Umair Najmi Ghazal
Umair Najmi Ghazal is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Umair Najmi Ghazal that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Umair Najmi Ghazal compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا
جبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا
سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہے
وہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا
مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوا
میں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا
ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہا
جدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا
شروع دن سے گھر میں سن رہا تھا اس لئے
سکوت میری مادری زبان بن گیا
اور ایک دن کھنچی ہوئی لکیر مٹ گئی
گماں یقیں بنا یقیں گمان بن گیا
کئی خفیف غم ملے ملال بن گئے
ذرا ذرا سی کترنوں سے تھان بن گیا
مرے بڑوں نے عادتاً چنا تھا ایک دشت
وہ بس گیا رحیمؔ یار خان بن گیا
جبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا
سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہے
وہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا
مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوا
میں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا
ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہا
جدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا
شروع دن سے گھر میں سن رہا تھا اس لئے
سکوت میری مادری زبان بن گیا
اور ایک دن کھنچی ہوئی لکیر مٹ گئی
گماں یقیں بنا یقیں گمان بن گیا
کئی خفیف غم ملے ملال بن گئے
ذرا ذرا سی کترنوں سے تھان بن گیا
مرے بڑوں نے عادتاً چنا تھا ایک دشت
وہ بس گیا رحیمؔ یار خان بن گیا
zawar
ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ
نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہور ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ
نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہور ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ
Osama
دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا
اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا
شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی
بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا
ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں
وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا
میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں
وہ جنہیں کاتب تقدیر نہیں کھینچ سکا
میں نے تصویر کشی کر کے جواں کی اولاد
ان کے بچپن کی تصاویر نہیں کھینچ سکا
مجھ پہ اک ہجر مسلط ہے ہمیشہ کے لئے
ایسا جن ہے کہ کوئی پیر نہیں کھینچ سکا
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا
اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا
شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی
بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا
ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں
وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا
میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں
وہ جنہیں کاتب تقدیر نہیں کھینچ سکا
میں نے تصویر کشی کر کے جواں کی اولاد
ان کے بچپن کی تصاویر نہیں کھینچ سکا
مجھ پہ اک ہجر مسلط ہے ہمیشہ کے لئے
ایسا جن ہے کہ کوئی پیر نہیں کھینچ سکا
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا
Zamin
میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد
مجھ سے کچھ بن نہیں پایا تری تصویر کے بعد
مشترک دوست بھی چھوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر
یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد
یار تصویر میں تنہا ہوں مگر لوگ ملے
کئی تصویر سے پہلے کئی تصویر کے بعد
دوسرا عشق میسر ہے مگر کرتا نہیں
کون دیکھے گا پرانی نئی تصویر کے بعد
بھیج دیتا ہوں مگر پہلے بتا دوں تجھ کو
مجھ سے ملتا نہیں کوئی مری تصویر کے بعد
خشک دیوار میں سیلن کا سبب کیا ہوگا
ایک عدد زنگ لگی کیل تھی تصویر کے بعد
مجھ سے کچھ بن نہیں پایا تری تصویر کے بعد
مشترک دوست بھی چھوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر
یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد
یار تصویر میں تنہا ہوں مگر لوگ ملے
کئی تصویر سے پہلے کئی تصویر کے بعد
دوسرا عشق میسر ہے مگر کرتا نہیں
کون دیکھے گا پرانی نئی تصویر کے بعد
بھیج دیتا ہوں مگر پہلے بتا دوں تجھ کو
مجھ سے ملتا نہیں کوئی مری تصویر کے بعد
خشک دیوار میں سیلن کا سبب کیا ہوگا
ایک عدد زنگ لگی کیل تھی تصویر کے بعد
zawar
جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا
میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقش قدم بنے گا
ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحد مقدس مزار ہوگی
یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا
تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل
مری چھٹی حس بتا رہی ہے یہ رشتہ ٹوٹے گا غم بنے گا
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیسا
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا
سنا ہوا ہے جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اس رائیگانی سے کچھ اہم بنے گا
کہ شاہزادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اس پر متفق ہیں
یہ جوں ہی حاکم بنا محل کا وسیع رقبہ حرم بنے گا
میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال اس کو شروع سے سن ردھم بنے گا
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا
میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقش قدم بنے گا
ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحد مقدس مزار ہوگی
یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا
تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل
مری چھٹی حس بتا رہی ہے یہ رشتہ ٹوٹے گا غم بنے گا
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیسا
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا
سنا ہوا ہے جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اس رائیگانی سے کچھ اہم بنے گا
کہ شاہزادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اس پر متفق ہیں
یہ جوں ہی حاکم بنا محل کا وسیع رقبہ حرم بنے گا
میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال اس کو شروع سے سن ردھم بنے گا
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا
Zain
میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی
میرے اندازے سے ہر بار زیادہ نکلی
کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ
میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی
یہ مری موت کے اسباب میں لکھا ہوا ہے
خون میں عشق کی مقدار زیادہ نکلی
کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ
مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی
میرے اندازے سے ہر بار زیادہ نکلی
کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ
میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی
یہ مری موت کے اسباب میں لکھا ہوا ہے
خون میں عشق کی مقدار زیادہ نکلی
کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ
مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی
Umer
کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے
سیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے
دیکھ معمار پرندے بھی رہیں گھر بھی بنے
نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے
میرے ہونٹوں پہ کسی لمس کی خواہش ہے شدید
ایسا کچھ کر مجھے سگریٹ کو جلانا نہ پڑے
اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے
اس پہاڑی پہ بھی بارود لگانا نہ پڑے
نم کی ترسیل سے آنکھوں کی حرارت کم ہو
سرد خانوں میں کوئی خواب پرانا نہ پڑے
ربط کی خیر ہے بس تیری انا بچ جائے
اس طرح جا کہ تجھے لوٹ کے آنا نہ پڑے
ہجر ایسا ہو کہ چہرے پہ نظر آ جائے
زخم ایسا ہو کہ دکھ جائے دکھانا نہ پڑے
سیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے
دیکھ معمار پرندے بھی رہیں گھر بھی بنے
نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے
میرے ہونٹوں پہ کسی لمس کی خواہش ہے شدید
ایسا کچھ کر مجھے سگریٹ کو جلانا نہ پڑے
اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے
اس پہاڑی پہ بھی بارود لگانا نہ پڑے
نم کی ترسیل سے آنکھوں کی حرارت کم ہو
سرد خانوں میں کوئی خواب پرانا نہ پڑے
ربط کی خیر ہے بس تیری انا بچ جائے
اس طرح جا کہ تجھے لوٹ کے آنا نہ پڑے
ہجر ایسا ہو کہ چہرے پہ نظر آ جائے
زخم ایسا ہو کہ دکھ جائے دکھانا نہ پڑے
Abdul Rehman
تم اس خرابے میں چار چھ دن ٹہل گئی ہو تم اس خرابے میں چار چھ دن ٹہل گئی ہو
سو عین ممکن ہے دل کی حالت بدل گئی ہو
تمام دن اس دعا میں کٹتا ہے کچھ دنوں سے
میں جاؤں کمرے میں تو اداسی نکل گئی ہو
کسی کے آنے پہ ایسے ہلچل ہوئی ہے مجھ میں
خموش جنگل میں جیسے بندوق چل گئی ہو
یہ نہ ہو گر میں ہلوں تو گرنے لگے برادہ
دکھوں کی دیمک بدن کی لکڑی نگل گئی ہو
یہ چھوٹے چھوٹے کئی حوادث جو ہو رہے ہیں
کسی کے سر سے بڑی مصیبت نہ ٹل گئی ہو
ہمارا ملبہ ہمارے قدموں میں آ گرا ہے
پلیٹ میں جیسے موم بتی پگھل گئی ہو
سو عین ممکن ہے دل کی حالت بدل گئی ہو
تمام دن اس دعا میں کٹتا ہے کچھ دنوں سے
میں جاؤں کمرے میں تو اداسی نکل گئی ہو
کسی کے آنے پہ ایسے ہلچل ہوئی ہے مجھ میں
خموش جنگل میں جیسے بندوق چل گئی ہو
یہ نہ ہو گر میں ہلوں تو گرنے لگے برادہ
دکھوں کی دیمک بدن کی لکڑی نگل گئی ہو
یہ چھوٹے چھوٹے کئی حوادث جو ہو رہے ہیں
کسی کے سر سے بڑی مصیبت نہ ٹل گئی ہو
ہمارا ملبہ ہمارے قدموں میں آ گرا ہے
پلیٹ میں جیسے موم بتی پگھل گئی ہو
Zaid
ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے
رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے
جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے
میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے
شاہ زادی یہ ترا حق تھا تجھے شاہ ملے
ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزر گاہ ملے
اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے
گھر پہنچنے کی نہ جلدی نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سر راہ ملے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے
رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے
جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے
میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے
شاہ زادی یہ ترا حق تھا تجھے شاہ ملے
ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزر گاہ ملے
اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے
گھر پہنچنے کی نہ جلدی نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سر راہ ملے
Zaid
اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا
تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا
مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات عبوری بناؤں گا
تجھ کو خبر نہ ہوگی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا
رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں بھوری بناؤں گا
جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا
میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا
تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا
مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات عبوری بناؤں گا
تجھ کو خبر نہ ہوگی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا
رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں بھوری بناؤں گا
جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا
میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا
Umair Khan
بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے خرچہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
یہ تیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے
میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار
مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے خرچہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
یہ تیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے
میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار
مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے
Anila
کچھ سفینے ہیں جو غرقاب اکٹھے ہوں گے کچھ سفینے ہیں جو غرقاب اکٹھے ہوں گے
آنکھ میں خواب تہہ آب اکٹھے ہوں گے
جن کے دل جوڑتے یہ عمر بتا دی میں نے
جب مروں گا تو یہ احباب اکٹھے ہوں گے
منتشر کر کے زمانوں کو کھنگالا جائے
تب کہیں جا کے مرے خواب اکٹھے ہوں گے
ایک ہی عشق میں دونوں کا جنوں ضم ہوگا
پیاس یکساں ہے تو سیراب اکٹھے ہوں گے
مجھ کو رفتار چمک تجھ کو گھٹانی ہوگی
ورنہ کیسے زر و سیماب اکٹھے ہوں گے
اس کی تہہ سے کبھی دریافت کیا جاؤں گا میں
جس سمندر میں یہ سیلاب اکٹھے ہوں گے
آنکھ میں خواب تہہ آب اکٹھے ہوں گے
جن کے دل جوڑتے یہ عمر بتا دی میں نے
جب مروں گا تو یہ احباب اکٹھے ہوں گے
منتشر کر کے زمانوں کو کھنگالا جائے
تب کہیں جا کے مرے خواب اکٹھے ہوں گے
ایک ہی عشق میں دونوں کا جنوں ضم ہوگا
پیاس یکساں ہے تو سیراب اکٹھے ہوں گے
مجھ کو رفتار چمک تجھ کو گھٹانی ہوگی
ورنہ کیسے زر و سیماب اکٹھے ہوں گے
اس کی تہہ سے کبھی دریافت کیا جاؤں گا میں
جس سمندر میں یہ سیلاب اکٹھے ہوں گے
Tooba
User Reviews