Add Poetry

آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا

Poet: Naushad Ali By: yusrah, isl
Abadiyon Mein Dasht Ka Manzar Bhi Aayega

آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گزرو گے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا

اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر
شیشہ اگر بنوگے تو پتھر بھی آئے گا

سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروان شوق
رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئے گا

دیر و حرم میں خاک اڑاتے چلے چلو
تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا

بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں
قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا

سرشار ہو کے جا چکے یاران مے کدہ
ساقی ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا

اس واسطے اٹھاتے ہیں کانٹوں کے ناز ہم
اک دن تو اپنے ہاتھ گل تر بھی آئے گا

اتنی بھی یاد خوب نہیں عہد عشق کی
نظروں میں ترک عشق کا منظر بھی آئے گا

روداد عشق اس لیے اب تک نہ کی بیاں
دل میں جو درد ہے وہ زباں پر بھی آئے گا

جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو
کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا

Rate it:
Views: 1176
11 Jan, 2017
More Naushad Ali Poetry
آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو
نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو
حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو
بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو
ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری
ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو
اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر
بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو
خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر
کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو
مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری
رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو
وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے
چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو
پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن
گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو
لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور
پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو
میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو
تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
ماہ و انجم پہ نہ پھر اپنے کبھی ناز کرے
دیکھ لے چرخ کسی دن جو ہمارے آنسو
یوں ہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشادؔ
آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو
Manahil
نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا
ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا
گھٹا چھاتی بہار آتی تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا
زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے
نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا
ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے
نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا
مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے
جلا تھا جب تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا
ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں
کنارے آپ ہوتے اور سفینہ ڈوبتا ہوتا
ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن
تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا
بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے اشارہ کر دیا ہوتا
ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے
تجھے نوشادؔ کیسی چپ لگی کچھ تو کہا ہوتا
 
Jabbar
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets