Poetries by hukhan
خالی ہاتھ ایک شام وہ شام عجیب تھی خالی ہاتھ
وہران سی اداس سی بے رنگ وبو
وحشت بھری نہ پاس نہ دور
جیسے کوئی آگ اور جیسے ہو کوئی کوئلہ
گرم ہو تو ہاتھ جلائے ٹھنڈا ہو تو کرے سیاہ
الجھی ہوئی بے روح جسم سی شام
جیسے کوئی زلف پریشان
مغرور مگر جیسے حسن نادان
رات کی سیاہی میں ڈوبتی ہوئی شام
نہ ہی کوئی نام نہ ہی کوئی عنوان
بس عجیب سی خالی ہاتھ اداس سی ایک شام hukhan
وہران سی اداس سی بے رنگ وبو
وحشت بھری نہ پاس نہ دور
جیسے کوئی آگ اور جیسے ہو کوئی کوئلہ
گرم ہو تو ہاتھ جلائے ٹھنڈا ہو تو کرے سیاہ
الجھی ہوئی بے روح جسم سی شام
جیسے کوئی زلف پریشان
مغرور مگر جیسے حسن نادان
رات کی سیاہی میں ڈوبتی ہوئی شام
نہ ہی کوئی نام نہ ہی کوئی عنوان
بس عجیب سی خالی ہاتھ اداس سی ایک شام hukhan
آنکھ نم نہیں وہ آشنا کر گیا رنج الم سے
پھر بھی کسی غم کا غم نہیں
آج بھی کوئی آنکھ نم نہیں
شاید ہم ہی نسل فرہاد سے نہیں
ہاں اس لیے اس کے جانے کا ملال نہیں
کیا ہوا جو رشتے نئے اس نے بنائے
ہمیں اس بات کا رنج نہیں
ترک کے تعلق کی یہ رسم صدیوں پرانی کوئی نئی نہیں
یہ چلن آج بھی ہے زمانے کا ہمارا نہیں
ہمیں یقین ہے ہمارے ہاتھ کے لکیروں میں اس کا نام نہیں
ہو نصیب میں کوئی گلابی شام اب وہ موسم نہیں
اسے یاد کرے دل شاد اب وہ وقت نہیں
سر شام کوئی سرگوشی سنے ہم اب یہ ستم نہیں
پھر سے روشن ہو قندیل سحر شاید اب وہ حوصلہ نہیں
کروں کوئی شکوہ اپنے رب سے ایسا میں کافر نہیں
ہاں اب یہ آنکھ ہوتی نم نہیں hukhan
پھر بھی کسی غم کا غم نہیں
آج بھی کوئی آنکھ نم نہیں
شاید ہم ہی نسل فرہاد سے نہیں
ہاں اس لیے اس کے جانے کا ملال نہیں
کیا ہوا جو رشتے نئے اس نے بنائے
ہمیں اس بات کا رنج نہیں
ترک کے تعلق کی یہ رسم صدیوں پرانی کوئی نئی نہیں
یہ چلن آج بھی ہے زمانے کا ہمارا نہیں
ہمیں یقین ہے ہمارے ہاتھ کے لکیروں میں اس کا نام نہیں
ہو نصیب میں کوئی گلابی شام اب وہ موسم نہیں
اسے یاد کرے دل شاد اب وہ وقت نہیں
سر شام کوئی سرگوشی سنے ہم اب یہ ستم نہیں
پھر سے روشن ہو قندیل سحر شاید اب وہ حوصلہ نہیں
کروں کوئی شکوہ اپنے رب سے ایسا میں کافر نہیں
ہاں اب یہ آنکھ ہوتی نم نہیں hukhan
آج بھی اسے ڈھونڈتا ہوں کچھ گمشدہ منزلوں کے نشان ڈھونڈتا ہوں
سر شام ہی سے اجلی صبح کھوجتا ہوں
غموں کے طوفان میں اس کی مسکان ڈھونڈتا ہوں
جلا کے تیز دھوپ میں اب سایہ ڈھونڈتا ہوں
آج بھی ستاروں سے آگے کے جہان ڈھونڈتا ہوں
جو گزر گئی عمر وفا آج بھی اسے ڈھونڈتا ہوں
نادان ہو آج بھی سایہ بن کے جو کبھی ساتھ تھا اسے ڈھونڈ تا ہوں
جس نے ہمیشہ بوجھ جانا ہمیں اسکی نظر کرم ڈھونڈتا ہوں
ہاں میں ہو نادان دیکھوں کسے ڈھونڈتا ہوں hukhan
سر شام ہی سے اجلی صبح کھوجتا ہوں
غموں کے طوفان میں اس کی مسکان ڈھونڈتا ہوں
جلا کے تیز دھوپ میں اب سایہ ڈھونڈتا ہوں
آج بھی ستاروں سے آگے کے جہان ڈھونڈتا ہوں
جو گزر گئی عمر وفا آج بھی اسے ڈھونڈتا ہوں
نادان ہو آج بھی سایہ بن کے جو کبھی ساتھ تھا اسے ڈھونڈ تا ہوں
جس نے ہمیشہ بوجھ جانا ہمیں اسکی نظر کرم ڈھونڈتا ہوں
ہاں میں ہو نادان دیکھوں کسے ڈھونڈتا ہوں hukhan
صبح ہو یا شام کسی بھی شام انتظار نہ ہوا تمام
ہمیشہ دل نے کیا بہت سا اہتمام
کبھی ساحل کی نرم سی ریت پر لکھا تھا اس کا نام
کاش کے کسی طرح لگ ہی جاتا تیری محبت کا ہم پر الزام
گزر ڈالی ہم نے اسی خواہش میں اپنی ہر ایک شام
کاش کوئی تو کر ہی دیتا ہمیں بھی بدنام
ساری عمر دل مناتا جشن لے کر یہ الزام
ہاں آج بھی یاد آتے ہو صبح ہو یا شام hukhan
ہمیشہ دل نے کیا بہت سا اہتمام
کبھی ساحل کی نرم سی ریت پر لکھا تھا اس کا نام
کاش کے کسی طرح لگ ہی جاتا تیری محبت کا ہم پر الزام
گزر ڈالی ہم نے اسی خواہش میں اپنی ہر ایک شام
کاش کوئی تو کر ہی دیتا ہمیں بھی بدنام
ساری عمر دل مناتا جشن لے کر یہ الزام
ہاں آج بھی یاد آتے ہو صبح ہو یا شام hukhan
فریاد پھر اسے کیوں یاد کرو کیوں اپنا وقت برباد کرو
نہیں اس قدر ناتواں کسی سے کیوں فریاد کرو
جانے کیا عجب ضد ہے ہر بات پر اسی کی تکرار کرو
ہم بھی نہیں اس قدر نادان ہر بات پر اس کی اعتبار کرو
کہتا ہے وہ ہمیں اس کے لیے کچھ خاص کرو
جسم نہیں روح بھی اس کے نام کرو
خان نہیں اپنے بس کی بات کیوں خود کو قربان کرو
کسی انجان کے لیے کیسے خود کو برباد کرو
hukhan
نہیں اس قدر ناتواں کسی سے کیوں فریاد کرو
جانے کیا عجب ضد ہے ہر بات پر اسی کی تکرار کرو
ہم بھی نہیں اس قدر نادان ہر بات پر اس کی اعتبار کرو
کہتا ہے وہ ہمیں اس کے لیے کچھ خاص کرو
جسم نہیں روح بھی اس کے نام کرو
خان نہیں اپنے بس کی بات کیوں خود کو قربان کرو
کسی انجان کے لیے کیسے خود کو برباد کرو
hukhan