"توہینِ عدالت"
کون منصف، کہاں انصاف، کدھر کا دستور
اب یہ میزان سجاوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ عدالت کی عمارت، یہ ستون و در و بام
ایک بے کار بناوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں
سچ وکیلوں کی بھی اجرت نہیں دینے پاتا
جھوٹ کے لاکھ گواہان کھڑے بولتے ہیں
اور حقائق کی جگہ شہر کے عالی منصف
عدل و انصاف کی میزان میں زر تولتے ہیں
اب تو منصف کے ہتھوڑے کی دھمک بھی شاید
زر کی جھنکار سے اونچی نہیں ہونے پاتی
اور قانون کی گردن میں وہ خم آیا ہے
اب یہ دستار سے اونچی نہیں ہونے پاتی
تیسری نسل درِ عدل پہ بیٹھی ہوئی ہے
وہ جو مظلوم تھے قبروں میں پڑے سوتے ہیں
قاضیِ شہر ہے اربابِ حکومت کا غلام
کون کہتا ہے کہ مفلس کے بھی حق ہوتے ہیں
نکتہ چینی کو بغاوت ہی گنا جاتا ہے
اور بس صبر کی تلقین ہوئی جاتی ہے
جو کسی طرح معزز بھی نہیں میرے لیے
اس عدالت کی بھی توہین ہوئی جاتی ہے