Poetries by ساگر حیدر عباسی
جون کی یاد دلانے آیا ہے کیا جون کی یاد دلانے آیا ہے کیا
حال تو نے یہ اپنا بنایا ہے کیا
اتنی سی عمر میں یہ اداسی تری
درد کوئی یہ دل میں بسایا ہے کیا
عشق مر چکا عدت میں ہوں آج کل
تیرے گھر میں تجھے بھی بٹھایا ہے کیا
پوچھوں کیوں میں ترا حال اے چارہ گر
درد تو نے کبھی یہ گھٹایا ہے کیا
تو نے بھی جون کی طرح ساگر کبھی
بوجھ یہ زندگی کا اٹھایا ہے کیا ساگر حیدر عباسی
حال تو نے یہ اپنا بنایا ہے کیا
اتنی سی عمر میں یہ اداسی تری
درد کوئی یہ دل میں بسایا ہے کیا
عشق مر چکا عدت میں ہوں آج کل
تیرے گھر میں تجھے بھی بٹھایا ہے کیا
پوچھوں کیوں میں ترا حال اے چارہ گر
درد تو نے کبھی یہ گھٹایا ہے کیا
تو نے بھی جون کی طرح ساگر کبھی
بوجھ یہ زندگی کا اٹھایا ہے کیا ساگر حیدر عباسی
ہ اکثر مجھ سے کہتی تھی تمہیں کس بات کا ڈر ہے وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی تمہیں کس بات کا ڈر ہے
جدائی ہے محبت میں تو ملنا بھی مقدر ہے
محبت میں بچھڑنے کی یہ رسمیں توڑ دوں گی میں
وہ کہتی تھی تری خاطر زمانہ چھوڑ دوں گی میں
محبت میں ملن اپنا مقدر میں بناؤں گی
میں نے چاہا ہے تمہیں صرف تمہیں ہی میں چاہوں گی
وفا کی لاج میں میرا جو کچھ ہے سب لٹاؤں گی
وفا فطرت ہے عورت کی زمانے کو بتاوں گی
نہیں ممکن کبھی تیری محبت سے مکر جاؤں
وفا پر حرف آئے اس سے بہتر ہے کہ مر جاؤں
بہت قصے سنے تھے اس لئے چاہت سے ڈرتا تھا
جفا کا خوف تھا لیکن محبت اس سے کرتا تھا
رہا یہ کھیل کچھ دن تک یہ دلکش زندگانی تھی
محبت خوبصورت اور خوب اپنی جوانی تھی
محبت میں بچھڑنے کی روایت توڑنے والی
مری خاطر محبت میں زمانہ چھوڑنے والی
بہت دن تک وفا کے نام پر دھوکہ دیا اس نے
نہ دشمن بھی کرے مجھ سے سلوک ایسا کیا اس نے
دغا مجھ کو دیا اس نے مجھے جو یہ بتاتی تھی
وفا فطرت ہے عورت کی جو ہر لمحہ جتاتی تھی
بھرم سب توڑ کر اس نے محبت چھوڑ کر اس نے
نبھائی رسمِ دنیا مجھ سے منہ یہ موڑ کر اس نے
مٹا کر میری ہستی کو غموں سے چُور کر ڈالا
مجھے الفت کی دنیا سے بہت ہی دور کر ڈالا
بھروسہ اب محبت پر کبھی مجھ سے نہیں ہو گا
وفا فطرت ہے عورت کی مجھے کیسے یقیں ہوگا
جو ٹوٹا دل تو یہ جانا کے کیا ہے ذات عورت کی
مرا دل پوچھتا ہے کیا وفا ہے ذات عورت کی
یوں بھولی رسموں قسموں کو حقیقت کھول دی اس نے
ستمگر تھی محبت میں بھی نفرت گھول دی اس نے
تھی وہ مجبور فطرت سے محبت چھوڑ دی اس نے
وفا فطرت ہے عورت کی روایت توڑ دی اس نے ساگر حیدر عباسی
جدائی ہے محبت میں تو ملنا بھی مقدر ہے
محبت میں بچھڑنے کی یہ رسمیں توڑ دوں گی میں
وہ کہتی تھی تری خاطر زمانہ چھوڑ دوں گی میں
محبت میں ملن اپنا مقدر میں بناؤں گی
میں نے چاہا ہے تمہیں صرف تمہیں ہی میں چاہوں گی
وفا کی لاج میں میرا جو کچھ ہے سب لٹاؤں گی
وفا فطرت ہے عورت کی زمانے کو بتاوں گی
نہیں ممکن کبھی تیری محبت سے مکر جاؤں
وفا پر حرف آئے اس سے بہتر ہے کہ مر جاؤں
بہت قصے سنے تھے اس لئے چاہت سے ڈرتا تھا
جفا کا خوف تھا لیکن محبت اس سے کرتا تھا
رہا یہ کھیل کچھ دن تک یہ دلکش زندگانی تھی
محبت خوبصورت اور خوب اپنی جوانی تھی
محبت میں بچھڑنے کی روایت توڑنے والی
مری خاطر محبت میں زمانہ چھوڑنے والی
بہت دن تک وفا کے نام پر دھوکہ دیا اس نے
نہ دشمن بھی کرے مجھ سے سلوک ایسا کیا اس نے
دغا مجھ کو دیا اس نے مجھے جو یہ بتاتی تھی
وفا فطرت ہے عورت کی جو ہر لمحہ جتاتی تھی
بھرم سب توڑ کر اس نے محبت چھوڑ کر اس نے
نبھائی رسمِ دنیا مجھ سے منہ یہ موڑ کر اس نے
مٹا کر میری ہستی کو غموں سے چُور کر ڈالا
مجھے الفت کی دنیا سے بہت ہی دور کر ڈالا
بھروسہ اب محبت پر کبھی مجھ سے نہیں ہو گا
وفا فطرت ہے عورت کی مجھے کیسے یقیں ہوگا
جو ٹوٹا دل تو یہ جانا کے کیا ہے ذات عورت کی
مرا دل پوچھتا ہے کیا وفا ہے ذات عورت کی
یوں بھولی رسموں قسموں کو حقیقت کھول دی اس نے
ستمگر تھی محبت میں بھی نفرت گھول دی اس نے
تھی وہ مجبور فطرت سے محبت چھوڑ دی اس نے
وفا فطرت ہے عورت کی روایت توڑ دی اس نے ساگر حیدر عباسی
کسی کی حسرتیں دل سے مٹا کر کچھ نہیں ملتا کسی کی حسرتیں دل سے مٹا کر کچھ نہیں ملتا
کسی کا دل مری جاناں دکھا کر کچھ نہیں ملتا
جہاں آندھی کا چرچہ ہو جہاں بارش کی رم جھم ہو
وہاں پر مٹی کے یہ گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا
یہاں پر ساتھ مطلب کے بنا کوئی نہیں دیتا
امیدیں بھی یہ لوگوں سے لگا کر کچھ نہیں ملتا
نہیں ہے فائدہ کچھ گر مقدر میں اندھیرا ہو
تو راہوں میں یہاں شمعیں جلا کر کچھ نہیں ملتا
بھلا تم دوش دو گے بھی کسے ساگر خطاوں کا
یہاں لب پر گلے شکوے سجا کر کچھ نہیں ملتا
تمہاری آنکھیں برسیں گی تڑپتے تم رہ جاو گے
یہاں بے درد لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا ساگر حیدر عباسی
کسی کا دل مری جاناں دکھا کر کچھ نہیں ملتا
جہاں آندھی کا چرچہ ہو جہاں بارش کی رم جھم ہو
وہاں پر مٹی کے یہ گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا
یہاں پر ساتھ مطلب کے بنا کوئی نہیں دیتا
امیدیں بھی یہ لوگوں سے لگا کر کچھ نہیں ملتا
نہیں ہے فائدہ کچھ گر مقدر میں اندھیرا ہو
تو راہوں میں یہاں شمعیں جلا کر کچھ نہیں ملتا
بھلا تم دوش دو گے بھی کسے ساگر خطاوں کا
یہاں لب پر گلے شکوے سجا کر کچھ نہیں ملتا
تمہاری آنکھیں برسیں گی تڑپتے تم رہ جاو گے
یہاں بے درد لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا ساگر حیدر عباسی