Umair Najmi Poetry, Ghazals & Shayari
Umair Najmi Poetry allows readers to express their inner feelings with the help of beautiful poetry. Umair Najmi shayari and ghazals is popular among people who love to read good poems. You can read 2 and 4 lines Poetry and download Umair Najmi poetry images can easily share it with your loved ones including your friends and family members. Up till, several books have been written on Umair Najmi Shayari. Urdu Ghazal readers have their own choice or preference and here you can read Umair Najmi poetry in Urdu & English from different categories.
- LATEST POETRY
- اردو
جبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا
سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہے
وہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا
مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوا
میں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا
ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہا
جدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا
شروع دن سے گھر میں سن رہا تھا اس لئے
سکوت میری مادری زبان بن گیا
اور ایک دن کھنچی ہوئی لکیر مٹ گئی
گماں یقیں بنا یقیں گمان بن گیا
کئی خفیف غم ملے ملال بن گئے
ذرا ذرا سی کترنوں سے تھان بن گیا
مرے بڑوں نے عادتاً چنا تھا ایک دشت
وہ بس گیا رحیمؔ یار خان بن گیا zawar
نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہور ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ Osama
اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا
شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی
بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا
ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں
وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا
میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں
وہ جنہیں کاتب تقدیر نہیں کھینچ سکا
میں نے تصویر کشی کر کے جواں کی اولاد
ان کے بچپن کی تصاویر نہیں کھینچ سکا
مجھ پہ اک ہجر مسلط ہے ہمیشہ کے لئے
ایسا جن ہے کہ کوئی پیر نہیں کھینچ سکا
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا Zamin
مجھ سے کچھ بن نہیں پایا تری تصویر کے بعد
مشترک دوست بھی چھوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر
یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد
یار تصویر میں تنہا ہوں مگر لوگ ملے
کئی تصویر سے پہلے کئی تصویر کے بعد
دوسرا عشق میسر ہے مگر کرتا نہیں
کون دیکھے گا پرانی نئی تصویر کے بعد
بھیج دیتا ہوں مگر پہلے بتا دوں تجھ کو
مجھ سے ملتا نہیں کوئی مری تصویر کے بعد
خشک دیوار میں سیلن کا سبب کیا ہوگا
ایک عدد زنگ لگی کیل تھی تصویر کے بعد zawar
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا
میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقش قدم بنے گا
ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحد مقدس مزار ہوگی
یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا
تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل
مری چھٹی حس بتا رہی ہے یہ رشتہ ٹوٹے گا غم بنے گا
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیسا
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا
سنا ہوا ہے جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اس رائیگانی سے کچھ اہم بنے گا
کہ شاہزادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اس پر متفق ہیں
یہ جوں ہی حاکم بنا محل کا وسیع رقبہ حرم بنے گا
میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال اس کو شروع سے سن ردھم بنے گا
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا Zain
میرے اندازے سے ہر بار زیادہ نکلی
کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ
میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی
یہ مری موت کے اسباب میں لکھا ہوا ہے
خون میں عشق کی مقدار زیادہ نکلی
کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ
مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی Umer
سیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے
دیکھ معمار پرندے بھی رہیں گھر بھی بنے
نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے
میرے ہونٹوں پہ کسی لمس کی خواہش ہے شدید
ایسا کچھ کر مجھے سگریٹ کو جلانا نہ پڑے
اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے
اس پہاڑی پہ بھی بارود لگانا نہ پڑے
نم کی ترسیل سے آنکھوں کی حرارت کم ہو
سرد خانوں میں کوئی خواب پرانا نہ پڑے
ربط کی خیر ہے بس تیری انا بچ جائے
اس طرح جا کہ تجھے لوٹ کے آنا نہ پڑے
ہجر ایسا ہو کہ چہرے پہ نظر آ جائے
زخم ایسا ہو کہ دکھ جائے دکھانا نہ پڑے Abdul Rehman
سو عین ممکن ہے دل کی حالت بدل گئی ہو
تمام دن اس دعا میں کٹتا ہے کچھ دنوں سے
میں جاؤں کمرے میں تو اداسی نکل گئی ہو
کسی کے آنے پہ ایسے ہلچل ہوئی ہے مجھ میں
خموش جنگل میں جیسے بندوق چل گئی ہو
یہ نہ ہو گر میں ہلوں تو گرنے لگے برادہ
دکھوں کی دیمک بدن کی لکڑی نگل گئی ہو
یہ چھوٹے چھوٹے کئی حوادث جو ہو رہے ہیں
کسی کے سر سے بڑی مصیبت نہ ٹل گئی ہو
ہمارا ملبہ ہمارے قدموں میں آ گرا ہے
پلیٹ میں جیسے موم بتی پگھل گئی ہو Zaid
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے
رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے
جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے
میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے
شاہ زادی یہ ترا حق تھا تجھے شاہ ملے
ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزر گاہ ملے
اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے
گھر پہنچنے کی نہ جلدی نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سر راہ ملے Zaid
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا
تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا
مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات عبوری بناؤں گا
تجھ کو خبر نہ ہوگی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا
رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں بھوری بناؤں گا
جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا
میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا Umair Khan
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے خرچہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
یہ تیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے
میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار
مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے Anila
آنکھ میں خواب تہہ آب اکٹھے ہوں گے
جن کے دل جوڑتے یہ عمر بتا دی میں نے
جب مروں گا تو یہ احباب اکٹھے ہوں گے
منتشر کر کے زمانوں کو کھنگالا جائے
تب کہیں جا کے مرے خواب اکٹھے ہوں گے
ایک ہی عشق میں دونوں کا جنوں ضم ہوگا
پیاس یکساں ہے تو سیراب اکٹھے ہوں گے
مجھ کو رفتار چمک تجھ کو گھٹانی ہوگی
ورنہ کیسے زر و سیماب اکٹھے ہوں گے
اس کی تہہ سے کبھی دریافت کیا جاؤں گا میں
جس سمندر میں یہ سیلاب اکٹھے ہوں گے Tooba
Umair Najmi Poetry in Urdu
Umair Najmi Shayari is much popular among his fans. He was born in Rahim Yar Khan, Punjab on September 2, 1986. The Umair Najmi poetry in Hindi is loved by people from the young generation as he is also from the age group of the mid-30s. Another great thing about Umair Najmi poetry is that is based in several forms including Nazm, Ghazal, Marsiya, and Naat. The Umair Najmi poetry in Hindi also consists of love poetry, sad poetry, Sufi poetry, and Islamic poetry. With the help of our website, you can view the complete collection of Umair Najmi Shayari.
Proses from Umair Najmi Poetry
The poet has written several good poems. Below, you can view some shairs from Umair Najmi Shayari in Hindi or Umair Najmi poetry.
Main Barhata Hoon Roshni Daikhain
Ghour Se Ghar Ki Tairgi Daikhain
Yaar! Tasveer Me Tanha Hoon Magar Loag Mile
Kai Tasveer Se Pehle, Kai Tasveer Ke Baad
Barsoon Purana Dost Mila, Jaise Ghair Ho
Dekha, Ruka, Jhijhak Ke kaha: Tum Umair Ho?
Famous Poems from Umair Najmi Poetry
Just have a look at a few poems from the Umair Najmi Shayari in Hindi:
• Bass Ik Issi Pey Tu Poori Tarhaan Ayyan Hoon Main>
• Tujhe Na Aayeen Gi Muflis Ki Mushkilat Samjh>
• Tishnagi Jism Ki Mitti Main Gari Milti Hai>
• Jhuk K Chalta Hoon K Qad Uss K Barabar Na Lage>
• Aik Din Zuban Sakoot Ki Poori Banaoon Ga>
• Guzishta Shaab Yun Laga K Andar Se Kat Raha Hoon>
• Main Qalb E Ishq Hoon Wehshaat Ka Khoon Khenchta Hoon
If you are searching for the entire Umair Najmi Shayari collection then you can read all the latest Umair Najmi Poetry in Urdu on our website.