Tehzeeb Hafi Ghazal
Tehzeeb Hafi Ghazal is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Tehzeeb Hafi Ghazal that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Tehzeeb Hafi Ghazal compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
وہ اک پری جو مجھے سبز کرنے آئی تھی
وہ اک چراغ کدہ جس میں کچھ نہیں تھا مرا
جو جل رہی تھی وہ قندیل بھی پرائی تھی
نہ جانے کتنے پرندوں نے اس میں شرکت کی
کل ایک پیڑ کی تقریب رو نمائی تھی
ہواؤ آؤ مرے گاؤں کی طرف دیکھو
جہاں یہ ریت ہے پہلے یہاں ترائی تھی
کسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاں
جہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھی
گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی
کہ اس سے ہم نے تجھے دیکھنے کی کرنی ہے
کسی درخت کی حدت میں دن گزارنا ہے
کسی چراغ کی چھاؤں میں رات کرنی ہے
وہ پھول اور کسی شاخ پر نہیں کھلنا
وہ زلف صرف مرے ہاتھ سے سنورنی ہے
تمام ناخدا ساحل سے دور ہو جائیں
سمندروں سے اکیلے میں بات کرنی ہے
ہمارے گاؤں کا ہر پھول مرنے والا ہے
اب اس گلی سے وہ خوشبو نہیں گزرنی ہے
ترے زیاں پہ میں اپنا زیاں نہ کر بیٹھوں
کہ مجھ مرید کا مرشد اویسؔ قرنی ہے
دل پہ آنکھیں رکھیں تیری سانسیں دیکھیں
سرخ لبوں سے سبز دعائیں پھوٹی ہیں
پیلے پھولوں تم کو نیلی آنکھیں دیکھیں
سال ہونے کو آیا ہے وہ کب لوٹے گا
آؤ کھیت کی سیر کو نکلیں کونجیں دیکھیں
تھوڑی دیر میں جنگل ہم کو عاق کرے گا
برگد دیکھیں یا برگد کی شاخیں دیکھیں
میرے مالک آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں
ساتھ چلیں ہم اور دنیا کی آنکھیں دیکھیں
ہم تیرے ہونٹوں کی لرزش کب بھولے ہیں
پانی میں پتھر پھینکیں اور لہریں دیکھیں
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے
اس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہے
کچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہے
کیا یہ کم ہے کہ آخری بوسہ
اس جبیں پر رقم کیا گیا ہے
پانیوں کو بھی خواب آنے لگے
اشک دریا میں ضم کیا گیا ہے
ان کی آنکھوں کا تذکرہ کر کے
میری آنکھوں کو نم کیا گیا ہے
دھول میں اٹ گئے ہیں سارے غزال
اتنی شدت سے رم کیا گیا ہے
سرخ ہوئی جاتی ہے وادی شہزادی
شیش محل کو صاف کیا ترے کہنے پر
آئنوں سے گرد ہٹا دی شہزادی
اب تو خواب کدے سے باہر پاؤں رکھ
لوٹ گئے ہیں سب فریادی شہزادی
تیرے ہی کہنے پر ایک سپاہی نے
اپنے گھر کو آگ لگا دی شہزادی
میں تیرے دشمن لشکر کا شہزادہ
کیسے ممکن ہے یہ شادی شہزادی
خود ہی آنگن خود ہی شجر بھی ہوں
اپنی مستی میں بہتا دریا ہوں
میں کنارہ بھی ہوں بھنور بھی ہوں
آسماں اور زمیں کی وسعت دیکھ
میں ادھر بھی ہوں اور ادھر بھی ہوں
خود ہی میں خود کو لکھ رہا ہوں خط
اور میں اپنا نامہ بر بھی ہوں
داستاں ہوں میں اک طویل مگر
تو جو سن لے تو مختصر بھی ہوں
ایک پھل دار پیڑ ہوں لیکن
وقت آنے پہ بے ثمر بھی ہوں
ہجرت کروں گا گاؤں سے گاؤں میں ریت ہے
اے قیس تیرے دشت کو اتنی دعائیں دیں
کچھ بھی نہیں ہے میری دعاؤں میں ریت ہے
صحرا سے ہو کے باغ میں آیا ہوں سیر کو
ہاتھوں میں پھول ہیں مرے پاؤں میں ریت ہے
مدت سے میری آنکھ میں اک خواب ہے مقیم
پانی میں پیڑ پیڑ کی چھاؤں میں ریت ہے
مجھ سا کوئی فقیر نہیں ہے کہ جس کے پاس
کشکول ریت کا ہے صداؤں میں ریت ہے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے
ایک سایہ مرے تعاقب میں
ایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
میری آنکھوں پہ دو مقدس ہاتھ
یہ اندھیرا بھی روشنی ہے مجھے
میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ہے مجھے
ان پرندوں سے بولنا سیکھا
پیڑ سے خامشی ملی ہے مجھے
میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھے
میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ہوں
پہلی بارش ہی آخری ہے مجھے
چھوئی سمجھ کے عید منائی شب برات
ہوگا بہت ثواب عبادت کرو سبھی
انعام رب کا آج یہ لائی شب برات
تقسیم کرتا رزق ہے رب اپنے بندوں کو
حلوے کی ہم نے دیگ پکائی شب رات
ہروقت گھر میں میرے اجالا رہے سدا
میں نے تو روشنی ہے جلائی شب رات
ملتا ثواب ہی ہے عبادت کی رات ہے
شہزاد ہم نے آج منائی شب برات
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
عجیب دکھ ہے ہم اس کے ہو کر بھی اس کو چھونے سے ڈر رہے ہیں
عجیب دکھ ہے ہمارے حصے کی آگ اوروں میں بٹ رہی ہے
میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
مجھ ایسے پیڑوں کے سوکھنے اور سبز ہونے سے کیا کسی کو
یہ بیل شاید کسی مصیبت میں ہے جو مجھ سے لپٹ رہی ہے
یہ وقت آنے پہ اپنی اولاد اپنے اجداد بیچ دے گی
جو فوج دشمن کو اپنا سالار گروی رکھ کر پلٹ رہی ہے
سو اس تعلق میں جو غلط فہمیاں تھیں اب دور ہو رہی ہیں
رکی ہوئی گاڑیوں کے چلنے کا وقت ہے دھندھ چھٹ رہی ہے
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
جو دیکھتا ہوں میں وہ بھولتا نہیں
کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا
پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں
میں آ رہا تھا راستے میں پھول تھے
میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں
تری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
اس اژدھے کی آنکھ پوچھتی رہی
کسی کو خوف آ رہا ہے یا نہیں
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بے خبر
میں بجھ چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں
یہ عشق بھی عجب کہ ایک شخص سے
مجھے لگا کہ ہو گیا ہوا نہیں
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا
تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے
اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا
بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن
دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے
میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا
محاذ عشق سے کب کون بچ کے نکلا ہے
تو بچ گیا ہے تو خیرات کیوں نہیں کرتا
وہ جس کی چھاؤں میں پچیس سال گزرے ہیں
وہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا
میں جس کے ساتھ کئی دن گزار آیا ہوں
وہ میرے ساتھ بسر رات کیوں نہیں کرتا
مجھے تو جان سے بڑھ کر عزیز ہو گیا ہے
تو میرے ساتھ کوئی ہاتھ کیوں نہیں کرتا
The poetry seems incomplete without Tehzeeb Hafi Ghazal in Urdu. However, a lot of people also want to read the Tehzeeb Hafi Ghazal in Hindi that is based on different poems. The best part about Tehzeeb Hafi new Ghazal is that it is much popular among the young generation. When talk about the Ghazal, it is a form of poetry that is utilized to express the inner feelings and emotions to a person we love the most.
A lot of poets have written poetries for special persons in their lives. However, Tehzeeb Hafi Ghazal in Hindi has a significant place among them. It elaborates different events in an amazing manner. It is a reason that he is invited in different mushairas where people just love to hear the Tehzeeb Hafi Ghazal in Urdu. On our website, you can find a vast collection of his poems including the Tehzeeb Hafi new Ghazal.
Tehzeeb Hafi’s poetry speaks directly to the heart and often makes me reflect deeply. The best part is that his soulful verses are easily accessible, so I can read and enjoy them whenever I want.
- Rammsha , Lahore
- Mon 28 Jul, 2025
Tehzeeb Hafi’s poetry touches the soul with its raw emotions and modern depth. His words reflect the pain of love, the beauty of silence, and the strength found in vulnerability.
- Sania , Peshawar
- Thu 17 Jul, 2025
His words are simple yet deeply emotional and full of meaning. Every line touches the heart and connects with real-life feelings. A perfect place to enjoy his soulful and modern style of poetry.
- shazia , Peshawar
- Wed 09 Jul, 2025






