Poetries by Shehzad Raja
حوصلے حوصلے جب دن نے ہارے رات کی دہلیز پر
رکھ دیئے سورج نے تارے رات کی دہلیز پر
چاند جب کرنیں اٹھائے دستکیں دینے لگا
جاگ اٹھے کیا کیا نظارے رات کی دہلیز پر
اک چڑیا یوں پکاری گھر کا راستہ بھول کر
آ گئے پھر جگنو سارے رات کی دہلیز پر
لگ راھے تھے روشنی میں جو سب کو بد نما
چھپ گئے وہ سارے جرم رات کی دیلیز پر
شام تک عصاب عاطر ہو گئے سب چور چور
سو گئے ہم غم کے مارے رات کی دہلیز پر Shehzad Aslam
رکھ دیئے سورج نے تارے رات کی دہلیز پر
چاند جب کرنیں اٹھائے دستکیں دینے لگا
جاگ اٹھے کیا کیا نظارے رات کی دہلیز پر
اک چڑیا یوں پکاری گھر کا راستہ بھول کر
آ گئے پھر جگنو سارے رات کی دہلیز پر
لگ راھے تھے روشنی میں جو سب کو بد نما
چھپ گئے وہ سارے جرم رات کی دیلیز پر
شام تک عصاب عاطر ہو گئے سب چور چور
سو گئے ہم غم کے مارے رات کی دہلیز پر Shehzad Aslam
جو لوگ اس کو یہاں آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں جو لوگ اس کو یہاں آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
وہ حشر اپنا جہاں سے گزر کے دیکھتے ہیں
سیاہ فام تو دیکھے ہیں پر نہ ایسے بھی
کہ اہل حبش بھی اس کو ٹھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ناک پہ طوطوں کو رشک آتا ہے
سنا ہے دانت بھی کچھ لوگ ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو بدبو بھی منہ سے آتی ہے
سو لوگ ناک پہ رومال دھر کے دیکھتے ہیں Shehzad Raja
وہ حشر اپنا جہاں سے گزر کے دیکھتے ہیں
سیاہ فام تو دیکھے ہیں پر نہ ایسے بھی
کہ اہل حبش بھی اس کو ٹھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ناک پہ طوطوں کو رشک آتا ہے
سنا ہے دانت بھی کچھ لوگ ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو بدبو بھی منہ سے آتی ہے
سو لوگ ناک پہ رومال دھر کے دیکھتے ہیں Shehzad Raja
کوئی روشنی میرا خواب کر تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر
تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر
میں جو سر بہ سر کسی گم شدہ سی صدا کا عذاب ہوں
میری تار زخم تلاش لے، مجھے شام غم کا رباب کر
بڑی بے امان ہے زندگی، اسے بن کے کوئی پناہ مل
کوئی چاند رکھ میری شام پر، میری شب کو مہکا گلاب کر
کوئی بد گمان سا وقت ہے کوئی بد مزاج سی دھوپ ہے
کسی سایہ دار سے لفظ کو میرے جلتے دل کا حجاب کر
کبھی دیکھ لے میری چاہ کو کبھی آ نکل میری راہ کو
کہیں دو قدم میرے ساتھ چل کے مجھے بھی عالی جناب کر
تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر
تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر Shehzad Raja
تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر
میں جو سر بہ سر کسی گم شدہ سی صدا کا عذاب ہوں
میری تار زخم تلاش لے، مجھے شام غم کا رباب کر
بڑی بے امان ہے زندگی، اسے بن کے کوئی پناہ مل
کوئی چاند رکھ میری شام پر، میری شب کو مہکا گلاب کر
کوئی بد گمان سا وقت ہے کوئی بد مزاج سی دھوپ ہے
کسی سایہ دار سے لفظ کو میرے جلتے دل کا حجاب کر
کبھی دیکھ لے میری چاہ کو کبھی آ نکل میری راہ کو
کہیں دو قدم میرے ساتھ چل کے مجھے بھی عالی جناب کر
تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر
تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر Shehzad Raja