آتش کو حکم دے کر جہاں کو بتا دیا
تاثیر ہے جو آگ کی اس کو مٹا دیا
دریا میں راہیں دے کر کسی کو بچا لیا
دریا کو حکم دے کر کسی کو ڈبا دیا
مچھلی کے پیٹ میں بھی حفاظت کسی کی کی
بیمار کو شفا دی کسی کو دھنسا دیا
دشمن کی گھیرا بندی بھی ناکام ہوگئی
ان کے ہی جال میں تو انہیں کو پھنسا دیا
دی قید سے رہائی تو حاکم بنا دیا
لوٹائی بھی بینائی پسر کو ملا دیا
کاٹا نہ تو چھری نے کہ وہ کند ہوگئی
پیاسے تڑپنے پر کبھی چشمہ بہا دیا
طوفان میں بھی کشتی سلامت ہی تو رہی
بستی کی بستی پوری اٹھا کر گرا دیا
اس کے کرم کو اثر نے دیکھا ہے غور سے
جو بھی تھا ادنیٰ اس کو تو اعلیٰ بنادیا