آج بھی تشنہ لبی تشنہ لبی ہے اے دوست
کیا نہ چھلکے گی جو آنکھوں میں بھری ہے اے دوست
جو کمی پہلے تھی وہ پھر بھی کمی ہے اے دوست
یہ جو تھوڑی سی ہنسی زیر لبی ہے اے دوست
آپ کو دیکھ مرے ذوق فنا کو بھی دیکھ
یہ تری شیشہ گری درد سری ہے اے دوست
مئے گلفام میں کچھ درد تہ جام سہی
وہ خوشی کیسی خوشی جس میں کمی ہے اے دوست
خاک میں رنگ گلستاں کو بھلا دیکھ سکوں
مری آنکھوں میں اگر اتنی نمی ہے اے دوست
تاب پرواز تھی جن کو وہ گئے بھی مسعودؔ
ہم کہاں جائیں کہ بے بال و پری ہے اے دوست