
خار جب اہل جنوں کے پاؤں میں ٹوٹے نہ تھے
دامن صحرا پہ یہ رنگین گل بوٹے نہ تھے
رہ گئی محروم آزادی کے نغموں سے بہار
کیا کریں قید زباں بندی سے ہم چھوٹے نہ تھے
اس جوانی سے تو اچھی تھی تمہاری کم سنی
بھول تو جاتے تھے وعدوں کو مگر جھوٹے نہ تھے
اس زمانے سے دعا کی ہے بہاروں کے لئے
جب فقط ذکر چمن بندی تھا گل بوٹے نہ تھے
کیا یہ سچ ہے اے مرے صیاد گلشن لٹ گیا
جب تو میرے سامنے دو پھول بھی ٹوٹے نہ تھے
چھوڑ تو دیتے تھے رستے میں ذرا سی بات پر
رہبروں نے منزلوں پر قافلے لوٹے نہ تھے
کس قدر آنسو بہائے تم نے شام غم قمرؔ
اتنے تارے تو فلک سے بھی کبھی ٹوٹے نہ تھے Yasir
مایوس نظر ہے در کی طرف اور جان نکلتی جاتی ہے
چہرے سے سرکتی جاتی ہے زلف ان کی خواب کے عالم میں
وہ ہیں کہ ابھی تک ہوش نہیں اور شب ہے کہ ڈھلتی جاتی ہے
اللہ خبر بجلی کو نہ ہو گلچیں کی نگاہ بد نہ پڑے
جس شاخ پہ تنکے رکھے ہیں وہ پھولتی پھلتی جاتی ہے
عارض پہ نمایاں خال ہوئے پھر سبزۂ خط آغاز ہوا
قرآں تو حقیقت میں ہے وہی تفسیر بدلتی جاتی ہے
توہین محبت بھی نہ رہی وہ جور و ستم بھی چھوٹ گئے
پہلے کی بہ نسبت حسن کی اب ہر بات بدلتی جاتی ہے
لاج اپنی مسیحا نے رکھ لی مرنے نہ دیا بیماروں کو
جو موت نہ ٹلنے والی تھی وہ موت بھی ٹلتی جاتی ہے
ہے بزم جہاں میں نا ممکن بے عشق سلامت حسن رہے
پروانے تو جل کر خاک ہوئے اب شمع بھی جلتی جاتی ہے
شکوہ بھی اگر میں کرتا ہوں تو جور فلک کا کرتا ہوں
بے وجہ قمرؔ تاروں کی نظر کیوں مجھ سے بدلتی جاتی ہے Ali
دل کو ہے درد درد کو ہے دل لئے ہوئے
دیکھا خدا پہ چھوڑ کے کشتی کو ناخدا
جیسے خود آ گیا کوئی ساحل لئے ہوئے
دیکھو ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے
تم رات دن ستاؤ مگر دل لئے ہوئے
وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں
اور تم اٹھے تھے رونق محفل لئے ہوئے
اپنی ضروریات ہیں اپنی ضروریات
آنا پڑا تمہیں طلب دل لئے ہوئے
بیٹھا جو دل تو چاند دکھا کر کہا قمرؔ
وہ سامنے چراغ ہے منزل لئے ہوئے Yasra
کہ اب تو موت کو سمجھا ہے زندگی میں نے
یہ دل میں سوچ کے توبہ بھی توڑ دی میں نے
نہ جانے کیا کہے ساقی اگر نہ پی میں نے
کوئی بلا مرے سر پر ضرور آئے گی
کہ تیری زلف پریشاں سنوار دی میں نے
سحر ہوئی شب وعدہ کا اضطراب گیا
ستارے چھپ گئے گل کر دی روشنی میں نے
سوائے دل مجھے دیر و حرم سے کیا مطلب
جگہ حضور کے ملنے کی ڈھونڈ لی میں نے
جہاں چلا دیا ساغر کا دور اے واعظ
وہیں پہ گردش ایام روک دی میں نے
بلائیں لینے پہ آپ اتنے ہو گئے برہم
حضور کون سی جاگیر چھین لی میں نے
دعائیں دو مجھے در در جنوں میں پھر پھر کر
تمہاری شہرتیں کر دیں گلی میں نے
جواب اس کا تو شاید فلک بھی دے نہ سکے
وہ بندگی جو تری رہ گزر میں کی میں نے
وہ جانے کیسے پتہ دے گئے تھے گلشن کا
نہ چھوڑا پھول نہ چھوڑی کلی کلی میں نے
قمرؔ وہ نیند میں تھے ان کو کیا خبر ہوگی
کہ ان پہ شب کو لٹائی ہے چاندنی میں نے Umair Khan
ادھر تو کھائے جاتا ہے ادھر وہ کھائے جاتے ہیں
چمن والوں سے جا کر اے نسیم صبح کہہ دینا
اسیران قفس کے آج پر کٹوائے جاتے ہیں
کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے
بڑی مشکل سے دیوانے ترے دفنائے جاتے ہیں
انہیں غیروں کے گھر دیکھا ہے اور انکار ہے ان کو
میں باتیں پی رہا ہوں اور وہ قسمیں کھائے جاتے ہیں
خدا محفوظ رکھے نالہ ہائے شام فرقت سے
زمیں بھی کانپتی ہے آسماں تھرائے جاتے ہیں
کوئی دم اشک تھمتے ہی نہیں ایسا بھی کیا رونا
قمرؔ دو چار دن کی بات ہے وہ آئے جاتے ہیں Hassan
شمع گل ہو گئی سحر نہ ہوئی
روئے شبنم جلا جو گھر میرا
پھول کی کم ہنسی مگر نہ ہوئی
حشر میں بھی وہ کیا ملیں گے ہمیں
جب ملاقات عمر بھر نہ ہوئی
آئینہ دیکھ کر یہ کیجیے شکر
آپ کو آپ کی نظر نہ ہوئی
سب تھے محفل میں ان کی محو جمال
ایک کو ایک کی خبر نہ ہوئی
سینکڑوں رات کے کئے وعدے
ان کی رات آج تک قمرؔ نہ ہوئی Qaiser
تم نے تو مسمار کر ڈالا مکان آرزو
نا مکمل رہ گیا آخر بیان آرزو
کہتے کہتے سو گئے ہم داستان آرزو
دل پہ رکھ لو ہاتھ پھر سننا بیان آرزو
داستان آرزو ہے داستان آرزو
حضرت موسیٰ یہاں لغزش نہ کر جانا کہیں
امتحان آرزو ہے امتحان آرزو
دل مرا دشمن سہی لیکن کہوں تو کیا کہوں
رازدان آرزو ہے رازدان آرزو
تم تو صرف اک دید کی حسرت پہ برہم ہو گئے
کم سے کم پوری تو سنتے داستان آرزو Anila
سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کئے
دل کو وہ کیا دیکھتے سوز جگر دیکھا کئے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کئے
ان کی محفل میں انہیں سب رات بھر دیکھا کئے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کئے
تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لئے منہ پھیر لو
دم نہ نکلے گا مری صورت اگر دیکھا کئے
میں کچھ اس حالت سے ان کے سامنے پہنچا کہ وہ
گو مری صورت سے نفرت تھی مگر دیکھا کئے
فائدہ کیا ایسی شرکت سے عدو کی بزم میں
تم ادھر دیکھا کئے اور ہم ادھر دیکھا کئے
شام سے یہ تھی ترے بیمار کی حالت کہ لوگ
رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کئے
بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے بھی کیا صیاد سے
یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کئے
موت آ کر سامنے سے لے گئی بیمار کو
دیکھیے چارہ گروں کو چارہ گر دیکھا کئے
رات بھر تڑپا کیا ہے درد فرقت سے قمرؔ
پوچھ لو تاروں سے تارے رات بھر دیکھا کئے aftab
کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے
چھوڑ کر بیمار کو یہ کیا قیامت کر چلے
دم نکلنے بھی نہ پایا آپ اپنے گھر چلے
ہو گیا صیاد برہم اے اسیران قفس
بند اب یہ نالہ و فریاد ورنہ پر چلے
کس طرح طے کی ہے منزل عشق کی ہم نے نہ پوچھ
تھک گئے جب پاؤں تیرا نام لے لے کر چلے
آ رہے ہیں اشک آنکھوں میں اب اے ساقی نہ چھیڑ
بس چھلکنے کی کسر باقی ہے ساغر بھر چلے
جب بھی خالی ہاتھ تھے اور اب بھی خالی ہاتھ ہیں
لے کے ہم دنیا میں کیا آئے تھے کیا لے کر چلے
حسن کو غمگین دیکھے عشق یہ ممکن نہیں
روک لے اے شمع آنسو اب پتنگے مر چلے
اس طرف بھی اک نظر ہم بھی کھڑے ہیں دیر سے
مانگنے والے تمہارے در سے جھولی بھر چلے
اے قمرؔ شب ختم ہونے کو ہے چھوڑو انتظار
ساحل شب سے ستارے بھی کنارہ کر چلے vicky
ادھر اندھیرے میں چل پڑوں گا جدھر مجھے روشنی ملے گی
ہجوم محشر میں کیسا ملنا نظر فریبی بڑی ملے گی
کسی سے صورت تری ملے گی کسی سے صورت مری ملے گی
تمہاری فرقت میں تنگ آ کر یہ مرنے والوں کا فیصلہ ہے
قضا سے جو ہمکنار ہوگا اسے نئی زندگی ملے گی
قفس سے جب چھٹ کے جائیں گے ہم تو سب ملیں گے بجز نشیمن
چمن کا ایک ایک گل ملے گا چمن کی اک اک کلی ملے گی
تمہاری فرقت میں کیا ملے گا تمہارے ملنے سے کیا ملے گا
قمرؔ کے ہوں گے ہزارہا غم رقیب کو اک خوشی ملے گی Haider Ali
ساری دنیا کہے بلبل نہ کہے ہائے بہار
صبح گلگشت کو جاتے ہو کہ شرمائے بہار
کیا یہ مطلب ہے گلستاں سے نکل جائے بہار
منہ سے کچھ بھی دم رخصت نہ کہا بلبل نے
صرف صیاد نے اتنا تو سنا ہائے بہار
یہ بھی کچھ بات ہوئی گل ہنسے تم روٹھ گئے
اس پہ یہ ضد کہ ابھی خاک میں مل جائے بہار
تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول
صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار Hassan
گرمی تو دیکھو ڈوبے ہوئے آفتاب کی
رخ سے جدا جو حشر میں تم نے نقاب کی
دنیا یہ تاب لائے گی دو آفتاب کی
ساقی یہ رقم سچ ہے جو مجھ پر حساب کی
بوتل پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھا شراب کی
کیا کم تھا حسن باغ کہ اے باغبان حسن
اک شاخ تو نے اور لگا دی شباب کی
وہ تو رہا کلیم کے اصرار کا جواب
اور یہ جو تو نے طور کی مٹی خراب کی
موسیٰ کو اس نے سر پہ چڑھایا بھی تھا بہت
جلوے نے خوب طور کی مٹی خراب کی
پھیرو نہ آنکھیں تم مرے اشکوں کے جوش پر
طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی
اللہ اس کا کچھ بھی جوانی پہ حق نہیں
برسوں دعائیں مانگی ہیں جس نے شباب کی
رکھیے معاف شیخ جی مسجد میں ہجو مے
باتیں خدا کے گھر میں نہ کیجے شراب کی
باغ جہاں میں اور بھی تم سے تو ہیں مگر
ہر پھول میں نہیں ہے نزاکت گلاب کی
جب سے گئے ہیں دیکھ کے تارے وہ اے قمرؔ
صورت بدل گئی ہے شب ماہتاب کی faizan
وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہوگا
بھلا اہل جنوں سے ترک ویرانہ تو کیا ہوگا
خبر آئے گی ان کی ان کا اب آنا تو کیا ہوگا
سنے جاؤ جہاں تک سن سکو جب نیند آئے گی
وہیں ہم چھوڑ دیں گے ختم افسانہ تو کیا ہوگا
اندھیری رات زنداں پاؤں میں زنجیر تنہائی
اس عالم میں مر جائے گا دیوانہ تو کیا ہوگا
ابھی تو مطمئن ہو ظلم کا پردہ ہے خاموشی
اگر کچھ منہ سے بول اٹھا یہ دیوانہ تو کیا ہوگا
جناب شیخ ہم تو رند ہیں چلو سلامت ہے
جو تم نے توڑ بھی ڈالا یہ پیمانہ تو کیا ہوگا
یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے
قمرؔ اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا faraz
کیا جانے گریباں ہوگا کہاں دامن سے بڑا ویرانے کا
واعظ نہ سنے گا ساقی کی لالچ ہے اسے پیمانے کا
مجھ سے ہوں اگر ایسی باتیں میں نام نہ لوں میخانے کا
کیا جانے کہے گا کیا آ کر ہے دور یہاں پیمانے کا
اللہ کرے واعظ کو کبھی رستہ نہ ملے میخانے کا
تربت سے لگا کرتا محشر سنتے ہیں کوئی ملتا ہی نہیں
منزل ہے بڑی آبادی کی رستہ ہے بڑا ویرانے کا
جنت میں پیے گا کیونکر اے شیخ یہاں گر مشق نہ کی
اب مانے نہ مانے تیری خوشی ہے کام مرا سمجھانے کا
جی چاہا جہاں پر رو دیا ہے پاؤں میں چبھے اور ٹوٹ گئے
خاروں نے بھی دل میں سوچ لیا ہے کون یہاں دیوانے کا
ہیں تنگ تری مے کش ساقی یہ پڑھ کے نماز آتا ہے یہیں
یا شیخ کی توبہ تڑوا دے یا وقت بدل میخانے کا
ہر صبح کو آہ سر سے دل شاداب جراحت رہتا ہے
گر یوں ہی رہے گی باد سحر یہ پھول نہیں مرجھانے کا
بہکے ہوئے واعظ سے مل کر کیوں بیٹھے ہوئے ہو مے خوارو
گر توڑ دے یہ سب جام و سبو کیا کر لو گے دیوانے کا
احباب یہ تم کہتے ہو بجا وہ بزم عدو میں بیٹھے ہیں
وہ آئیں نہ آئیں ان کی خوشی چرچا تو کرو مر جانے کا
اس وقت کھلے گا حس کو بھی احساس محبت ہے کہ نہیں
جب شمع سر محفل رو کر منہ دیکھے گی پروانے کا
بادل کے اندھیرے میں چھپ کر میخانے میں آ بیٹھا ہے
گر چاندنی ہو جائے گی قمرؔ یہ شیخ نہیں پھر جانے کا
hassan
اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا
سن مآل سوز الفت جب یہ نام آ ہی گیا
شمع آخر جل بجھی پروانہ کام آ ہی گیا
طالب دیدار کا اصرار کام آ ہی گیا
سامنے کوئی بحسن انتظام آ ہی گیا
کوشش منزل سے تو اچھی رہی دیوانگی
چلتے پھرتے ان سے ملنے کا مقام آ ہی گیا
راز الفت مرنے والے نے چھپایا تو بہت
دم نکلتے وقت لب پر ان کا نام آ ہی گیا
کر دیا مشہور پردے میں تجھے زحمت نہ دی
آج کو ہونا ہمارا تیرے کام آ ہی گیا
جب اٹھا ساقی تو واعظ کی نہ کچھ بھی چل سکی
میری قسمت کی طرح گردش میں جام آ ہی گیا
حسن کو بھی عشق کی ضد رکھنی پڑتی ہے کبھی
طور پر موسیٰ سے ملنے کا پیام آ ہی گیا
دیر تک باب حرم پر رک کے اک مجبور عشق
سوئے بت خانہ خدا کا لے کے نام آ ہی گیا
رات بھر مانگی دعا ان کے نہ جانے کی قمرؔ
صبح کا تارہ مگر لے کر پیام آ ہی گیا
majid
اے بت خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیا
اب تو چپ ہو باغ میں نالوں سے محشر ہو گیا
یہ بھی اے بلبل کوئی صیاد کا گھر ہو گیا
التماس قتل پر کہتے ہو فرصت ہی نہیں
اب تمہیں اتنا غرور اللہ اکبر ہو گیا
محفل دشمن میں جو گزری وہ میرے دل سے پوچھ
ہر اشارہ جنبش ابرو کا خنجر ہو گیا
آشیانے کا بتائیں کیا پتہ خانہ بدوش
چار تنکے رکھ لئے جس شاخ پر گھر ہو گیا
حرص تو دیکھو فلک بھی مجھ پہ کرتا ہے ستم
کوئی پوچھے تو بھی کیا ان کے برابر ہو گیا
سوختہ دل میں نہ ملتا تیر کو خوں اے قمرؔ
یہ بھی کچھ مہماں کی قسمت سے میسر ہو گیا
abbas
Qamar Jalalvi Poetry in Urdu
paḌh chuke husn kī tārīḳh ko ham tere ba.ad
ishq aage na baḌhā ek qadam tere ba.ad
Qamar Jalalvi’s Famous Ghazal collection in which sad and love poetry is dearly expressed, include
1. Rashk-e Qamar (رشکِ قمَر)
2. Auj-e Qamar (اَوجِ قمَر)
3. Tajalliyat-e Qamar (تجلّیاتِ قمَر)
4. Gham-e-Javedan (غمِ جاوِداں)
5. Aaye Hain Woh Mazaar Pe
6. Daba Ke Chal Diye Sab Qabr Mein
Qamar Jalalvi lived a life of financial hardships and worked in bicycle shop for many years, he got so skilled at the work that people started calling him Ustaad (Master). By the time he was in 20s his poetries created a buzz far and wide, people started recognizing him as a classical Urdu poet and dubbed him as Ustad Qamar Jalalvi. Even if in poetry do we look, he is no less than a master. Qamar Jalalvi’s Ghazals are the main reason behind his success; he wrote numerous books and is now remembered as one of the finest and Classical Urdu Poet. A strange simplicity, uniqueness and free spirit is felt in his words when his poetries are read, Says he that;
sukūñ-pasand jo dīvāngī mirī hotī
ḳhabar kisī ko na anjām ishq kī hotī
Complete Qamar Jalalvi poetry collection is found on HamariWeb page.