✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Shakira
Search
Add Poetry
Poetries by Shakira
محبت کا راز
میں نے محبت میں جینے کا مفہوم پا لیا
ہر روٹھے دل کو ہنسی دے کے اپنا بنا لیا
جو رو کے بھی نہ مٹا سکا دل کا درد کوئی
میں نے ہنسی کی اوٹ میں غم کو چھپا لیا
کسی کی آنکھ کا آنسو، کسی کا دردِ جاں
میں نے ہر ایک دکھ کو دل سے لگا لیا
وہ لوگ جو خالی پلکوں کے سائے میں جیے
میں نے انہیں اپنا خواب بنا کے جگا لیا
زمانہ کہتا رہا،کیوں جلتی ہے شاکرہ کسی کیلئے؟
میں نے ہر ایک چراغِ وفا خود جلا لیا
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
حجاب
حجاب میں چھپی ہے دنیا کی حقیقت کہیں
پوشیدہ ہے جو، وہی ہے اصل معرفت کہیں
بے نقاب ہو جو چہرہ، اُس میں چُھپا ہے دھوکہ
عقل کو سمجھ لے وہی، جو پڑھے رازِ حقیقت کہیں
روح کا ہے یہ جسم ،حجابِ دنیا کے سنگ
جو سمجھے دل کی بات، بنے وہی رہبرِ ہدایت کہیں
حجابوں کے پیچھے چھپی ہے وہ ذاتِ برتر
جو نظر آتی ہے کبھی، چمکتی ہوئی تابندگی کہیں
عالمِ ظاہری میں بھی چھپا ہے عالمِ باطن
علم کی اصل روشنی، ہے پردہ داری کے ورق میں کہیں
یہ جو نقاب اوڑھ کے سچ کو چھپایا گیا ہے،
کبھی وہ پردے بھی چاک ہوں، یہی ہے قیامت کہیں
قلم اگر بغاوت کرے، تو پردے لرزتے ہیں،
حجاب کی تحریر میں ہے صداۓ قیادت کہیں
یہ حجاب صرف عورت کا مقدر ہی نہیں،
ہر سوال، ہر خیال پہ ہے کوئی شریعت کہیں
پردے اُٹھیں تو جاگے ضمیر کے آئینے، شاکرہ
تبھی بنے گا آدم، ورنہ ہے محض حکایت کہیں
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
پنجرے سے باہر
ہمیں دے دو تھوڑی آزادی کا دِیا،
جو پنجرے میں ہیں، انہیں توڑنے دے
جو نہ سمجھ سکے کبھی دل کی بات،
ان کو چھوڑ دو، بس کچھ سننے دے
محبت کے نام پہ جو روکے راستہ،
ان کے قید میں ہمیں بند ہونے دے
دوستی میں اگر وزن بوجھ بن جائے،
تو معاف کر کے سب کو جانے دے
خوف کی زنجیر جو ہاتھوں میں جکڑے،
ہم سب کو مل کے اُسے توڑنے دے
نہ رکاوٹوں میں جینا ہے، نہ ٹھہرنا،
نئی صبح کے خوابوں کو جنم دینے دے
جو درد ہے ابھی چھپا دل میں کہیں،
اس کو کُچھ بولنے اور کچھ سننے دے
پنجرے سے نکل کے جو ہوا چلے شاکرہ،
اس کی صدا کو دل میں بسانے لینے دے
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
بسترِ گُل
چاندنی شب میں دِل کی بے خودی کا حال دیکھ
اِک نگاہ میں مستی و تابندگی کا حال دیکھ
گُلبدن کی نرم آغوشی میں کیف کی لَہر
سوز و سازِ دِل کی بے چارگی کا حال دیکھ
آنکھوں آنکھوں میں محبت کا اشارہ ہو چلا
خامشی میں بھی نظر کی چپ لَبی کا حال دیکھ
کیا عجب دیدار کا لمحہ، کہ جب خمار میں
اِک بدن کے خَم میں چُھپی عاشقی کا حال دیکھ
وصل کی ساعت میں گُل بکھرے، خوشبوؤں کا راج
سانسوں میں چھُپی ہوئی شعلہ دِہی کا حال دیکھ
بے زبانی میں بھی اک رقصِ لذّت کی نمود
خامشی میں بھی عیاں راز و نیاز کی بات دیکھ
اُس کے لب پر میری چاہت کا پیامِ دلنشیں
میرے دل میں اُس کی خوشبو کی بسی یاد دیکھ
چند لمحے وصل کے، باقی فقط خاموشیاں شاکرہ
دل کی دنیا، یاد کی محفل جلی، پھر چاندنی کا حال دیکھ
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
نازک چراغِ زیست
دل کی زمیں پہ وقت کا نقشِ خزاں بھی ہے
اک نازک آئینہ ہوں، مگر آسماں بھی ہے
عشقِ حقیقی ہو کہ ہو دل کا فسانہ بس
اک درد ایسا ہے جو ہر دل میں جاں بھی ہے
یہ شہر تیرے لوگ، تری رسم و راہ ہے
گاؤں میں ہوتا تو فقط تُو مکاں بھی ہے
اک دل، اک نگاہ، اک ارادہ ہو بلند
یہی خزاں بھی ہو، یہی گلستاں بھی ہے
مزید کیا ہو نیلام عشق کی گلیوں میں
قیمت تری ہو، نام میرا نشاں بھی ہے
کچھ مجبوریاں ہیں، کچھ فکریں حیات کی
ورنہ یہ عشق فقط اک زیاں بھی ہے
زیست برائے زیست نہ ہو، بیداری ہو
ورنہ بدن تو ہر سو یہاں بھی ہے، وہاں بھی ہے
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
لمحۂ حال کا پیغام
وقت کا سب سے بڑا راز ہے "اب"
کل کی اُمید نہ رکھ، کر عمل کا سبب
جو سوال اٹھے دل کے آئینے میں
وہی ہے چراغ تری سینے میں
سوچ، وہ مشعل ہے راہوں کی
یہی ہے کُلیاتِ شاہوں کی
تُو ہی ہے مرکزِ کارواں
اپنی پہچان میں ہے جہان
نہ کر آج کا لمحہ رائگاں
یہی ہے تری زیست کا کارواں
سوچ، سمجھ، پھر قدم بڑھا
اپنی ذات سے عشق کی ابتدا
جو خود کو چاہے، وہی معتبر
دوسروں سے بھی کر لے پھر دل بسر
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
بدن سے باطن تک
خودی کو بیچ کے پایا بدن کا تاج میں نے
مگر سکوں نہ ملا، چاہ تھی جو آج میں نے
نظر کو جلوہ ملا، دل کو مگر جلا پایا
نگاہِ خلق کا صدقہ لیا، سناج میں نے
حسن کو آئینہ سمجھا، نفس کو راہنما
خودی کو بیچ کے چمکا ہر اک سماج میں نے
خدا سے دور رہی، عکس کو رب جانا
چھپا کے سچ کو رکھا ہر نئے رواج میں نے
جہاں کی شہرت و دولت پہ فخر کرتی رہی
بکھر گئی تھی مگر جب کھُلا مزاج میں نے
لبوں پہ ذکر تھا میرا، بدن تھا خاص تمہید
مگر سکون نہ ملا لاکھ کی معراج میں نے
غرور، فتنہ، ہوس — یہ میرے سنگ رہے
کیا خاک پا سکا دل میں وہ معراج میں نے؟
اک اشک گِرا تو بند در وا ہوئے
خُدا کو پایا جب توڑا ہر احتجاج میں نے
اب آئینہ نہیں، دل ہے مرا معیارِ جمال
بدن سے باطن تلک دیکھا نیا سماج میں نے
شاکرہ اب نئی صبحوں کی جستجو میں ہے
خودی کی روشنی میں بدلا ہر سماج میں نے
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
میرِ وجود
نقاب میں نہ چھپاؤ مری خودی کا جمال
میں آئینہ ہوں، مری آنکھ ہے کمال و وصال
نہ صرف حسن کی تصویر ہوں، نہ جسم کی بات
میں اک خیالِ جلیل، اک زمانہ سوال
میں آدمی کی طرح ہوں خدا سے جُڑی ہوئی
مری وفا میں بھی پنہاں ہے ذاتِ ذوالجلال
میں کوکھ میں بھی زمانوں کی رہبَری رکھوں
مری دعاؤں سے نکلیں جہاد و انقلاب کی تال
خموشیوں میں مری شورِ کائنات بھی ہے
مرے سکوت میں چھپتے ہیں صد ہزار خیال
مجھے نہ تول ترنگوں میں، زلف و چشم سے تُو
میں نورِ فہم ہوں، جذبوں کا اک نیا زوال
اگر میں عشق کروں، تو وہ بھی خالص ہو
بدن کی سرحد سے آگے ہو جذب کی جال
میں شاکرہ بھی ہوں، نندنی بھی ہوں، تاج بھی
میں خود سے عشق میں زندہ ہوں، نہ محتاجِ وصال
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
ندائے بصیرت
دلوں میں خواب ہے، آنکھوں میں دھواں کیوں ہے؟
ہر ایک چہرہ یہاں آئینہ خواں کیوں ہے؟
لبوں پہ ذکرِ ہُدیٰ، دل میں نفس کا شور
یہ خود فریبیٔ آدم کا جہاں کیوں ہے؟
جو زہر بانٹتے پھرتے ہیں حکمتوں کے نام
وہی تو فخرِ زمانہ، وہی امامان کیوں ہے؟
خموش دل ہے، نگاہوں میں اک تماشہ ہے
یہ نور چھن سا گیا، دل پریشاں کیوں ہے؟
نہ فاش گفتم و لیکن دلِ خموش نگشت
چراغ بودم و آندم کہ سوختم نگشت
کبھی جو سچ کی کرن چھو گئی دلوں کے قریب
تو جھٹ پلٹ کے وہی لوگ گمراں کیوں ہے؟
یہی وہ لمحۂ آتش، یہی وہ ساعتِ درد
کہ خود سے دور ہے انسان، یہ اماں کیوں ہے؟
بہ ہر خموشیِ شب، برقِ جنوں ہے پوشیدہ
سکوتِ دل میں بھی اک شوخ فغاں کیوں ہے؟
تُو خود چراغ ہے اے دل! تُو اپنی راہ دکھا
مگر یہ تیرگی ہر سُو نمایاں کیوں ہے؟
وہ جو صدا تھی کبھی "رُک جا، یہ راہ خطا کی ہے"
وہی صدا بھی کہیں اب گماں کیوں ہے؟
خدا نہ کرد کہ اندھیروں سے عشق ہو جائے
طلسمِ شب میں اگر دن بھی نہاں کیوں ہے؟
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
جوابِ شکوہ
تو کہتا ہے خواب گرے، ساز بجے نہ نغمہ بنے
کیا ساز تیرے ہاتھ میں تھا؟ یا تُو خود ہی بے دَم بنے؟
تو چاہتا تھا بہار چلے، اور زخم بھی نہ لگیں تجھے،
پھر کس نے تجھے یہ بتایا کہ گلزار میں کانٹے نہیں؟
دنیا کو تو نے سمجھا کیا؟ ایک ہنسی کا میدان فقط؟
یہ کائنات ہے کرب کا فن، یہ زندگی ہے ایک فنونِ ضبط۔
تو مانگتا ہے روشنی، پر تیری آنکھ بند رہی،
تُو خود گُم صُم تھا اندر سے، باقی دنیا کب خواب بنی؟
وہ وقت کہ تُو جلتا تھا، اک جذبہ، اک آگ سا
اب تو فقط سائے میں ہے، اک زرد، بجھا چراغ سا
فطرت کبھی خاموش نہیں، تُو ہی سن نہ سکا صدا
پتوں میں، پانی میں، ہَوا میں، ہر شے میں بولا تھا خدا
وقت نے تجھ کو موقع دیا، ہر موڑ پہ راستے رکھے
تُو بھٹک کے کہتا ہے اب، کہ میرے خواب چھینے گئے؟
سچ تو یہ ہے، اے درد کے شاعر! تُو خود سے ناراض ہے
آئینے سے شکوہ کرتا ہے، جب چہرہ بے ناز ہے
تُو چاہتا ہے دنیا بدلے، اور تُو نہ بدلے ایک ذرا
یہ فطرت کا قانون نہیں، یہ ضد ہے، یا خوابِ سرا؟
ہر شے سے پہلے خود کو بنا، وہ روشنی، وہ راز بن
پھر دیکھ تیری سانسوں میں، کیسے بجتا ساز بن
یہ وقت بھی تیرے ہاتھوں میں ہے، یہ فطرت بھی تیری دوست
مگر شرط ہے: تُو جاگے، تُو بنے اک نیا شعور، اک نیا جوش
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
شکوہ
کبھی خواب بنتی تھی دنیا، کبھی ساز و نغمہ کی محفل
اب ہر ایک دل ہے خموش، ہر نظر ہے گہری و مضمحل
کہاں وہ صبحیں کہ نرماہٹ میں چپکے راز چھپے ہوتے
کہاں وہ شامیں کہ تنہائی میں بھی کچھ ساز بجے ہوتے؟
کہاں گئی وہ ہنسی فضا کی؟ وہ نرمی، وہ چہکار کہاں؟
ہر شے میں کیوں اک بیزاری ہے؟ ہر منظر میں انکار کہاں؟
اے وقت! تجھے کیوں فرصت ہے صرف مٹانے کی؟
تُو دیتا کیوں ہے خواب ہمیں، پھر چھیننے کی رسمیں کیوں؟
ہم نے چراغ جلائے تھے، دیواروں کو گواہ کیا
پھر بھی اندھیروں سے کیسا ہے تیرا خوں رنگ ربطِ وفا؟
ہم نے کتابیں لکھیں، نغمے گائے، ساز بنائے
اور تیری آندھی نے ہر شے کو بے نام کرایا
کیا تجھ کو ہماری لگن کی قسم نہ تھی؟
کیا ہم فقط ایک لمحۂ خاموشی کے قابل تھے؟
اے فطرت! تُو بھی چپ کیوں ہے؟ کیوں نہ جواب دیتی ہے؟
کیا تیرے اندر بھی اب کوئی زندہ نغمہ نہیں بچا؟
کبھی ہم نے تجھ سے رنگ چرا کر، خوشبو سے خواب بنائے،
آج تُو ہمیں خالی ہاتھ، بن موسم، کیوں لوٹائے؟
یہ دنیا کیوں زخموں کی منڈی بن کر رہ گئی؟
جہاں ہنسی بھی تجارتی، اور اشک بھی نیلامی ہو گئے؟
اے دل! تُو کب تک صبر کرے؟ کب تک صدا گُم رہنی ہے؟
کب کوئی سننے والا ہو گا؟ کب یہ صدی ٹھہری ہو گی؟
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
کاروانِ شعور
اُٹھا زمانہ، صدا دے رہا ہے نور کی بات
تلاش کر دل میں تو پائے گا حضور کی بات
خودی کو کر بلند، مت رُک ظہور کی راہ
سکھائے گی تجھ کو بھی بادِ صبور کی بات
نہ دیکھ ظاہر کو، باطن کا راز کھلتا ہے
حقیقتوں میں چھپی ہے سُرور کی بات
جو حرفِ حق سے گریزاں ہے، وہی ہے محرومی
نظر میں رکھ کے چمک دے ظہور کی بات
یہی تو فطرت کا پیغام ہے، سن اے غافل
نہیں ہے خاموش فضا میں سکوتِ دُور کی بات
نہ خوابِ کاغذی کافی، نہ فکرِ بے عملی
اُٹھا کے رکھ دے قدم پر شعور کی بات
ہزار چہرے ہیں جو آئنے میں کھوئے ہوئے
نہ اُن میں دل کی لگن ہے، نہ نور کی بات
یہ کارواں جو رُکا، خاک ہو گیا آخر
قدم بہ قدم ہے یہاں پر عبور کی بات
شعورِ ذات ہو پیدا، تو کائنات ملے
کہ بزمِ دل میں ہی رکھی ہے حُور کی بات
یہ درد، شاکرہ، صدقِ سفر کا ہے انعام
ملے گی فردا کو منزل، ہے جُور کی بات
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
خواہش کی سرحد پر
ہم سفر بھی نہ تھے، ہم نوا بھی نہ تھے
پاس رہ کر بھی ہم آشنا بھی نہ تھے
دل نے ہر گام پر درد کو چُنا
خواب تھے پر کہیں خواب سا بھی نہ تھے
آرزو ہاتھ میں خاک ہوتی رہی
کبھی قسمت کے ہم نقش پا بھی نہ تھے
اشک ہی اشک تھے، دل میں طوفاں سا تھا
ہم سکوں کے کبھی ناخدا بھی نہ تھے
زندگی نے ہمیں یوں رُلایا بہت شاکرہ
ہم تمنا کے بھی رہ نما بھی نہ تھے
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
زہرِ اختلاف
یہ کیسا زہر ہے
جو لفظوں میں گھلتا ہے
خامشی کو چیخ میں
اور چیخ کو خامشی میں بدل دیتا ہے
یہ اختلاف نہیں
یہ فاصلہ ہے
سوچ اور سمجھ کے بیچ
خون اور رشتے کے بیچ
"ہم" اور "وہ" کے بیچ
کہاں کھو گئی وہ آواز
جو کہتی تھی
اختلاف، اختلاف ہے
دشمنی نہیں
ایک بچہ جب سیکھتا ہے
کہ اس کی نسل بہتر ہے
اس کی زبان برتر ہے
اس کا مسلک پاک تر ہے
تو ہم ایک اور جنگ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔
نفرت کی آگ
کبھی مکتب سے نکلتی ہے
کبھی مسجد سے
کبھی مندر، کبھی چرچ
کبھی ایک اسکرین پر
کبھی کتاب کے صفحے سے
اور ہم سب جلتے رہتے ہیں
راکھ ہوتے رہتے ہیں
اپنے ہی لفظوں
اپنے ہی تعصبات میں
کیا کوئی لمحہ آئے گا
جہاں ہم صرف
انسان کہلائیں گے
نہ کسی قوم، نہ کسی قبیلے
نہ کسی عقیدے کی زنجیر میں بندھے ہوئے
کیا کبھی ہم
دوسروں کی بات سنیں گے
بغیر ڈر کے
بغیر شرط کے
کیا کبھی ہم
دل کو زبان بننے دیں گے
اور زبان کو خاموشی؟
شاید
اگر ہم نے خود کو
دوسروں میں پہچانا
تو زہر بھی دوا بن سکتا ہے
اختلاف بھی حسن بن سکتا ہے
اور انسان
بس انسان بن سکتا ہے
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
کیا کریں؟
لوگ ہیں سب حیران، کیا کریں؟
گم صم ہیں بھگوان، کیا کریں؟
چاروں جانب لڑائی ہے جاری
سج گیا جنگ کا میدان، کیا کریں؟
روشنی کو اب کیسے روکیں
کھلا ہے روشن دان، کیا کریں؟
جس میں کتابِ حق رکھی تھی
گُم ہے وہ جُزدان، کیا کریں؟
ہجرت کر گئے سارے کھلاڑی
خالی ہے میدان، کیا کریں؟
بیچ آنگن دیوار نہ اُٹھے
کہئیے! بھائی جان کیا کریں؟
جوں ہی اُن سے قرضہ مانگا
بن گئے وہ انجان، کیا کریں؟
جھوٹے قصے سنا رہے ہیں
ہائےیہ جھوٹی شان، کیا کریں؟
تحفہ اب کیا لے کر جائیں؟
بند ہیں سب دوکان، کیا کریں؟
برتن خالی اور جیب بھی خالی
آئے ہیں مہمان، کیا کریں؟
پوچھتے ہیں وہ خنجر تان کر
مشکل کو کرنا ہے آسان، کیا کریں؟
اُن کو جب آنا ہی نہیں ہے
سجا کر دالان، کیا کریں؟
دے دیا دل اور لُٹا دی ہے جان
اب اُن پرقربان۔ کیا کریں؟
خوش ہیں اُن سے دھوکے کھا کر
ایسے ہم نادان، کیا کریں؟
نفرت کی آندھی کیا آئی
بستی ہوئی ویران، کیا کریں؟
زرد ہیں سب کے چہرے
پھیلا ہے یرقان، کیا کریں؟
سُننا پڑتا ہے مجبوری ہے
حاکم کا فرمان، کیا کریں؟
کس کے بھروسے سکون سے سوئیں
غدار ہیں دربان، کیا کریں؟
کس کو سنائیں ہم دُکھ اپنا
جج ہیں شیطان، کیا کریں؟
اچھے دن آنے والے ہیں
ہوا ہے پھراعلان، کیا کریں؟
حیوانوں کا راج ہے ہر جانب
ایسے میں انسان، کیا کریں؟
جو منسوب تھی اُن سے نندنی
کھو گئی وہ داستان، کیا کریں؟
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
میرے بھوکے ننگے کردار
میرے بھوکے ننگے کرداروں نے
تمہارے باغ کے خوش رنگ پھولوں میں
اپنے چہرے کے کھوئے ہوئے رنگ پہچان لئے ہیں
بپھری ہوئی یہ سمندر کی لہریں چاند کے ایک اشارے کی منتظر ہیں
چند لمحوں بعد چاند جب آسمان پر آئے گا تب میں ایک نئی کہانی لکھوں گی
اس بار سمندر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر لہر کو ہیرے موتیوں سے بھر دے گا
میرے بھوکے ننگے کرداروں کے چہرے پر زندگی چمک اٹھے گی
اب ان کے سروں پر ہیرے موتی کے تاج ہوں گے
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Copy
I have tears in my eyes
I have tears in my eyes. Be a witness!
I'm in love. Be a witness!
The intrigues of those eyes are strange
O my simple heart! Be a witness!
My eyes are dry, I am silent
The softness of my tone. Be a witness!
I didn't get his name on my lips
O my death! Be a witness!
If I stay, will the earth stop?
My traveling companion. Be a witness!
I've never been without you
My bed sheets. Be a witness!
I loved you more than my life
You too!! Be a witness!
Dr. Shakira Nandini
Copy
تُو کن رنگوں کے لفظوں سے
تُو کن رنگوں کے لفظوں سے
اپنے فحش سوالوں کے ناخن بڑھاتی ہے
خوابوں کی دھندلی لذت میں
لڑکوں کی نیندیں اُڑاتی ہے
اپنے پرس کے آئینے میں
توُ خفیہ شَکل چھپاتی ہے
امرودوں سی چھاتیاں جن پر
ململ کی باریک سی دھوپ بچھاتی ہے
تیری جیبوں میں جنگلی دیو مالا
اور چہرے پر دھوئیں کا ہالہ بناتی ہے
اپنی شطرنجی جیسی آنکھوں میں
تُو کیسے نقشے بناتی ہے
کس غیبی بوسے کی خاطر
تیرے لب یوں کھلے ہوئے ہیں
آ ، میں تجھ کوخواہش کے
عریاں موسم میں رنگ لگاوں
بانہوں کے اِیزل پر تیرا چہرہ رکھ کر
ہونٹ سے تیری شکل بناؤں
Full Love Poetry
Copy
Slowly dies
The one who becomes a slave to habit
Who walks the same path every day
Which never changes speed
Who does not risk his life
Who does not experiment
He dies slowly
The one who gives up emotions
Who prefers black to whites
Which breaks people's hearts
Who smiles at the meaning
Which breaks the relationship
He dies slowly
Which turns happiness into sorrow
Who speaks bitterly
Who is unhappy with work
Who has malice in his heart
Who lives in dreams
He dies slowly
Who does not travel
Who does not study
Who does not take admonition
Who does not find grace in himself
Which does not satisfy itself
He dies slowly
Dr. Shakira Nandini
Copy
وہ جو عادت کا غلام بن جاتا ہے
وہ جو عادت کا غلام بن جاتا ہے
جو ہر روز ایک ہی راستے پر چلتا ہے
جو کبھی رفتار نہیں بدلتا ہے
جو اپنی زندگی کا خطرہ مول نہیں لیتا ہے
جو تجربہ نہیں کرتا ہے
وہ آہستہ آہستہ مر جاتا ہے
وہ جو جذبات سے باز آ جاتا ہے
جو گوروں پر کالے رنگ کو ترجیح دیتا ہے
جو لوگوں کے دلوں کو توڑ دیتا ہے
جو مطلب پر مُسکراتا ہے
جو رشتے توڑ دیتا ہے
وہ آہستہ آہستہ مر جاتا ہے
جو خوشی کو غم میں بدل دیتا ہے
جو کڑوی باتیں کرتا ہے
جو کام سے ناخوش ہوتا ہے
جو دل میں بُغض رکھتا ہے
جو خوابوں میں زندہ رہتا ہے
وہ آہستہ آہستہ مر جاتا ہے
جو سفر نہیں کرتا ہے
جو مطالعہ نہیں کرتا ہے
جو نصیحت نہیں پکڑتا ہے
جو اپنے آپ میں فضل نہیں پاتا ہے
جو خود کو تسلی نہیں دیتا ہے
وہ آہستہ آہستہ مر جاتا ہے
Dr. Shakira Nandini
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets