Poetries by Syed Ghulam Akbar Shah Safir
چشم ساقی چشم ساقی نے یہ کیا کھیل رچا رکھا ہے
کوئی زاہد تو کوئی مہ خار بنا رکھا ہے
جو بھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زلفوں نے عجب جال بچھا رکھا ہے
حسن ہو عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک مگر نام جدا رکھا ہے
رخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے اُلجھ پڑتی ہیں
تونے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مہ خانے میں رکھا کیا ہے Syed Ghulam Akbar Safir
کوئی زاہد تو کوئی مہ خار بنا رکھا ہے
جو بھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زلفوں نے عجب جال بچھا رکھا ہے
حسن ہو عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک مگر نام جدا رکھا ہے
رخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے اُلجھ پڑتی ہیں
تونے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مہ خانے میں رکھا کیا ہے Syed Ghulam Akbar Safir
مجھکو دیدار اپنا دلبر مجھکو دیدار اپنا دلبر دکھا دیا
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
ونحن اقرب مجکھو رہبر بتا دیا
گلزار دل کے اندر غنچہ لگا دیا
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
وہ نور تجلیٰ جس نے کوہ طور جلا دیا
اس نور کا نظارہ سینے سما دیا
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
بے مثل ہجر و غم سر پر اٹھا لیا
اس بحر موج مستی جلوہ جگا دیا
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
Syed Ghulam Akbar Shah Safir
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
ونحن اقرب مجکھو رہبر بتا دیا
گلزار دل کے اندر غنچہ لگا دیا
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
وہ نور تجلیٰ جس نے کوہ طور جلا دیا
اس نور کا نظارہ سینے سما دیا
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
بے مثل ہجر و غم سر پر اٹھا لیا
اس بحر موج مستی جلوہ جگا دیا
پر جام وصل جم جم ساقی پلا دیا
Syed Ghulam Akbar Shah Safir
میار گرتا نہ دوستوں کا میار گرتا نہ دوستوں کانہ ہم بھی دشمن کی ڈھال ہوتے
ظعیف دشمن پےوار کرتے تو وقت کے ہم دجال ہوتے
نہیں تھا اپنا مزاج ایسا کہ ظرف کھو کر انا بچاتے
ورنہ ایسے جواب دیتے کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے
ھماری فطرت کو جانتا ہےتبھی تو دشمن یہ کہ رہا ہے
ہے دشمنی میں بھی ظرف ایسا جو دوست ہوتے کمال ہوتے
جو آکےتم حال پوچھ لیتےتو اتنی لمبی نہ عمرلگتی
کہ وصل کی اک گھڑی میں سارےگزر گئے ماہ و سال ہوتے
اسے مبارک مقام اونچا صحیح حقیقت ہمیں پتہ ہے
بناتے رشتوں کی ہم بھی سیڑھی تو آسمان کی مثال ہوتے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
ظعیف دشمن پےوار کرتے تو وقت کے ہم دجال ہوتے
نہیں تھا اپنا مزاج ایسا کہ ظرف کھو کر انا بچاتے
ورنہ ایسے جواب دیتے کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے
ھماری فطرت کو جانتا ہےتبھی تو دشمن یہ کہ رہا ہے
ہے دشمنی میں بھی ظرف ایسا جو دوست ہوتے کمال ہوتے
جو آکےتم حال پوچھ لیتےتو اتنی لمبی نہ عمرلگتی
کہ وصل کی اک گھڑی میں سارےگزر گئے ماہ و سال ہوتے
اسے مبارک مقام اونچا صحیح حقیقت ہمیں پتہ ہے
بناتے رشتوں کی ہم بھی سیڑھی تو آسمان کی مثال ہوتے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
جانا ہے معصوم محبت کا اتنا سا فسانہ ہے
کاغذ کی حویلی ہے بارش کا زمانہ ہے
کیا شرط محبت ہے کیا شرط زمانہ ہے
آواز بھی زخمی ہے اور گیت بھی گانا ہے
اس پار اترنے کی امید بھی کم ہے
کشتی بھی پرانی ہے طوفان کو بھی آنا ہے
سمجھے یا نہ سمجھے وہ انداز محبت کو
اک شخص کو آنکھوں سے اک شعر سنانا ہے
بھولی سی ادا کوئی پھر عشق کی ضد پر ہے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
کاغذ کی حویلی ہے بارش کا زمانہ ہے
کیا شرط محبت ہے کیا شرط زمانہ ہے
آواز بھی زخمی ہے اور گیت بھی گانا ہے
اس پار اترنے کی امید بھی کم ہے
کشتی بھی پرانی ہے طوفان کو بھی آنا ہے
سمجھے یا نہ سمجھے وہ انداز محبت کو
اک شخص کو آنکھوں سے اک شعر سنانا ہے
بھولی سی ادا کوئی پھر عشق کی ضد پر ہے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
ساتھ دو بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
بڑے فریب کھاؤ گے بڑے ستم اٹھاؤ گے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے نبھا سکو تو ساتھ دو
جو تم کہو یہ دل تو کیا جان بھی فدا کریں
جو میں کہو بس اک نظر لٹا سکو تو ساتھ دو
میں اک غریب بے نوا میں اک فقیر بے صدا
میری نظر کی التجا جو پاسکو تو ساتھ دو
ہزارامتحاں یہاں ہزار آزمائشیں
ہزار دکھ ہزار غم اٹھا سکو تو ساتھ دو
یہ زندگی یہاں خوشی غموں کا ساتھ ہے
رلا سکو تو ساتھ دو ہنسا سکو تو ساتھ دو Syed Ghulam Akbar Shah Safir
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
بڑے فریب کھاؤ گے بڑے ستم اٹھاؤ گے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے نبھا سکو تو ساتھ دو
جو تم کہو یہ دل تو کیا جان بھی فدا کریں
جو میں کہو بس اک نظر لٹا سکو تو ساتھ دو
میں اک غریب بے نوا میں اک فقیر بے صدا
میری نظر کی التجا جو پاسکو تو ساتھ دو
ہزارامتحاں یہاں ہزار آزمائشیں
ہزار دکھ ہزار غم اٹھا سکو تو ساتھ دو
یہ زندگی یہاں خوشی غموں کا ساتھ ہے
رلا سکو تو ساتھ دو ہنسا سکو تو ساتھ دو Syed Ghulam Akbar Shah Safir
تلاش میرے وجود کی مجھ میں تلاش چھوڑ گیا
جو پوری نہ ہو اک ایسی آس چھوڑ گیا
یہ کرم نوازی کیا کم ہے اس کی
کہ خود تو دور ہے یادیں تو پاس چھوڑ گیا
جوخواہشیں تھیں کبھی حسرتوں میں ڈھل گئیں
اب میرے لبوں پہ وہ لفظ کاش چھوڑ گیا
یہ میرا ظرف ہے اک روز اس نے مجھ سے کہا
کہ عام لوگوں میں اک تجھ کو خاص چھوڑ گیا
بہاروں سے مجھے اسی لیے تو نفرت ہے
انہی رتوں میں مجھے وہ اداس چھوڑ گیا Syed Ghulam Akbar Shah Safir
جو پوری نہ ہو اک ایسی آس چھوڑ گیا
یہ کرم نوازی کیا کم ہے اس کی
کہ خود تو دور ہے یادیں تو پاس چھوڑ گیا
جوخواہشیں تھیں کبھی حسرتوں میں ڈھل گئیں
اب میرے لبوں پہ وہ لفظ کاش چھوڑ گیا
یہ میرا ظرف ہے اک روز اس نے مجھ سے کہا
کہ عام لوگوں میں اک تجھ کو خاص چھوڑ گیا
بہاروں سے مجھے اسی لیے تو نفرت ہے
انہی رتوں میں مجھے وہ اداس چھوڑ گیا Syed Ghulam Akbar Shah Safir
خواب سارے بہار آئے تو یکبار جیسے لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے شباب سارے جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے
جو مٹ کے ہر بار پھر جی اٹھے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے ملال احوال دوستاں بھی
غبار آغوش محوشاں بھی غبار خاطر کے باب سارے
تیرے ہمارے سوال سارےجواب سارے
بہار آئے تو نئے سرے سے کھل گئے ہیں حساب سارے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
وہ خواب سارے شباب سارے جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے
جو مٹ کے ہر بار پھر جی اٹھے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے ملال احوال دوستاں بھی
غبار آغوش محوشاں بھی غبار خاطر کے باب سارے
تیرے ہمارے سوال سارےجواب سارے
بہار آئے تو نئے سرے سے کھل گئے ہیں حساب سارے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
قدرت نے مزا رکھا ہے جب سے بیگم نے مجھے مرغا بنا رکھا ہے
میں نے نظروں کی طرح سر بھی جھکا رکھا ہے
برتنوں آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے دھو دھو کے تمہیں کتنا سجا رکھا ہے
پہلے بیلن نے بنایا میرے سر پہ گومڑ
اور چمٹے نے میرا گال سجا رکھا ہے
سارے کپڑے تو جلا ڈالے میری بیگم نے
زیب تن کرنے کو بنیان پھٹا رکھا ہے
اے کنوارو یونہی آباد رہو شاد رہو
ہم کو بیگم نے تو سولی پہ چڑھا رکھا ہے
وہی دنیا میں مقدر کا سکندر ٹھرا
جس نے خود کو یہاں شادی سے بچا رکھا ہے
روز لیتی ہے تلاشی وہ پولیس کی مانند
پوچھتی ہے کہاں پیسوں کو چھپا رکھا ہے
پی جا اس مار کی تلخی کو ہنس کر اکبر
مار کھانے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
میں نے نظروں کی طرح سر بھی جھکا رکھا ہے
برتنوں آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے دھو دھو کے تمہیں کتنا سجا رکھا ہے
پہلے بیلن نے بنایا میرے سر پہ گومڑ
اور چمٹے نے میرا گال سجا رکھا ہے
سارے کپڑے تو جلا ڈالے میری بیگم نے
زیب تن کرنے کو بنیان پھٹا رکھا ہے
اے کنوارو یونہی آباد رہو شاد رہو
ہم کو بیگم نے تو سولی پہ چڑھا رکھا ہے
وہی دنیا میں مقدر کا سکندر ٹھرا
جس نے خود کو یہاں شادی سے بچا رکھا ہے
روز لیتی ہے تلاشی وہ پولیس کی مانند
پوچھتی ہے کہاں پیسوں کو چھپا رکھا ہے
پی جا اس مار کی تلخی کو ہنس کر اکبر
مار کھانے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے Syed Ghulam Akbar Shah Safir
مدینے کا پتھر کاش میں مدینے کا پتھر ہی بن گیا ہوتا
اسی بہانے سے آپکی گلیوں میں پھر رہا ہوتا
دل یہ چاہتا ہے پہنچ جاؤں مدینے اڑ کر
کاش کہ میں ہوا ہی بن گیا ہوتا
میری آنکھوں میں بسا بس مدینہ مدینہ
کاش کہ مجھ کو مدینہ ہی مل گیا ہوتا
کیوں اس شہر میں ٹھوکریں کھاتا سافر
آپ کا اک اشارہ ہی مل گیا ہوتا Syed Ghulam Akbar Shah Safir
اسی بہانے سے آپکی گلیوں میں پھر رہا ہوتا
دل یہ چاہتا ہے پہنچ جاؤں مدینے اڑ کر
کاش کہ میں ہوا ہی بن گیا ہوتا
میری آنکھوں میں بسا بس مدینہ مدینہ
کاش کہ مجھ کو مدینہ ہی مل گیا ہوتا
کیوں اس شہر میں ٹھوکریں کھاتا سافر
آپ کا اک اشارہ ہی مل گیا ہوتا Syed Ghulam Akbar Shah Safir