Poetries by Wasim Khan Abid
فریبِ زیست کا کیا انتشار سمجھے گا فریبِ زیست کا کیا انتشار سمجھے گا
صدی سے قید کہاں اختیار سمجھے گا
مرے زوال کی سادہ سی یہ کہانی ہے
انّا پرست کہاں دار، نار سمجھے گا
تمہارے ہونے سے بے جا سکون ملتا ہے
یہ کیفیت تو کہاں، مرے یار سمجھے گا
شراب پی کے بہکتے نہیں سالارِ شہر
جو ڈگمگایا، کہاں وہ خمار سمجھے گا
فقیہہِ شہر، مجھے نہ سکھا ثواب،عذاب
اِس عمرِ رفتہ کا تو کیا فشار سمجھے گا
یہ داستان مَحبت یوں ہی ختم ہوگی
نہ میں کہوں گا، نہ وہ میرا پیار سمجھے گا وسیم خان عابد
صدی سے قید کہاں اختیار سمجھے گا
مرے زوال کی سادہ سی یہ کہانی ہے
انّا پرست کہاں دار، نار سمجھے گا
تمہارے ہونے سے بے جا سکون ملتا ہے
یہ کیفیت تو کہاں، مرے یار سمجھے گا
شراب پی کے بہکتے نہیں سالارِ شہر
جو ڈگمگایا، کہاں وہ خمار سمجھے گا
فقیہہِ شہر، مجھے نہ سکھا ثواب،عذاب
اِس عمرِ رفتہ کا تو کیا فشار سمجھے گا
یہ داستان مَحبت یوں ہی ختم ہوگی
نہ میں کہوں گا، نہ وہ میرا پیار سمجھے گا وسیم خان عابد
جانے والے اب تو آجاتے ہیں دو چار پُرانے والے
ورنہ رُخصت تھے، سبھی ہم سے نبھانے والے
دم رُخصت تو عُدو اُٹھ کے گلے ملتے ہیں
تم کیوں اب روٹھ کے بیٹھے ہو ستانے والے
کتنا بیباک، بڑا شوخ، بہت ناداں تھا
اب وہ انداز کہاں تجھ میں پُرانے والے
ہائے! یہ عمرِ رواں جاکے کہاں پر ٹھہرے
ہم ہیں راضی بہ رضا، میرے ٹھکانے والے
یہ مکافات عمل بھی تو تسلی ہے میاں
ہم نے ہنستے ہوئے دیکھے ہیں، رُلانے والے
اُس نے غازے کو بکھیرا ہے ترے گالوں پر
کتنے عیار ہیں یہ تُجھ کو سجانے والے
تُجھ سے بچھڑا ہوں تو تقدیر نے اپنایا ہے
یعنی میں خوش ہوں ترے بعد بھی، جانے والے
مُلتفت، وقف نہ مائل بہ تکلم عاؔبد
یاد رہتے ہی نہیں، اُس کو بھلانے والے
وسیم خان عابد
ورنہ رُخصت تھے، سبھی ہم سے نبھانے والے
دم رُخصت تو عُدو اُٹھ کے گلے ملتے ہیں
تم کیوں اب روٹھ کے بیٹھے ہو ستانے والے
کتنا بیباک، بڑا شوخ، بہت ناداں تھا
اب وہ انداز کہاں تجھ میں پُرانے والے
ہائے! یہ عمرِ رواں جاکے کہاں پر ٹھہرے
ہم ہیں راضی بہ رضا، میرے ٹھکانے والے
یہ مکافات عمل بھی تو تسلی ہے میاں
ہم نے ہنستے ہوئے دیکھے ہیں، رُلانے والے
اُس نے غازے کو بکھیرا ہے ترے گالوں پر
کتنے عیار ہیں یہ تُجھ کو سجانے والے
تُجھ سے بچھڑا ہوں تو تقدیر نے اپنایا ہے
یعنی میں خوش ہوں ترے بعد بھی، جانے والے
مُلتفت، وقف نہ مائل بہ تکلم عاؔبد
یاد رہتے ہی نہیں، اُس کو بھلانے والے
وسیم خان عابد
آجکل بڑا بننے کا گُر بیچو گے حیا جھوٹے کو سچا بھی کہو گے
بدنام بے حیاﺅں کو اچھا بھی کہو گے
غیرت کی بھلی ، عزتیں قربان کرو گے
گمراہ کمینوں کو مُلکی شان کروگے
اشرافیہ کو اپنا دین ایمان کہو گے
بدمعاش کو پھر دیس کا سلطان کہوگے
مارو گے انا سر کو جھکاﺅگے در بدر
مذہب کا بھی مذاق اُڑاﺅگے خاص کر
اپنے لیے خُدا بھی بناﺅگے ہم عصر
بن جاﺅ گے اس دور کے تم بھی نئے آزر
پھر صاحبوں کی جوتیاں سیدھی کرگے تم
رشوت کے نوٹ جیب کی عیدی کروگے تم
پھر تم کو عیاری بھی سیاست ہی لگے گی
ذلیل مکاری بھی فصاحت ہی لگے گی
پھر انقلابی بات تم کو جھوٹ لگے گی
او ر ’فتح مبین ‘ صرف لُوٹ لگے گی
یوں جاﺅگے تو دیس کی پہچان بنوگے
اس مُلک کی عزت کی آن بان بنوگے Wasim Khan Abid
بدنام بے حیاﺅں کو اچھا بھی کہو گے
غیرت کی بھلی ، عزتیں قربان کرو گے
گمراہ کمینوں کو مُلکی شان کروگے
اشرافیہ کو اپنا دین ایمان کہو گے
بدمعاش کو پھر دیس کا سلطان کہوگے
مارو گے انا سر کو جھکاﺅگے در بدر
مذہب کا بھی مذاق اُڑاﺅگے خاص کر
اپنے لیے خُدا بھی بناﺅگے ہم عصر
بن جاﺅ گے اس دور کے تم بھی نئے آزر
پھر صاحبوں کی جوتیاں سیدھی کرگے تم
رشوت کے نوٹ جیب کی عیدی کروگے تم
پھر تم کو عیاری بھی سیاست ہی لگے گی
ذلیل مکاری بھی فصاحت ہی لگے گی
پھر انقلابی بات تم کو جھوٹ لگے گی
او ر ’فتح مبین ‘ صرف لُوٹ لگے گی
یوں جاﺅگے تو دیس کی پہچان بنوگے
اس مُلک کی عزت کی آن بان بنوگے Wasim Khan Abid
حسیں بے درد ہوں لیکن اُنھیں درماں کہا جائے حسیں بے درد ہوں لیکن اُنھیں درماں کہا جائے
نہ ہو محبوب تو دُنیا میں یارو! کیا جیا جائے
ہزاروں بُت یہی سب جان کر دل میں بسائے ہیں
کہ کوئی آئے پیغمبر اِسے کعبہ بناجائے
محبت شیفتگی کی حد سے یارو جب نکلتی ہے
کتابوں میں اُسے بھر کر کوئی قصہ کہاجائے
کروڑوں غم مچل جاتے ہیں تیرا تذکرہ سُن کر
یوں زائر صوفی کے دربار پر میلہ لگا جائے
عبث رٹنا کتابیں اور عبث ہیں تجربے کرنا
وہی تعلیم ہے آدم کو جو انساں بنا جائے
لٹیرے دیس کے دیکھے تو دل سے آہ یوں نکلی
اے عابد کاش کوئی اِن کو آئینہ دکھا جائے
Wasim Khan Abid
نہ ہو محبوب تو دُنیا میں یارو! کیا جیا جائے
ہزاروں بُت یہی سب جان کر دل میں بسائے ہیں
کہ کوئی آئے پیغمبر اِسے کعبہ بناجائے
محبت شیفتگی کی حد سے یارو جب نکلتی ہے
کتابوں میں اُسے بھر کر کوئی قصہ کہاجائے
کروڑوں غم مچل جاتے ہیں تیرا تذکرہ سُن کر
یوں زائر صوفی کے دربار پر میلہ لگا جائے
عبث رٹنا کتابیں اور عبث ہیں تجربے کرنا
وہی تعلیم ہے آدم کو جو انساں بنا جائے
لٹیرے دیس کے دیکھے تو دل سے آہ یوں نکلی
اے عابد کاش کوئی اِن کو آئینہ دکھا جائے
Wasim Khan Abid
اس گلشن میں ہر روز نئے قانون بنائے جاتے ہیں اس گلشن میں ہر روز نئے قانون بنائے جاتے ہیں
جو پنچھی دن کو قید ہوئے وہ شام اُڑائے جاتے ہیں
جینے کے لئے دو سانسیں بھی دشوار ہیں مزدوروں کیلئے
آمر آجر کی قبروں پر کیوں پھول چڑھائے جاتے ہیں
ہاں یاد ہیں وہ حالات ہمیں ، ہر موڑ پہ دھوکے کھائے ہیں
عادت ہے فریب کی پر ایسی خود جال بچھائے جاتے ہیں
ہم اندھے ہیں بے کار سہی ،یہ دیپ چراغاں رستے میں
سر پھوڑ نہ دیں آنکھوں والے ، بس دیپ جلائے جاتے ہیں
کچھ جینے کی ہے پابندی کچھ مرنے کی بندش عابد
یہ عمرِ رواں جاتی ہے کہاں ! ہم ساتھ نبھائے جاتے ہیں Wasim Khan Abid
جو پنچھی دن کو قید ہوئے وہ شام اُڑائے جاتے ہیں
جینے کے لئے دو سانسیں بھی دشوار ہیں مزدوروں کیلئے
آمر آجر کی قبروں پر کیوں پھول چڑھائے جاتے ہیں
ہاں یاد ہیں وہ حالات ہمیں ، ہر موڑ پہ دھوکے کھائے ہیں
عادت ہے فریب کی پر ایسی خود جال بچھائے جاتے ہیں
ہم اندھے ہیں بے کار سہی ،یہ دیپ چراغاں رستے میں
سر پھوڑ نہ دیں آنکھوں والے ، بس دیپ جلائے جاتے ہیں
کچھ جینے کی ہے پابندی کچھ مرنے کی بندش عابد
یہ عمرِ رواں جاتی ہے کہاں ! ہم ساتھ نبھائے جاتے ہیں Wasim Khan Abid