Add Poetry

Poetries by Shakira

جوابِ شکوہ تو کہتا ہے خواب گرے، ساز بجے نہ نغمہ بنے
کیا ساز تیرے ہاتھ میں تھا؟ یا تُو خود ہی بے دَم بنے؟
تو چاہتا تھا بہار چلے، اور زخم بھی نہ لگیں تجھے،
پھر کس نے تجھے یہ بتایا کہ گلزار میں کانٹے نہیں؟
دنیا کو تو نے سمجھا کیا؟ ایک ہنسی کا میدان فقط؟
یہ کائنات ہے کرب کا فن، یہ زندگی ہے ایک فنونِ ضبط۔
تو مانگتا ہے روشنی، پر تیری آنکھ بند رہی،
تُو خود گُم صُم تھا اندر سے، باقی دنیا کب خواب بنی؟
وہ وقت کہ تُو جلتا تھا، اک جذبہ، اک آگ سا
اب تو فقط سائے میں ہے، اک زرد، بجھا چراغ سا
فطرت کبھی خاموش نہیں، تُو ہی سن نہ سکا صدا
پتوں میں، پانی میں، ہَوا میں، ہر شے میں بولا تھا خدا
وقت نے تجھ کو موقع دیا، ہر موڑ پہ راستے رکھے
تُو بھٹک کے کہتا ہے اب، کہ میرے خواب چھینے گئے؟
سچ تو یہ ہے، اے درد کے شاعر! تُو خود سے ناراض ہے
آئینے سے شکوہ کرتا ہے، جب چہرہ بے ناز ہے
تُو چاہتا ہے دنیا بدلے، اور تُو نہ بدلے ایک ذرا
یہ فطرت کا قانون نہیں، یہ ضد ہے، یا خوابِ سرا؟
ہر شے سے پہلے خود کو بنا، وہ روشنی، وہ راز بن
پھر دیکھ تیری سانسوں میں، کیسے بجتا ساز بن
یہ وقت بھی تیرے ہاتھوں میں ہے، یہ فطرت بھی تیری دوست
مگر شرط ہے: تُو جاگے، تُو بنے اک نیا شعور، اک نیا جوش
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
شکوہ کبھی خواب بنتی تھی دنیا، کبھی ساز و نغمہ کی محفل
اب ہر ایک دل ہے خموش، ہر نظر ہے گہری و مضمحل
کہاں وہ صبحیں کہ نرماہٹ میں چپکے راز چھپے ہوتے
کہاں وہ شامیں کہ تنہائی میں بھی کچھ ساز بجے ہوتے؟
کہاں گئی وہ ہنسی فضا کی؟ وہ نرمی، وہ چہکار کہاں؟
ہر شے میں کیوں اک بیزاری ہے؟ ہر منظر میں انکار کہاں؟
اے وقت! تجھے کیوں فرصت ہے صرف مٹانے کی؟
تُو دیتا کیوں ہے خواب ہمیں، پھر چھیننے کی رسمیں کیوں؟
ہم نے چراغ جلائے تھے، دیواروں کو گواہ کیا
پھر بھی اندھیروں سے کیسا ہے تیرا خوں رنگ ربطِ وفا؟
ہم نے کتابیں لکھیں، نغمے گائے، ساز بنائے
اور تیری آندھی نے ہر شے کو بے نام کرایا
کیا تجھ کو ہماری لگن کی قسم نہ تھی؟
کیا ہم فقط ایک لمحۂ خاموشی کے قابل تھے؟
اے فطرت! تُو بھی چپ کیوں ہے؟ کیوں نہ جواب دیتی ہے؟
کیا تیرے اندر بھی اب کوئی زندہ نغمہ نہیں بچا؟
کبھی ہم نے تجھ سے رنگ چرا کر، خوشبو سے خواب بنائے،
آج تُو ہمیں خالی ہاتھ، بن موسم، کیوں لوٹائے؟
یہ دنیا کیوں زخموں کی منڈی بن کر رہ گئی؟
جہاں ہنسی بھی تجارتی، اور اشک بھی نیلامی ہو گئے؟
اے دل! تُو کب تک صبر کرے؟ کب تک صدا گُم رہنی ہے؟
کب کوئی سننے والا ہو گا؟ کب یہ صدی ٹھہری ہو گی؟
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
زہرِ اختلاف یہ کیسا زہر ہے
جو لفظوں میں گھلتا ہے
خامشی کو چیخ میں
اور چیخ کو خامشی میں بدل دیتا ہے
یہ اختلاف نہیں
یہ فاصلہ ہے
سوچ اور سمجھ کے بیچ
خون اور رشتے کے بیچ
"ہم" اور "وہ" کے بیچ
کہاں کھو گئی وہ آواز
جو کہتی تھی
اختلاف، اختلاف ہے
دشمنی نہیں
ایک بچہ جب سیکھتا ہے
کہ اس کی نسل بہتر ہے
اس کی زبان برتر ہے
اس کا مسلک پاک تر ہے
تو ہم ایک اور جنگ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔
نفرت کی آگ
کبھی مکتب سے نکلتی ہے
کبھی مسجد سے
کبھی مندر، کبھی چرچ
کبھی ایک اسکرین پر
کبھی کتاب کے صفحے سے
اور ہم سب جلتے رہتے ہیں
راکھ ہوتے رہتے ہیں
اپنے ہی لفظوں
اپنے ہی تعصبات میں
کیا کوئی لمحہ آئے گا
جہاں ہم صرف
انسان کہلائیں گے
نہ کسی قوم، نہ کسی قبیلے
نہ کسی عقیدے کی زنجیر میں بندھے ہوئے
کیا کبھی ہم
دوسروں کی بات سنیں گے
بغیر ڈر کے
بغیر شرط کے
کیا کبھی ہم
دل کو زبان بننے دیں گے
اور زبان کو خاموشی؟
شاید
اگر ہم نے خود کو
دوسروں میں پہچانا
تو زہر بھی دوا بن سکتا ہے
اختلاف بھی حسن بن سکتا ہے
اور انسان
بس انسان بن سکتا ہے
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
کیا کریں؟ لوگ ہیں سب حیران، کیا کریں؟
گم صم ہیں بھگوان، کیا کریں؟
چاروں جانب لڑائی ہے جاری
سج گیا جنگ کا میدان، کیا کریں؟
روشنی کو اب کیسے روکیں
کھلا ہے روشن دان، کیا کریں؟
جس میں کتابِ حق رکھی تھی
گُم ہے وہ جُزدان، کیا کریں؟
ہجرت کر گئے سارے کھلاڑی
خالی ہے میدان، کیا کریں؟
بیچ آنگن دیوار نہ اُٹھے
کہئیے! بھائی جان کیا کریں؟
جوں ہی اُن سے قرضہ مانگا
بن گئے وہ انجان، کیا کریں؟
جھوٹے قصے سنا رہے ہیں
ہائےیہ جھوٹی شان، کیا کریں؟
تحفہ اب کیا لے کر جائیں؟
بند ہیں سب دوکان، کیا کریں؟
برتن خالی اور جیب بھی خالی
آئے ہیں مہمان، کیا کریں؟
پوچھتے ہیں وہ خنجر تان کر
مشکل کو کرنا ہے آسان، کیا کریں؟
اُن کو جب آنا ہی نہیں ہے
سجا کر دالان، کیا کریں؟
دے دیا دل اور لُٹا دی ہے جان
اب اُن پرقربان۔ کیا کریں؟
خوش ہیں اُن سے دھوکے کھا کر
ایسے ہم نادان، کیا کریں؟
نفرت کی آندھی کیا آئی
بستی ہوئی ویران، کیا کریں؟
زرد ہیں سب کے چہرے
پھیلا ہے یرقان، کیا کریں؟
سُننا پڑتا ہے مجبوری ہے
حاکم کا فرمان، کیا کریں؟
کس کے بھروسے سکون سے سوئیں
غدار ہیں دربان، کیا کریں؟
کس کو سنائیں ہم دُکھ اپنا
جج ہیں شیطان، کیا کریں؟
اچھے دن آنے والے ہیں
ہوا ہے پھراعلان، کیا کریں؟
حیوانوں کا راج ہے ہر جانب
ایسے میں انسان، کیا کریں؟
جو منسوب تھی اُن سے نندنی
کھو گئی وہ داستان، کیا کریں؟
ڈاکٹر شاکرہ نندنی
Famous Poets
View More Poets