Poetries by Samia Bashir
نگاہ عشق میں دیکھا مقام آگہی میں نے نگاہ عشق میں دیکھا مقام آگہی میں نے
وفائے عشق سے حاصل کیا کام بندگی میں نے
نا کامی میں بلندی تھی بلندی میں بھی پستی تھی
اسی کشمکش میں رکھا تھام زندگی میں نے
بغاوت بھی عقیدت بھی عداوت بھی عنائیت بھی
لمحہ بھر میں بدلتے دیکھا پیعام دل لگی میں نے
عقابوں کی خصلت میں نگاہوں کے طلسموں میں
ہے دیکھا موجزن اس میں مہم تیرگی میں نے
Samia Bashir
وفائے عشق سے حاصل کیا کام بندگی میں نے
نا کامی میں بلندی تھی بلندی میں بھی پستی تھی
اسی کشمکش میں رکھا تھام زندگی میں نے
بغاوت بھی عقیدت بھی عداوت بھی عنائیت بھی
لمحہ بھر میں بدلتے دیکھا پیعام دل لگی میں نے
عقابوں کی خصلت میں نگاہوں کے طلسموں میں
ہے دیکھا موجزن اس میں مہم تیرگی میں نے
Samia Bashir
ان کا جب لہجہ برف دیکھتے ہیں ان کا جب لہجہ برف دیکھتے ہیں
چلو ہم بھی اپنا ظرف دیکھتے ہیں
حقیقت سے نظریں بچائیں تو کیسے
مصیبت میں چاروں طرف دیکھتے ہیں
وہ لفظوں کی گتھیاسلجھانے میں مصروف
ادھر ہم بھی کرشمے حرف دیکھتے ہیں
وہ ناؤ نہ ڈوبے جو صحرا میں ہو
ہم تو ایسے ہی معجزے صرف دیکھتے ہیں
نا قابل کوئی ہے نہ لائق کوئی ہے
بس اس کی عطا کا شرف دیکھتے ہیں
Samia Bashir
چلو ہم بھی اپنا ظرف دیکھتے ہیں
حقیقت سے نظریں بچائیں تو کیسے
مصیبت میں چاروں طرف دیکھتے ہیں
وہ لفظوں کی گتھیاسلجھانے میں مصروف
ادھر ہم بھی کرشمے حرف دیکھتے ہیں
وہ ناؤ نہ ڈوبے جو صحرا میں ہو
ہم تو ایسے ہی معجزے صرف دیکھتے ہیں
نا قابل کوئی ہے نہ لائق کوئی ہے
بس اس کی عطا کا شرف دیکھتے ہیں
Samia Bashir
کو ئی راہور نہ کوئی رہبر نکلا کو ئی راہور نہ کوئی رہبر نکلا
چلے قافلہ لے کر بےسمت سفر نکلا
جو اپنی ذات کا محور تھااب نہ رہا
جیسے ساحل بنا ادھورا سمندر نکلا
یہ خود پرستی تھی یا حق پرستی تھی
جب خود تراشا تو وہی عیب و ہنر نکلا
میرے واقعات میں حالات کا تلاطم تھا
ورنہ ذرخیز تھا شجر وہ جو بنجر نکلا
یہ تو معنی کا تفاوت ھے ورنہ سمیعہ
لفظ تو ایک تھا فرق بس زیر و زبر نکلا Samia Bashir
چلے قافلہ لے کر بےسمت سفر نکلا
جو اپنی ذات کا محور تھااب نہ رہا
جیسے ساحل بنا ادھورا سمندر نکلا
یہ خود پرستی تھی یا حق پرستی تھی
جب خود تراشا تو وہی عیب و ہنر نکلا
میرے واقعات میں حالات کا تلاطم تھا
ورنہ ذرخیز تھا شجر وہ جو بنجر نکلا
یہ تو معنی کا تفاوت ھے ورنہ سمیعہ
لفظ تو ایک تھا فرق بس زیر و زبر نکلا Samia Bashir
کبھی تدبیر سے کام لینا کبھی تقدیر سے ہار آئے کبھی تدبیر سے کام لینا کبھی تقدیر سے ہار آئے
کبھی پھولوں میں بس گئے ہم کبھی حصے میں خار آئے
کیا تماشا بقائے دنیا کیا اس کا شمار کرنا
کبھی دریا برد ہوئے ہم کبھی ساحل کے پار آئے
بیان ہو چکا یہ محفل روز و شب کا منظر
کبھی صدیوں میں گم گئے ہم کبھی صدیاں سنوار آئے
کیا اپنا حساب کرنا خود بے مہر ہو چکے ہم
کبھی اپنے گماں میں تھے ہم کبھی اس کے حصار آئے
اس کی چمک میں ایسی کشش تھی سمیعہ
کبھی تو در دیوار تھے ہم کبھی سایہ دیوار آئے Samia Bashir
کبھی پھولوں میں بس گئے ہم کبھی حصے میں خار آئے
کیا تماشا بقائے دنیا کیا اس کا شمار کرنا
کبھی دریا برد ہوئے ہم کبھی ساحل کے پار آئے
بیان ہو چکا یہ محفل روز و شب کا منظر
کبھی صدیوں میں گم گئے ہم کبھی صدیاں سنوار آئے
کیا اپنا حساب کرنا خود بے مہر ہو چکے ہم
کبھی اپنے گماں میں تھے ہم کبھی اس کے حصار آئے
اس کی چمک میں ایسی کشش تھی سمیعہ
کبھی تو در دیوار تھے ہم کبھی سایہ دیوار آئے Samia Bashir
ہمارے حوصلے نے عجب ہی کام کر ڈالا ہمارے حوصلے نے عجب ہی کام کر ڈالا
جہاں آ غاز ہونا تھا وہیں انجام کر ڈالا
ذرہ ذرہ جو بکھرے مٹی میں سما جا ئیں
قدرت کے کرشمے نے کیسا انتظام کر ڈالا
ہماری فطرت میں کیسی سرکشی رکھی
ابھی صبح ہونا تھی اسی کو شام کر ڈالا
خدا نے تقدیر کے ہا تھوں میں کیسا بدل رکھا
ہمیں ترشیدم خود ہی شکستم کر ڈالا
Samia Bashir
جہاں آ غاز ہونا تھا وہیں انجام کر ڈالا
ذرہ ذرہ جو بکھرے مٹی میں سما جا ئیں
قدرت کے کرشمے نے کیسا انتظام کر ڈالا
ہماری فطرت میں کیسی سرکشی رکھی
ابھی صبح ہونا تھی اسی کو شام کر ڈالا
خدا نے تقدیر کے ہا تھوں میں کیسا بدل رکھا
ہمیں ترشیدم خود ہی شکستم کر ڈالا
Samia Bashir
اپنی اداؤں میں ایسا اثر ہونے دو اپنی اداؤں میں ایسا اثر ہونے دو
چاند کے پہلو میں سحر ہونے دو
دامن میں کیا بھید چھپا رکھا ہے
کچھ زمانے کو بھی خبر ہونے دو
وابستہ ہوئے یوں فکر زندگانی سے
بپا ہم پہ بھی عذاب قہر ہونے دو
کیا رکھا ہے مجسمہ سازی میں
چلو ہم کو بھی قائل ہنر ہونے دو
نہ سیکھاؤ انداز رہبری مجھ کو
پتھر ہوں تو مجھے پتھر ہی ہونے دو Samia Bashir
چاند کے پہلو میں سحر ہونے دو
دامن میں کیا بھید چھپا رکھا ہے
کچھ زمانے کو بھی خبر ہونے دو
وابستہ ہوئے یوں فکر زندگانی سے
بپا ہم پہ بھی عذاب قہر ہونے دو
کیا رکھا ہے مجسمہ سازی میں
چلو ہم کو بھی قائل ہنر ہونے دو
نہ سیکھاؤ انداز رہبری مجھ کو
پتھر ہوں تو مجھے پتھر ہی ہونے دو Samia Bashir
عورت میں آس کی اک ڈوری ہوں
جس کے ٹوٹنے میں دیر نہیں ہوتی
میری آنکھوں میں نمی ہے وہ
جو بارش کی بوند میں نہیں ہوتی
میں آس کی اک ڈوری ہوں
زندگی رشتوں کی ہوں
روشنی جذبوں کی ہوں
لمحہ لمحہ بدلتی ہوں
بندھنوں میں ڈھلتی ہوں
ایسی وہ دوا ہوں جو
اپنے لیے نہیں ہوتی
میں آس کی اک ڈوری ہوں
جس کے ٹوٹنے میں دیر نہیں ہوتی
صحرا صحرا چلتی ہوں
کوہ دامن میں ڈھلتی ہوں
خود ہی پاؤں شل کرتی ہوں
اس چھاؤں کی مانند ہوں جو
خود اپنے لیے نہیں ہوتی
میں آس کی اک ڈوری ہوں
جس کے ٹوٹنے میں دیر نہیں ہوتی Samia Bashir
جس کے ٹوٹنے میں دیر نہیں ہوتی
میری آنکھوں میں نمی ہے وہ
جو بارش کی بوند میں نہیں ہوتی
میں آس کی اک ڈوری ہوں
زندگی رشتوں کی ہوں
روشنی جذبوں کی ہوں
لمحہ لمحہ بدلتی ہوں
بندھنوں میں ڈھلتی ہوں
ایسی وہ دوا ہوں جو
اپنے لیے نہیں ہوتی
میں آس کی اک ڈوری ہوں
جس کے ٹوٹنے میں دیر نہیں ہوتی
صحرا صحرا چلتی ہوں
کوہ دامن میں ڈھلتی ہوں
خود ہی پاؤں شل کرتی ہوں
اس چھاؤں کی مانند ہوں جو
خود اپنے لیے نہیں ہوتی
میں آس کی اک ڈوری ہوں
جس کے ٹوٹنے میں دیر نہیں ہوتی Samia Bashir
میں اسکے روبرو نہیں میرے روبرو ہے کیا میں اسکے روبرو نہیں میرے روبرو ہے کیا
میں اسکی غرور آرزو میری آرزو ہے کیا
میں حصار میں نہیں کسی شمار میں نہیں
میں اسکی غرور جستجو میری جستجو ہے کیا
میں حساب میں نہں کسی کتاب میں نہیں
میں اسکی غرور آبرو میری آبرو ہے کیا
میں کلا م میں نہیں کسی نام میں نہیں
میں اسکی غرور گفتگو میری گفتگو ہے کیا Samia bashir
میں اسکی غرور آرزو میری آرزو ہے کیا
میں حصار میں نہیں کسی شمار میں نہیں
میں اسکی غرور جستجو میری جستجو ہے کیا
میں حساب میں نہں کسی کتاب میں نہیں
میں اسکی غرور آبرو میری آبرو ہے کیا
میں کلا م میں نہیں کسی نام میں نہیں
میں اسکی غرور گفتگو میری گفتگو ہے کیا Samia bashir
زمانے کو رنگ نیا دیتا ہے زمانے کو رنگ نیا دیتا ہے
ہر فکر کو انداز سیکھا دیتا ہے
فرق تو کشمکش میں ہے ورنہ
بے بحر کو بھی با بحر بنا دیتا ہے
اک تسلسل تو بپا ہے ہر کام میں
سمندر ہو تو ساحل کو بھلا دیتا ہے
اک کرشمہ ہے شاید تخلیق کا
پتھر ہو چٹاں کو ہلا دیتا ہے
انساں کی فطرت تو رہی ہے ازل سے
جھکتا نہیں پر خود کو مٹا دیتا ہے Samia bashir
ہر فکر کو انداز سیکھا دیتا ہے
فرق تو کشمکش میں ہے ورنہ
بے بحر کو بھی با بحر بنا دیتا ہے
اک تسلسل تو بپا ہے ہر کام میں
سمندر ہو تو ساحل کو بھلا دیتا ہے
اک کرشمہ ہے شاید تخلیق کا
پتھر ہو چٹاں کو ہلا دیتا ہے
انساں کی فطرت تو رہی ہے ازل سے
جھکتا نہیں پر خود کو مٹا دیتا ہے Samia bashir
چشم نم کی طرح اگر تو التجا ہو جا چشم نم کی طرح اگر تو التجا ہو جا
اس سے بہتر ہے یہی, کہ فنا ہو جا
عہد طلسم کی بھی ہو جائے خود کشی
جسے توڑ سکے نہ کوئی ایسی انا ہو جا
وہی قابل ہے جو مثل عروج کائنات ہوا
تو دامن خاک سے اٹھ کوئی انتہا ہو جا
جب فکر صیاد نے آ, گھیر ا ہو
ایسا عمل اپنا, کہ معجزہ ہو جا
ہم نے جوش جنوں یہی سیکھا ہے
جس سے بھٹکا ہے اسی سے آشنا ہو جا Samia Bashir
اس سے بہتر ہے یہی, کہ فنا ہو جا
عہد طلسم کی بھی ہو جائے خود کشی
جسے توڑ سکے نہ کوئی ایسی انا ہو جا
وہی قابل ہے جو مثل عروج کائنات ہوا
تو دامن خاک سے اٹھ کوئی انتہا ہو جا
جب فکر صیاد نے آ, گھیر ا ہو
ایسا عمل اپنا, کہ معجزہ ہو جا
ہم نے جوش جنوں یہی سیکھا ہے
جس سے بھٹکا ہے اسی سے آشنا ہو جا Samia Bashir
مانا کہ ہم میں کوئی ایسی ادا نہیں مانا کہ ہم میں کوئی ایسی ادا نہیں
کمال فن بھی کوئی آتا نظر نہیں
دن روشنی رات تاریکی سے پنہا
دامن شب میں تو کوئی اثر نہیں
وہ کیا قابل ستا ئش ہو
جس کام میں بسا کوئی ہنر نہیں
دشت امکاں میں پھرتے ہیں وہی لوگ
جن کو اپنی منزل کی کوئی خبر نہیں
ہے صاحب امروز جسے وہ بخشے
ورنہ اس جہاں میں کوئی امر نہیں Samia Bashir
کمال فن بھی کوئی آتا نظر نہیں
دن روشنی رات تاریکی سے پنہا
دامن شب میں تو کوئی اثر نہیں
وہ کیا قابل ستا ئش ہو
جس کام میں بسا کوئی ہنر نہیں
دشت امکاں میں پھرتے ہیں وہی لوگ
جن کو اپنی منزل کی کوئی خبر نہیں
ہے صاحب امروز جسے وہ بخشے
ورنہ اس جہاں میں کوئی امر نہیں Samia Bashir
مہ و سال میں بھی کوئی پیغام رکھا ہے مہ و سال میں بھی کوئی پیغام رکھا ہے
ہر پل میں تو صدیوں کا نظام رکھا ہے
یہ تپش ہی ہے جو جلا رہی ہے آگ کو
اک شرر پہ نہیں رواں یہ کام رکھا ہے
شب و روز میں آتی ہے نظر تبدلی جہاں
پیغام ہے وصل کا, امتحاں کا نام رکھا ہے
کیا ہے پوشدہ اس زمین و زماں
زیست نے تو فاصلوں کو تھام رکھا ہے
کیوں تمنائیں رقص کرتی ہیں سمیعہ
بس کچھ نہیں دلوں کو بے لگام رکھا ہے Samia Bashir
ہر پل میں تو صدیوں کا نظام رکھا ہے
یہ تپش ہی ہے جو جلا رہی ہے آگ کو
اک شرر پہ نہیں رواں یہ کام رکھا ہے
شب و روز میں آتی ہے نظر تبدلی جہاں
پیغام ہے وصل کا, امتحاں کا نام رکھا ہے
کیا ہے پوشدہ اس زمین و زماں
زیست نے تو فاصلوں کو تھام رکھا ہے
کیوں تمنائیں رقص کرتی ہیں سمیعہ
بس کچھ نہیں دلوں کو بے لگام رکھا ہے Samia Bashir