آج نوکر نہیں آیا ہے تو نوکر ہوں میں
آپ کے حکم سے گاڑی کا ڈریور ہوں میں
کبھی دھوبی کبھی مالی کبھی بٹلر ہوں میں
کبھی اندر کبھی باہر کبھی چھت پر ہوں میں
اب یہ کہتی ہو کہ برتن بھی تمہیں دھو ڈالو
کیوں نہ دھو ؤ وں گا اے جاناں ترا دلبر ہوں میں
پوتڑے سی کے دیئے ہیں ابھی بچوں کے کل
مان کر دیتی نہیں پھر بھی کہ ٹیلر ہوں میں
بچّے سنتے ہیں مری اور نہ تم سنتی ہو
یعنی اِس مجلسِ شوریٰ کا سپیکر ہوں میں
ٹھیک بتلاؤ کہ کیا خرچ کیا ہے تُو نے
کیا سمجھتی ہو مڈل فیل منسٹر ہوں میں
جھوٹ ہی جھوٹ تو مجھ سے نہیں بولا جاتا
قوم کا تُو نے سمجھ رکھا ہے لیڈر ہوں میں
تمہیں تو چاہئے کرنی مری عزت کچھ تو
ترے بچّوں کا اگر سوچ کے فادر ہوں میں
ہر جگہ فٹ کئے دیتی ہو جہاں چاہتی ہو
ترا شوہر ہوں اے بیگم نہ کے جوکر ہوں میں