آؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کر دیں
Poet: اسرار الحق مجاز By: Ghani, Lahoreآؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کر دیں
ہر گل و لالہ کو رقصاں و غزل خواں کر دیں
عقل ہے فتنۂ بیدار سلا دیں اس کو
عشق کی جنس گراں مایہ کو ارزاں کر دیں
دست وحشت میں یہ اپنا ہی گریباں کب تک
ختم اب سلسلۂ چاک گریباں کر دیں
خون آدم پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
جنہیں انساں نہیں کہتے انہیں انساں کر دیں
دامن خاک پہ یہ خون کے چھینٹے کب تک
انہیں چھینٹوں کو بہشت گل و ریحاں کر دیں
ماہ و انجم بھی ہوں شرمندۂ تنویر مجازؔ
دشت ظلمات میں اک ایسا چراغاں کر دیں
More Asrar ul Haq Majaz Poetry
آؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کر دیں آؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کر دیں
ہر گل و لالہ کو رقصاں و غزل خواں کر دیں
عقل ہے فتنۂ بیدار سلا دیں اس کو
عشق کی جنس گراں مایہ کو ارزاں کر دیں
دست وحشت میں یہ اپنا ہی گریباں کب تک
ختم اب سلسلۂ چاک گریباں کر دیں
خون آدم پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
جنہیں انساں نہیں کہتے انہیں انساں کر دیں
دامن خاک پہ یہ خون کے چھینٹے کب تک
انہیں چھینٹوں کو بہشت گل و ریحاں کر دیں
ماہ و انجم بھی ہوں شرمندۂ تنویر مجازؔ
دشت ظلمات میں اک ایسا چراغاں کر دیں
ہر گل و لالہ کو رقصاں و غزل خواں کر دیں
عقل ہے فتنۂ بیدار سلا دیں اس کو
عشق کی جنس گراں مایہ کو ارزاں کر دیں
دست وحشت میں یہ اپنا ہی گریباں کب تک
ختم اب سلسلۂ چاک گریباں کر دیں
خون آدم پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
جنہیں انساں نہیں کہتے انہیں انساں کر دیں
دامن خاک پہ یہ خون کے چھینٹے کب تک
انہیں چھینٹوں کو بہشت گل و ریحاں کر دیں
ماہ و انجم بھی ہوں شرمندۂ تنویر مجازؔ
دشت ظلمات میں اک ایسا چراغاں کر دیں
Ghani
دھواں سا اک سمت اٹھ رہا ہے شرارے اڑ اڑ کے آ رہے ہیں دھواں سا اک سمت اٹھ رہا ہے شرارے اڑ اڑ کے آ رہے ہیں
یہ کس کی آہیں یہ کس کے نالے تمام عالم پہ چھا رہے ہیں
نقاب رخ سے اٹھا چکے ہیں کھڑے ہوئے مسکرا رہے ہیں
میں حیرتئ ازل ہوں اب بھی وہ خاک حیراں بنا رہے ہیں
ہوائیں بے خود فضائیں بے خود یہ عنبر افشاں گھٹائیں بے خود
مژہ نے چھیڑا ہے ساز دل کا وہ زیر لب گنگنا رہے ہیں
یہ شوق کی واردات پیہم یہ وعدۂ التفات پیہم
کہاں کہاں آزما چکے ہیں کہاں کہاں آزما رہے ہیں
صراحیاں نو بہ نو ہیں اب بھی جماہیاں نو بہ نو ہیں اب بھی
مگر وہ پہلو تہی کی سوگند اب بھی نزدیک آ رہے ہیں
وہ عشق کی وحشتوں کی زد میں وہ تاج کی رفعتوں کے آگے
مگر ابھی آزما رہے ہیں مگر ابھی آزما رہے ہیں
عطا کیا ہے مجازؔ فطرت نے وہ مذاق لطیف ہم کو
کہ عالم آب و گل سے ہٹ کر اک اور عالم بنا رہے ہیں
یہ کس کی آہیں یہ کس کے نالے تمام عالم پہ چھا رہے ہیں
نقاب رخ سے اٹھا چکے ہیں کھڑے ہوئے مسکرا رہے ہیں
میں حیرتئ ازل ہوں اب بھی وہ خاک حیراں بنا رہے ہیں
ہوائیں بے خود فضائیں بے خود یہ عنبر افشاں گھٹائیں بے خود
مژہ نے چھیڑا ہے ساز دل کا وہ زیر لب گنگنا رہے ہیں
یہ شوق کی واردات پیہم یہ وعدۂ التفات پیہم
کہاں کہاں آزما چکے ہیں کہاں کہاں آزما رہے ہیں
صراحیاں نو بہ نو ہیں اب بھی جماہیاں نو بہ نو ہیں اب بھی
مگر وہ پہلو تہی کی سوگند اب بھی نزدیک آ رہے ہیں
وہ عشق کی وحشتوں کی زد میں وہ تاج کی رفعتوں کے آگے
مگر ابھی آزما رہے ہیں مگر ابھی آزما رہے ہیں
عطا کیا ہے مجازؔ فطرت نے وہ مذاق لطیف ہم کو
کہ عالم آب و گل سے ہٹ کر اک اور عالم بنا رہے ہیں
Qaiser
وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں
ورنہ میری نگہ شوق بھی مجبور نہیں
خاطر اہل نظر حسن کو منظور نہیں
اس میں کچھ تیری خطا دیدۂ مہجور نہیں
لاکھ چھپتے ہو مگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہو نزدیک نہیں دور نہیں
جرأت عرض پہ وہ کچھ نہیں کہتے لیکن
ہر ادا سے یہ ٹپکتا ہے کہ منظور نہیں
دل دھڑک اٹھتا ہے خود اپنی ہی ہر آہٹ پر
اب قدم منزل جاناں سے بہت دور نہیں
ہائے وہ وقت کہ جب بے پیے مدہوشی تھی
ہائے یہ وقت کہ اب پی کے بھی مخمور نہیں
حسن ہی حسن ہے جس سمت اٹھاتا ہوں نظر
اب یہاں طور نہیں برق سر طور نہیں
دیکھ سکتا ہوں جو آنکھوں سے وہ کافی ہے مجازؔ
اہل عرفاں کی نوازش مجھے منظور نہیں
ورنہ میری نگہ شوق بھی مجبور نہیں
خاطر اہل نظر حسن کو منظور نہیں
اس میں کچھ تیری خطا دیدۂ مہجور نہیں
لاکھ چھپتے ہو مگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہو نزدیک نہیں دور نہیں
جرأت عرض پہ وہ کچھ نہیں کہتے لیکن
ہر ادا سے یہ ٹپکتا ہے کہ منظور نہیں
دل دھڑک اٹھتا ہے خود اپنی ہی ہر آہٹ پر
اب قدم منزل جاناں سے بہت دور نہیں
ہائے وہ وقت کہ جب بے پیے مدہوشی تھی
ہائے یہ وقت کہ اب پی کے بھی مخمور نہیں
حسن ہی حسن ہے جس سمت اٹھاتا ہوں نظر
اب یہاں طور نہیں برق سر طور نہیں
دیکھ سکتا ہوں جو آنکھوں سے وہ کافی ہے مجازؔ
اہل عرفاں کی نوازش مجھے منظور نہیں
Asrar
اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم
کیا پوچھتے ہو جھومتے آئے کہاں سے ہم
پی کر اٹھے ہیں خمکدۂ آسماں سے ہم
کیوں کر ہوا ہے فاش زمانہ پہ کیا کہیں
وہ راز دل جو کہہ نہ سکے راز داں سے ہم
ہمدم یہی ہے رہ گزر یار خوش خرام
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے
الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم
ہر نرگس جمیل نے مخمور کر دیا
پی کر اٹھے شراب ہر اک بوستاں سے ہم
ٹھکرا دیئے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے
گھبرا چکے تھے کشمکش امتحاں سے ہم
دیکھیں گے ہم بھی کون ہے سجدہ طراز شوق
لے سر اٹھا رہے ہیں ترے آستاں سے ہم
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ
ڈرتے نہیں سیاست اہل جہاں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم
کیا پوچھتے ہو جھومتے آئے کہاں سے ہم
پی کر اٹھے ہیں خمکدۂ آسماں سے ہم
کیوں کر ہوا ہے فاش زمانہ پہ کیا کہیں
وہ راز دل جو کہہ نہ سکے راز داں سے ہم
ہمدم یہی ہے رہ گزر یار خوش خرام
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے
الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم
ہر نرگس جمیل نے مخمور کر دیا
پی کر اٹھے شراب ہر اک بوستاں سے ہم
ٹھکرا دیئے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے
گھبرا چکے تھے کشمکش امتحاں سے ہم
دیکھیں گے ہم بھی کون ہے سجدہ طراز شوق
لے سر اٹھا رہے ہیں ترے آستاں سے ہم
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ
ڈرتے نہیں سیاست اہل جہاں سے ہم
Umair Khan
جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
تقاضے کیوں کروں پیہم نہ ساقی
کسے یاں فکر بیش و کم نہیں ہے
ادھر مشکوک ہے میری صداقت
ادھر بھی بد گمانی کم نہیں ہے
مری بربادیوں کا ہم نشینو
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے
ابھی بزم طرب سے کیا اٹھوں میں
ابھی تو آنکھ بھی پر نم نہیں ہے
بہ ایں سیل غم و سیل حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے
مجازؔ اک بادہ کش تو ہے یقیناً
جو ہم سنتے تھے وہ عالم نہیں ہے
مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
تقاضے کیوں کروں پیہم نہ ساقی
کسے یاں فکر بیش و کم نہیں ہے
ادھر مشکوک ہے میری صداقت
ادھر بھی بد گمانی کم نہیں ہے
مری بربادیوں کا ہم نشینو
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے
ابھی بزم طرب سے کیا اٹھوں میں
ابھی تو آنکھ بھی پر نم نہیں ہے
بہ ایں سیل غم و سیل حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے
مجازؔ اک بادہ کش تو ہے یقیناً
جو ہم سنتے تھے وہ عالم نہیں ہے
salam






