آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
Poet: فیض احمد فیض By: ہارون فضیل, Islamabadآ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
 جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا 
 جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے 
 دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا 
 
 آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر 
 اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے 
 کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے 
 جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے 
 
 تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں 
 اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے 
 تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور 
 جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے 
 
 تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ 
 زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے 
 تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں 
 تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے 
 
 ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے 
 اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں 
 ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے 
 جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں 
 
 عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی 
 یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے 
 زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا 
 سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے 
 
 جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے 
 اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں 
 نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب 
 بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں 
 
 جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت 
 شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے 
 آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ 
 اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے
میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشت فلک میں تارے تھے
عمر جاوید کی دعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی
دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیضؔ ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
Main Ne Samjha Tha Ki Tu Hai To Darakhshan Hai Hayat
Tera Gham Hai To Gham E Dahr Ka Jhagda Kya Hai
Teri Surat Se Hai Aalam Mein Bahaaron Ko Sabaat
Teri Aankhon Ke Siwa Duniya Mein Rakkha Kya Hai
Tu Jo Mil Jae To Taqdir Nigun Ho Jae
Yun Na Tha Main Ne Faqat Chaha Tha Yun Ho Jae
Aur Bhi Dukh Hain Zamane Mein Mohabbat Ke Siwa
Rahaten Aur Bhi Hain Wasl Ki Rahat Ke Siwa
An Ginat Sadiyon Ke Tarik Bahimana Tilism
Resham O Atlas O Kamkhab Mein Bunwae Hue
Ja Ba Ja Bikte Hue Kucha O Bazar Mein Jism
Khak Mein Luthde Hue Khun Mein Nahlae Hue
Jism Nikle Hue Amraaz Ke Tannuron Se
Pip Bahti Hui Galte Hue Nasuron Se
Laut Jati Hai Udhar Ko Bhi Nazar Kya Kije
Ab Bhi Dilkash Hai Tera Husn Magar Kya Kije
Aur Bhi Dukh Hain Zamane Mein Mohabbat Ke Siwa
Rahaten Aur Bhi Hain Wasl Ki Rahat Ke Siwa
Mujh Se Pahli Si Mohabbat Meri Mahbub Na Mang







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 