آؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کر دیں
ہر گل و لالہ کو رقصاں و غزل خواں کر دیں
عقل ہے فتنۂ بیدار سلا دیں اس کو
عشق کی جنس گراں مایہ کو ارزاں کر دیں
دست وحشت میں یہ اپنا ہی گریباں کب تک
ختم اب سلسلۂ چاک گریباں کر دیں
خون آدم پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
جنہیں انساں نہیں کہتے انہیں انساں کر دیں
دامن خاک پہ یہ خون کے چھینٹے کب تک
انہیں چھینٹوں کو بہشت گل و ریحاں کر دیں
ماہ و انجم بھی ہوں شرمندۂ تنویر مجازؔ
دشت ظلمات میں اک ایسا چراغاں کر دیں