The Tiny Gaza in Ferguson
Poet: SYED IMON RIZVI By: SYED IMON RIZVI, KarachiWhat you experienced in one day
When Michael Brown the young lad was prey
Where he was shot in the head two times
And no one is telling for what crimes
It's just the fraction of what we face
In Gaza its the everyday case
We know you protested for Michael
When the situation became awful
Where they didn't allow you to protest
And then they threatened you with arrest
Decades have passed and this is "Our life"
Which has been filled with pain blood and strife
When we raise our voice against violence
They drop the bombs to bring the silence
You at least had the Michael's body
We have just the body parts to carry
Your trauma and pain we understand
So for justice jointly let's demand
Brutality is poison and plague
Our lives with it are nothing but vague
So kill this cancer before its late
Or it will decide for us our fate
When they can kill babies and infants
With the "No regret reinforcements"
Just think how far they can go to win
From you body to peel off the skin
For them Ferguson Gaza all same
Absolute power is their sole aim
"We are superior." That's they claim
And they say this without any shame
So some segregated Gaza and
Some segregated St.louis land
It's the history so go and find
Have a mind be kind don't be so blind
It's the same intention like the past
Based on race class order and the caste
Zionist Jews think that they are blessed
And they deserve to live on the crest
Rest of the humans to them are pest
So to kill them thats why they have stressed
By dropping the bombs on the children
They have proved their very own doctrine
And in America "White racists"
KKK or the evangelists
Rush Limbaugh or his associates
Through their brain-washing opened hell gates
Teaching white supremacy to folks
Using hoax for incitements and stokes
Thinking that they are also blessed ones
And can kill the rest of us with guns
But they should understand one thing now
People know the truth and would not cow
جہاں قاتل باعزت اور مظلوم بے سکون یہاں
دلیل اگر سچ ہو، تو جرم بن جاتی ہے
جھوٹ اگر بااثر ہو، قسم کھا لی جاتی ہے
لب سِل گئے، قلم توڑا گیا، حق کی بات ٹھکرائی گئی
پھر بھی انصاف کے مندر میں، رام کہانی سنائی گئی
کمرہ عدالت میں منصف تو تھا مگر انصاف نہ تھا
ایک اسٹیج تھا ایک اسکرپٹ تھا ڈر کا تماشا تھا
فیصلے طے تھے پہلے سے فیصلہ ساز بعد میں آیا
سچ کے گواہ مر گئے اور جھوٹا گواہی لے آیا
کیا یاد ہے وہ شخص؟ جو حرفِ حق کہتا تھا
آج اس کا سایہ بھی قید ہے وہ خود کیا کہتا تھا؟
یہ نظام، یہ دربار، یہ نیلامی کا موسم ہے
وہ بازار ہے جہاں سچ کی بولی لگتی ہر دم ہے
مگر سن لو...
اندھوں کی عدالتیں رہتی نہیں قائم ہمیشہ
اندھیرا حد سے بڑھے ضرور سورج چمکتا ہے وہاں
وہ جو سچ ہے وہ اک دن لوٹ کر آئے گا
جو فیصلہ ظالم نے دیا — وقت اُسے مٹائے گا
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
کہا کس نے کہ مردہ ہے پاکستان
میں زندہ ہوں تو زندہ ہےپاکستان
نہ میرا ہے نہ تیرا ہےپاکستان
ہمارا تھا ہمارا ہےپاکستان
لبوں پر مہر خاموشی ہے گویا
بظاہر سب کی سنتا ہےپاکستان
کہو مت اس کو گونگا اور بہرا
نہ گونگا ہے نہ بہرا ہے پاکستان
بھپر جائے تو مشکل ہے سنبھلنا
اسی ڈر سے تو ڈرتا ہےپاکستان
فضا میں زہر گھولا جارہا ہے
سناہے سانس لیتا ہے پاکستان
جسے سب قید کرنا چاہتے ہیں
یہ وہ سونے کی چڑیا ہےپاکستان
کوئی کیسے ڈبو سکتا ہے اس کو
سمندر میں بھی بستا ہے پاکستان
ملے گردیدہ بینا تو دیکھو
سمندر دل میں رکھتا ہے پاکستان
سمٹ آیا ہے کراچی اس میں
ہر اک صوبے کا چہرہ ہےپاکستان
ہمارے دم میں دم اس سے وشمہ
مثال دل دھڑکتا ہےپاکستان
رکھتے اپنے رب پہ ایمان ہیں
کرتے ہیں وطن سے پیار اس قدر
دے دیتے اسی کی خاطر اپنی جان ہیں
پاک فوج زندہ باد، پاک فوج زندہ باد
پاک فوج زندہ باد، پاک فوج زندہ باد
دیس کی خاطر جیتے ہیں یہ
اس کی خاطر مرتے ہیں یہ
دن ہو یا رات ہو اندھیری
سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں یہ
دھرتی پہ اپنا سب کچھ
کر دیتے یہ قربان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
جھپٹتے ہیں یہ
پلٹے ہیں یہ
وطن کی خاطر لڑتے ہیں یہ
شوق شہادت کا لے کر
ہر میداں میں اترتے ہیں یہ
آبرو ہیں یہ اپنی قوم کی
وطن کی آن ہیں شان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
شاہیں ہیں فضاؤں کے محافظ
سمندروں کی نیوی پاسبان ہے
آرمی کرتی ہے سرحدوں کی حفاظت
اور ان سب پر اللہ مہربان ہے
شجاعت کی یہ ہیں علامت
ہمتوں کے یہ نشان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟






