Shahzad Ahmed Poetry, Ghazals & Shayari
Shahzad Ahmed Poetry allows readers to express their inner feelings with the help of beautiful poetry. Shahzad Ahmed shayari and ghazals is popular among people who love to read good poems. You can read 2 and 4 lines Poetry and download Shahzad Ahmed poetry images can easily share it with your loved ones including your friends and family members. Up till, several books have been written on Shahzad Ahmed Shayari. Urdu Ghazal readers have their own choice or preference and here you can read Shahzad Ahmed poetry in Urdu & English from different categories.
- LATEST POETRY
- اردو
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا
غور سے دیکھتا جا راہ میں آتا کیا ہے
زخم دل جرم نہیں توڑ بھی دے مہر سکوت
جو تجھے جانتے ہیں ان سے چھپاتا کیا ہے
سفر شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں ترے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چراتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے
چاندنی دیکھ کے چہرے کو چھپانے والے
دھوپ میں بیٹھ کے اب بال سکھاتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابر کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے
تیرا احساس ذرا سا تری ہستی پایاب
تو سمندر کی طرح شور مچاتا کیا ہے
تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا کیا ہے
تیری آواز کا جادو نہ چلے گا ان پر
جاگنے والوں کو شہزادؔ جگاتا کیا ہے Osama
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا
غور سے دیکھتا جا راہ میں آتا کیا ہے
زخم دل جرم نہیں توڑ بھی دے مہر سکوت
جو تجھے جانتے ہیں ان سے چھپاتا کیا ہے
سفر شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں ترے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چراتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے
چاندنی دیکھ کے چہرے کو چھپانے والے
دھوپ میں بیٹھ کے اب بال سکھاتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابر کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے
تیرا احساس ذرا سا تری ہستی پایاب
تو سمندر کی طرح شور مچاتا کیا ہے
تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا کیا ہے
تیری آواز کا جادو نہ چلے گا ان پر
جاگنے والوں کو شہزادؔ جگاتا کیا ہے Osama
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا
گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا
تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا
رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا
ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا
شہزادؔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا Babar
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا
گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا
تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا
رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا
ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا
شہزادؔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا Babar