آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گزرو گے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا
اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر
شیشہ اگر بنوگے تو پتھر بھی آئے گا
سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروان شوق
رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئے گا
دیر و حرم میں خاک اڑاتے چلے چلو
تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا
بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں
قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا
سرشار ہو کے جا چکے یاران مے کدہ
ساقی ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا
اس واسطے اٹھاتے ہیں کانٹوں کے ناز ہم
اک دن تو اپنے ہاتھ گل تر بھی آئے گا
اتنی بھی یاد خوب نہیں عہد عشق کی
نظروں میں ترک عشق کا منظر بھی آئے گا
روداد عشق اس لیے اب تک نہ کی بیاں
دل میں جو درد ہے وہ زباں پر بھی آئے گا
جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو
کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا