Poetries by Zulfiqar Ali Bukhari
ماں میں ہر بار جیتا جاتا ہوں اکیلا ہو کر بھی
سہارا بن جاتی ہیں مری ماں کی دعائیں Zulfiqar Ali Bukhari
سہارا بن جاتی ہیں مری ماں کی دعائیں Zulfiqar Ali Bukhari
گیت سجنا او سجنا
تیرے بنا ادھورے ہیں
تم کہیں سے آملو نہ
سجنا او سجنا
ہم روز تڑپتے ہیں
مچلتے ہیں
اُداس رہتے ہیں
جدائی تیری
زہر لگتی ہے
سجنا او سجنا
مانے تو
نہ مانے تو
ہم تیرے ہیں
یوں اکیلے چھوڑ کے گئے کہاں
سانس ٹوٹنے لگا ہے
اب تو آن ملو سجنا
سجنا او سجنا
تم آملو کہیں سے
مانے تو
نہ مانے تو
ہم تیرے ہیں Zulfiqar Ali Bukhari
تیرے بنا ادھورے ہیں
تم کہیں سے آملو نہ
سجنا او سجنا
ہم روز تڑپتے ہیں
مچلتے ہیں
اُداس رہتے ہیں
جدائی تیری
زہر لگتی ہے
سجنا او سجنا
مانے تو
نہ مانے تو
ہم تیرے ہیں
یوں اکیلے چھوڑ کے گئے کہاں
سانس ٹوٹنے لگا ہے
اب تو آن ملو سجنا
سجنا او سجنا
تم آملو کہیں سے
مانے تو
نہ مانے تو
ہم تیرے ہیں Zulfiqar Ali Bukhari
فنکار خاموشی سے ہے خار ،لب کشائی بھی برداشت نہیں
ستم گر سمجھتے ہیں مداری جیسے ہیں فنکار ہم Zulfiqar Ali Bukhari
ستم گر سمجھتے ہیں مداری جیسے ہیں فنکار ہم Zulfiqar Ali Bukhari
تبدیلی کی طرف چلو سمجھ سکو تو سمجھو
کبھی تو
ووٹ دے کر
حقدار کو
تبدیلی کی طرف چلو
غلط کو کہنا غلط سیکھو
مفادات کو چھوڑ کر
ملک کا سوچو
ارے نادان لوگوں
کبھی تو
بدعنوانی کو برا سمجھو
چور کو چوری پہ
سزا دلوا دو
سمجھ سکو تو سمجھو
دے کر ووٹ
صاف ستھرے لوگوں کو
مفادات کو چھوڑ کر
ملک کا سوچو
تبدیلی کی طرف چلو Zulfiqar Ali Bukhari
کبھی تو
ووٹ دے کر
حقدار کو
تبدیلی کی طرف چلو
غلط کو کہنا غلط سیکھو
مفادات کو چھوڑ کر
ملک کا سوچو
ارے نادان لوگوں
کبھی تو
بدعنوانی کو برا سمجھو
چور کو چوری پہ
سزا دلوا دو
سمجھ سکو تو سمجھو
دے کر ووٹ
صاف ستھرے لوگوں کو
مفادات کو چھوڑ کر
ملک کا سوچو
تبدیلی کی طرف چلو Zulfiqar Ali Bukhari
خلش ڈوب کر شرم سے میں مر کیوں نہیں جاتا
لوٹ کر اپنے محسن کو مر کیوں نہیں جاتا
ہوس نے رشتے کا کیا ہے تقدس پامال
پھندا ڈال کر اب میں مر کیوں نہیں جاتا
مار کر بندہ پھر پکڑا کیوں نہیں جاتا
قاتل چھلاوہ ہے کہ پکڑا نہیں جاتا
غربت نہیں مٹتی پر غریب مر جاتا
انصاف ملتا نہیں پر بک ضرور جاتا
ڈرا کر منصف کو دہل وہ بھی جاتا
بن کر معصوم جو دہائی سنائی جاتا
Zulfiqar Ali Bukhari
لوٹ کر اپنے محسن کو مر کیوں نہیں جاتا
ہوس نے رشتے کا کیا ہے تقدس پامال
پھندا ڈال کر اب میں مر کیوں نہیں جاتا
مار کر بندہ پھر پکڑا کیوں نہیں جاتا
قاتل چھلاوہ ہے کہ پکڑا نہیں جاتا
غربت نہیں مٹتی پر غریب مر جاتا
انصاف ملتا نہیں پر بک ضرور جاتا
ڈرا کر منصف کو دہل وہ بھی جاتا
بن کر معصوم جو دہائی سنائی جاتا
Zulfiqar Ali Bukhari