Ye To Barzakh Hai Yahan Waqt Ki Ijad Kahan
Poet: Fahmida Riaz By: Rehana, khiYe To Barzakh Hai Yahan Waqt Ki Ijad Kahan
 Ek Baras Tha Ki Mahina Hamen Ab Yaad Kahan
 
 Ruh Be-Zar Hai Kyun Chhod Na Jae Qalib
 Sab Ko Mil Jae Gunahon Ka Yahin Khamyaza
 
 Zist Karne Ki Mashaqqat Hi Hamen Kya Kam Thi
 Hum Bhi Kya Yaad Karenge Ki Khuda Rakhte The
 
 Mustazad Us Pe Pirohit Ka Junun-E-Taza
 Tadte Hain Kisi Chehre Pe Tarawat To Nahin
 
 Sud-Khoron Ki Tarah Dar Pe Sahar Aati Thi
 Mohtasib Kitne Nikal Aae Gharon Se Har Su
 
 Kucha Kucha Men Nikale Hue Khuni Dide
 Na-Rawa-Dar Fazaon Ki Jhulasti Hui Lu!
 
 Zindagi Apni Isi Taur Jo Guzri Ghaalib
 Ja-Ba-Ja Tishna O Aashufta Wahi Khak-Nashin
 
 Koi Lab Nam To Nahin Bashre Pe Farhat To Nahin
 Nau-E-Adam Se Bahar-Taur Riya Ke Talib
 
 Gurz Uthae Hue Dhamkate Phira Karte Hain
 Shab-Garan Zist-Garan-Tar Hi To Kar Jati Thi
 Wahi Tapta Hua Gardun Wahi Angara Zamin
کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں
کوئی آواز سی ہے مرثیہ خواں
شہر کا شہر بنا گورستاں
ایک مخلوق جو بستی ہے یہاں
جس پہ انساں کا گزرتا ہے گماں
خود تو ساکت ہے مثال تصویر
جنبش غیر سے ہے رقص کناں
کوئی چہرہ نہیں جز زیر نقاب
نہ کوئی جسم ہے جز بے دل و جاں
علما ہیں دشمن فہم و تحقیق
کودنی شیوۂ دانش منداں
شاعر قوم پہ بن آئی ہے
کذب کیسے ہو تصوف میں نہاں
لب ہیں مصروف قصیدہ گوئی
اور آنکھوں میں ہے ذلت عریاں
سبز خط عاقبت و دیں کے اسیر
پارسا خوش تن و نو خیز جواں
یہ زن نغمہ گر و عشق شعار
یاس و حسرت سے ہوئی ہے حیراں
کس سے اب آرزوئے وصل کریں
اس خرابے میں کوئی مرد کہاں
جو میرے لوح دل پر تو نے کبھی بنایا
تھا دل جب اس پہ مائل تھا شوق سخت مشکل
ترغیب نے اسے بھی آسان کر دکھایا
اک گرد باد میں تو اوجھل ہوا نظر سے
اس دشت بے ثمر سے جز خاک کچھ نہ پایا
اے چوب خشک صحرا وہ باد شوق کیا تھی
میری طرح برہنہ جس نے تجھے بنایا
پھر ہم ہیں نیم شب ہے اندیشۂ عبث ہے
وہ واہمہ کہ جس سے تیرا یقین آیا
تو نخ بہ نخ کہیں پیوست ریشۂ دل تھا
مجھے مآل سفر کا ملال کیوں کر ہو
کہ جب سفر ہی مرا فاصلوں کا دھوکا تھا
میں جب فراق کی راتوں میں اس کے ساتھ رہی
وہ پھر وصال کے لمحوں میں کیوں اکیلا تھا
وہ واسطے کی ترا درمیاں بھی کیوں آئے
خدا کے ساتھ مرا جسم کیوں نہ ہو تنہا
سراب ہوں میں تری پیاس کیا بجھاؤں گی
اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا
سراب ہوں کہ بدن کی یہی شہادت ہے
ہر ایک عضو میں بہتا ہے ریت کا دریا
جو میرے لب پہ ہے شاید وہی صداقت ہے
جو میرے دل میں ہے اس حرف رایگاں پہ نہ جا
جسے میں توڑ چکی ہوں وہ روشنی کا طلسم
شعاع نور ازل کے سوا کچھ اور نہ تھا
یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل
یہ کیف کیا ہے کہ سانس رک رک کے آ رہا ہے
یہ میری آنکھوں میں کیسے شہوت بھرے اندھیرے اتر رہے ہیں
لہو کے گنبد میں کوئی در ہے کہ وا ہوا ہے
یہ چھوٹتی نبض، رکتی دھڑکن، یہ ہچکیاں سی
گلاب و کافور کی لپٹ تیز ہو گئی ہے
یہ آبنوسی بدن، یہ بازو، کشادہ سینہ
مرے لہو میں سمٹتا سیال ایک نکتے پہ آ گیا ہے
مری نسیں آنے والے لمحے کے دھیان سے کھنچ کے رہ گئی ہیں
بس اب تو سرکا دو رخ پہ چادر
دیے بجھا دو
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
تم چاند سے ماتھے والے ہو
اور اچھی قسمت رکھتے ہو
بچے کی سو بھولی صورت
اب تک ضد کرنے کی عادت
کچھ کھوئی کھوئی سی باتیں
کچھ سینے میں چبھتی یادیں
اب انہیں بھلا دو سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
سو جاؤ تم شہزادے ہو
اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو
اچھا تو کوئی اور بھی تھی
اچھا پھر بات کہاں نکلی
کچھ اور بھی یادیں بچپن کی
کچھ اپنے گھر کے آنگن کی
سب بتلا دو پھر سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی
یہ جھلمل کرتی خاموشی
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی
بیتے نہ کبھی تم سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 