آئے قرار دل کو نہیں احتمال تک
پوچھا نہیں ہے اس نے مرا حال چال تک
اس طور بے خبر وہ مرے حال سے ہوا
آتا نہیں ہے اس کو مرا اب خیال تک
یوں دل میں جا بجا وہ سراپا بکھر گیا
ازبر ہوئے ہیں اس کے مجھے خدوخال تک
خطرات کوئے یار میں ہر اک قدم پہ ہیں
اس میں تو رہ گئے ہیں بڑے باکمال تک
ان دوستوں کے وار میں کیسے سہوں بھلا
اس رزم میں نہیں ہے مرے پاس ڈھال تک
چاہت سے عشق تک کی منازل عجیب ہیں
یہ اک سفر زوال سے ہے لا زوال تک
سعدی یہ دل ہوا ہے ترا چُور اس طرح
ملتی نہیں ہے جس کی جہاں میں مثال تک