فلک پر بادلوں میں چُھپا ٹوٹا میں تارا ہوں
فلک کہنے لگا مجھ سے تیری تصویر کیسی ہے
لگایا اپنی قسمت کو کسوٹی پر پرکھنے کو
وہاں آواز بُلند آئی تیری تقدیر کیسی ہے
تڑپتے جو نہیں اب بھی حرم میں سر رگڑنے کو
رہے ہیں بے خبر کعبہ تیری تعمیر کیسی ہے
ہوا جس آب کا پینا تم پر اے حاجیوں لازم
دکھا دے مجھ کو بھی زم زم تیری تاثیر کیسی ہے
حالت اب میری ایسی کہ محفل میں رہا خاموش
واقف شاہجہان نہیں کوئی تیری تقریر کیسی ہے