آ جائے وہ ملنے تو مجھے عید مبارک
مت آئے بہ ہر حال اسے عید مبارک
ایسا ہو سب انسان ہوں خوش اتنے کہ ہر روز
اک دوسرے سے کہتا پھرے عید مبارک
ہاں مجھ سے جسے جس سے مجھے جو بھی گلہ ہو
آباد رہے شاد رہے عید مبارک
تنہائی سی تنہائی کہ دیوار بھی ششدر
اب کھل کے کہے یا نہ کہے عید مبارک
سرگوشی نے پتھر کو سبق یاد دلایا
پانی نے لکھا آئینے پہ عید مبارک
تم جو مرے شعروں کے مخاطب تھے نہ ہو گے
آخر میں تمہیں صرف تمہے عید مبارک