آج لب گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا
تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ تھے
میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا
مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تو مرے بازوؤں میں ہے
یعنی تجھے ابھی تلک میں نے رہا نہیں کیا
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
ہاں وہ نگاہ ناز بھی اب نہیں ماجرا طلب
ہم نے بھی اب کی فصل میں شور بپا نہیں کیا