Poetries by Sayed Shahid Jilani
یہ کیسا موسم ہے یہ کیسا موسم ہے؟
یہ کیسا موسم ہے جس میں تیری
مہک نمایاں ہے،
جیسے پھولوں نے عطر میں خود
نہا لیا ہے،
تمام پتوں نے جیسے تیری نگاہ پا کر،
لباس خود پہ سجا لیا ہے۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے، جو ہوائوں کا
نغمہ خواں ہے،
ہوائیں ایسی جو تیرے رُخ پہ
بکھرتی زلفوں،
تیری ادائوں پہ مرتی زلفوں،
تیری نگاہوں پہ ڈھلتی زلفوں،
کلام تیرے چمکتے عارِض سے
کرتی زلفوں
کو چھیڑتی ہیں۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے،
جس کی خوشبو نشہ ہو جیسے،
نشہ وہی جو تمہارے پہلو میں
چند لمحے بِتانے سے
ہوگیا تھا مجھکو،
نشہ وہی جو تیری نگاہوں کا جام پی کر،
تیرے تصور کی گہری چھائوں میں
تھوڑا جی کر
ہوا تھا مجھکو۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔
یہ کیسا موسم ہے،
جو محبت کا میزباں ہے،
جو آشنائی، جو باوفائی،
جو میری حسرت کا آئینہ ہے،
جو خواہشوں کی صدائیں لیکر،
حکایتوں کی گھٹائیں لیکر،
رفاقتوں کی فضائیں لیکر،
مزاج سارے بدل رہا ہے۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے،
جس میں اِس بار تیری یادوں کے گیت سارے
سنائی دیتے ہیں،
جس میں تیرے تمام وعدے، سبھی اِرادے،
وصال و قربت میں جو کیئے تھے قرار سارے،
نہیں مکمل، ابھی تلک ہیں، فرار سارے۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے،
جو کبھی تو مسرّتوں کا پیامبر تھا،
جو اب نہیں ہے،
جو میرے سارے دکھوں کا درماں،
جو میرے بیتے دنوں کا ارماں،
جو میرے لمحوں میں بیتے برسوں کی ساعتوں کا
تھا ایک دریاء،
جو اب نہیں ہے
جو اب نہیں ہے
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
Sayed Shahid Jilani
یہ کیسا موسم ہے جس میں تیری
مہک نمایاں ہے،
جیسے پھولوں نے عطر میں خود
نہا لیا ہے،
تمام پتوں نے جیسے تیری نگاہ پا کر،
لباس خود پہ سجا لیا ہے۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے، جو ہوائوں کا
نغمہ خواں ہے،
ہوائیں ایسی جو تیرے رُخ پہ
بکھرتی زلفوں،
تیری ادائوں پہ مرتی زلفوں،
تیری نگاہوں پہ ڈھلتی زلفوں،
کلام تیرے چمکتے عارِض سے
کرتی زلفوں
کو چھیڑتی ہیں۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے،
جس کی خوشبو نشہ ہو جیسے،
نشہ وہی جو تمہارے پہلو میں
چند لمحے بِتانے سے
ہوگیا تھا مجھکو،
نشہ وہی جو تیری نگاہوں کا جام پی کر،
تیرے تصور کی گہری چھائوں میں
تھوڑا جی کر
ہوا تھا مجھکو۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔
یہ کیسا موسم ہے،
جو محبت کا میزباں ہے،
جو آشنائی، جو باوفائی،
جو میری حسرت کا آئینہ ہے،
جو خواہشوں کی صدائیں لیکر،
حکایتوں کی گھٹائیں لیکر،
رفاقتوں کی فضائیں لیکر،
مزاج سارے بدل رہا ہے۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے،
جس میں اِس بار تیری یادوں کے گیت سارے
سنائی دیتے ہیں،
جس میں تیرے تمام وعدے، سبھی اِرادے،
وصال و قربت میں جو کیئے تھے قرار سارے،
نہیں مکمل، ابھی تلک ہیں، فرار سارے۔
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
یہ کیسا موسم ہے،
جو کبھی تو مسرّتوں کا پیامبر تھا،
جو اب نہیں ہے،
جو میرے سارے دکھوں کا درماں،
جو میرے بیتے دنوں کا ارماں،
جو میرے لمحوں میں بیتے برسوں کی ساعتوں کا
تھا ایک دریاء،
جو اب نہیں ہے
جو اب نہیں ہے
یہ کیسا موسم ہے۔۔۔؟
Sayed Shahid Jilani
شکایت یہ کس مقام پہ آئی ہے زندگی اپنی
رفیق رہ گۓ اپنے اور نہ خو شی اپنی
کیا پیوست جنہیں دل میں آرزو کی طرح
اُنہی سے بارھا گھایل ہوئی خودی اپنی
نہ پرکھنے کا ہُنر ہے نہ تجارت کا فہم
ہمیں تو راس نہ آئی یہ سادگی اپنی
لکھوں تو کیسے مراسِم پہ اِہلِ درد کہ اب
نہیں اُس موج پہ اب کہ ادآئگی اپنی
بزمِ یاراں میں وہ شیِریِں وہ سُخن اب نہ رہا
خِزاں میں جیسے اُجڑ جاۓ ہر کلی اپنی
Sayed Shahid Jilani
رفیق رہ گۓ اپنے اور نہ خو شی اپنی
کیا پیوست جنہیں دل میں آرزو کی طرح
اُنہی سے بارھا گھایل ہوئی خودی اپنی
نہ پرکھنے کا ہُنر ہے نہ تجارت کا فہم
ہمیں تو راس نہ آئی یہ سادگی اپنی
لکھوں تو کیسے مراسِم پہ اِہلِ درد کہ اب
نہیں اُس موج پہ اب کہ ادآئگی اپنی
بزمِ یاراں میں وہ شیِریِں وہ سُخن اب نہ رہا
خِزاں میں جیسے اُجڑ جاۓ ہر کلی اپنی
Sayed Shahid Jilani
گیا زمانہ شناسائی کا گیا زمانہ شناسائی کا، محبت کا
خلوص تھا جو نگاہوں سے عیاں ھوتا تھا
زباں سے آتی تھی اپنائیت کی خوشبو بھی
نہ ماتحت کوئی رشتہ غرض کا ھوتا تھا
تھا بہت قیمتی اپنوں کا ایک آنسو بھی
رویے جلد ہی لوگوں کے کیوں بدلتے ہیں
کہ جیسے بادشاہ پیرہن بدلتے ہیں
گیا زمانہ شناسائی کا، محبت کا
عظیم تر جو زمانے تھے، فسانے ٹھرے
کہ جب دلوں میں رفاقت تھی اور محبت تھی
لگے ہیں اِھلِ وفا کی زباں پہ وہ پہرے
کہ جن میں کل کوئی حکمت تھی نہ صداقت تھی
اگر ضمیر آج کا کوئی انساں ھوتا
پشیماں ھوتا دیکھ کر جو وہ انساں ہوتا
گیا زمانہ شناسائی کا، محبت کا Sayed Shahid Jilani
خلوص تھا جو نگاہوں سے عیاں ھوتا تھا
زباں سے آتی تھی اپنائیت کی خوشبو بھی
نہ ماتحت کوئی رشتہ غرض کا ھوتا تھا
تھا بہت قیمتی اپنوں کا ایک آنسو بھی
رویے جلد ہی لوگوں کے کیوں بدلتے ہیں
کہ جیسے بادشاہ پیرہن بدلتے ہیں
گیا زمانہ شناسائی کا، محبت کا
عظیم تر جو زمانے تھے، فسانے ٹھرے
کہ جب دلوں میں رفاقت تھی اور محبت تھی
لگے ہیں اِھلِ وفا کی زباں پہ وہ پہرے
کہ جن میں کل کوئی حکمت تھی نہ صداقت تھی
اگر ضمیر آج کا کوئی انساں ھوتا
پشیماں ھوتا دیکھ کر جو وہ انساں ہوتا
گیا زمانہ شناسائی کا، محبت کا Sayed Shahid Jilani
تلاشِ یار میں یہ عجیب قصہ ہے عمر کا نہ سنا سکیں نہ چھپا سکیں
بنی زندگی ہے وہ کارواں جو نہ پا سکیں نہ نبھا سکیں
کہی روشنی کی جو بات تھی وہ جو بات راہِ نجات تھی
ہے وہ رومؔی رازِ نہاں ابھی جو سمجھ سکیں نہ گنوا سکیں
کی نصیحتوں کے سُپرد ہیں سبھی محنتیں اور اذیتیں
وہ نصیحتیں ہیں اَثاث جو نہ بھُلا سکیں نہ بِتا سکیں
ہے محال ملنا وہ راستہ جو خُودی سے کردے آراستہ
ملے ایسا رہبر و رہنما جسے چُھو سکیں، نہ چھُڑا سکیں
Sayed Shahid Jilani
بنی زندگی ہے وہ کارواں جو نہ پا سکیں نہ نبھا سکیں
کہی روشنی کی جو بات تھی وہ جو بات راہِ نجات تھی
ہے وہ رومؔی رازِ نہاں ابھی جو سمجھ سکیں نہ گنوا سکیں
کی نصیحتوں کے سُپرد ہیں سبھی محنتیں اور اذیتیں
وہ نصیحتیں ہیں اَثاث جو نہ بھُلا سکیں نہ بِتا سکیں
ہے محال ملنا وہ راستہ جو خُودی سے کردے آراستہ
ملے ایسا رہبر و رہنما جسے چُھو سکیں، نہ چھُڑا سکیں
Sayed Shahid Jilani